میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فلسطین اسرائیل تنازع پرامریکااپنی دیرینہ پالیسی سے مکر گیا

فلسطین اسرائیل تنازع پرامریکااپنی دیرینہ پالیسی سے مکر گیا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

پالیسی میں ممکنہ تبدیلی کا عندیہ دینے والے وائٹ ہاو¿س کے افسر کا نام منظر عام پر نہیں آیا، امریکی دفتر خارجہ معاملے سے بے خبر
حالیہ موقف اس معاملے میں امریکا کی تاریخی ثابت قدمی سے متصادم،پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت سمجھا جا رہا ہے
ابو محمد
وائٹ ہاو¿س کا کہنا ہے کہ” واشنگٹن اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے اب دو ریاستی حل کو بنیاد شمار کرنے کا مزید پابند نہیں رہا۔“مذکورہ افسر کے اس بیان کو امریکا کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کے وہائٹ ہاو¿س کے حالیہ دورے کے بعد سامنے آنے والا یہ موقف اس معاملے میں امریکا کی تاریخی ثابت قدمی سے متصادم ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر امریکی حکومت اسرائیل فلسطین تنازعے کے ’دو ریاستی حل‘ کی حمایت کرتی رہی ہے جس کے تحت ایک الگ فلسطینی ریاست کے قیام کا تصور دیا جاتا ہے۔ لیکن منگل کو وائٹ ہاو¿س کے ایک سینیئر افسر نے تجویز دی کہ امریکا دو ریاستی حل کے علاوہ بھی اس قسم کے کسی حل کی حمایت کرے گا جس پر فلسطینی اور اسرائیل دونوں متفق ہو جائیں۔ اس تجویز کا مطلب یہ ہے کہ امریکا اس تنازعے کے حل کے حوالے سے اپنے دیرینہ مو¿قف سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہو سکتا ہے۔امریکی پالیسی میں ممکنہ تبدیلی کا عندیہ دینے والے وائٹ ہاو¿س کے افسر کا نام منظر عام پر نہیں آیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ وہ امن ممکن ہے جس کی بات ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کی مکمل حمایت کریں گے اور ان تعلقات کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کریں گے جو صدر اوباما کے دور میں خراب ہو گئے تھے۔یاد رہے کہ سابق صدر اوباما مقبوضہ غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کے قیام کے شدید ناقد تھے۔
خبر رساں ادارے اسیوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ جب امریکی دفتر خارجہ کے افسران سے امریکی پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں بے خبر ہیں۔
ادھر فلسطینی حکام نے بھی وائٹ ہاو¿س کے افسر کے مذکورہ بیان پر حیرت کا اظہار کیا ہے ،تنظیمِ آزادی فسطین ( پی ایل او) کی مجلس عاملہ کی رکن حنان اشروی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ پالیسی کوئی ذمہ دارانہ حکمت عملی نہیں ہے اور اس سے امن کا مقصد حاصل نہیں ہوتا،دو ریاستی حل کوئی ایسا حل نہیں جو ہم نے سوچے سمجھے بغیر ہی تجویز کر دیا ہو۔
حنان عشراوی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے دو ریاستی حل کی حمایت ختم کیے جانے سے مشرق وسطیٰ امن عمل کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے اس پیشرفت کو ’غیر ذمہ دارانہ عمل‘ قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی سینیئر رہنما حنان عشراوی کے حوالے سے بتایا کہ امریکا کی طرف سے اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل سے پیچھے ہٹنے سے خطے میں قیام امن کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی اور فلسطینی تنازعے کے حل کی خاطر کسی متبادل راستے کو پیش کیے بغیر دو ریاستی حل سے پیچھے ہٹ جانا مناسب نہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس عندیے سے قبل امریکا میں گزشتہ تقریباً پچاس برسوں کے دوران برسر اقتدار رہنے والی دونوں سیاسی جماعتیں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی دو ریاستی حل کو اپنی مشرق وسطیٰ پالیسی کا اہم جزو قرار دیتی رہی ہیں۔تاہم ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ابھی تک فلسطینی خود مختار انتظامیہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
دوسری طرف غزہ میں سرگرم فلسطینیوں کی نمائندہ سمجھی جانے والی اسلامی تحریک حماس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے یہ اعلان ’اس بات کی تصدیق ہے کہ نام نہاد امن عمل ایک فریب تھا‘۔ پی ایل او کے برعکس حماس اسرائیل کو بطور ایک ریاست تسلیم نہیں کرتی۔ یہ تحریک مغربی اردن کے علاقے میں قائم فلسطینی انتظامیہ پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکراتی عمل ترک کر دے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں