میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی،علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان

پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی،علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۶ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان میں ہرسال 53 ہزار بچے ہیضے کاشکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں
عوام کوپینے کے لیے صاف پانی‘صحت کی سہولیات فراہم کرناحکومت کی ذمے داری ‘بلندوبانگ دعووں کے سواکچھ نہیں کیاجارہا
اس سال بارش کے بعد بچوں کواسہال ‘ہیضے اورملیریاسے بچائوکے ٹیکے لگانے کی مہم شروع کی گئی نہ ہی کوئی دوسرامناسب اقدام ہوا
ارباب حکومت کو قومی خزانے کی لوٹ مار سے اتنی فرصت نہیں کہ وہ غریب اور کم وسیلہ افراد کو مناسب سہولتیں فراہم کرنے پر غور کرسکیں
آلودگی پرقابوپانے میں ناکامی میں دیگرصوبوں کے مقابلے میں پنجاب سب سے آگے نظرآتاہے‘جہاں ہزاروں درخت کاٹے جاچکے
پنجاب کے مختلف شہرو ںمیں درخت نہ کاٹے جاتے تولاہوراورملتان کے گردونواح کے عوام کوسموگ کاعذاب برداشت نہ کرناپڑتا
صبا حیات
پاکستان میں حکومت کی جانب سے شہریوں کوصاف پانی کی فراہمی میں ناکامی ،اور علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے ہرسال 53 ہزار بچے ہیضے اور اسہال کے مرض کاشکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیںجبکہ علاج معالجے کی فوری اور بہتر سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے ان کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں ،اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر بچوں اور بڑوں کو ان امراض کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رکھا جاسکتاہے۔
پاکستان میں کمسن بچوں کی اموات کایہ وہ سبب ہے حکومت بھی جسے تسلیم کرتی ہے لیکن ارباب حکومت کو قومی خزانے کی لوٹ مار سے اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے غریب اور کم وسیلہ افراد کو مناسب سہولتیں فراہم کرنے پر غور کرسکیں ،اور ہسپتالوں کی عالی شان عمارتیں تعمیر کرنے کے بعد ان میں فرض شناس عملہ تعینات کرنے ،عملے کی کارکردگی کی سختی کے ساتھ مانیٹرنگ کرنے اورضروری دوائوںکی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان دوائوں کی چوری اور خوردبرد روکنے کے لیے اقدامات کرسکیں۔
پنجاب کے تعمیرات اور مواصلات سے متعلق وزیر رانا تنویر اسلم اعوان نے گزشتہ روزہاتھ دھونے کے عالمی دن کے موقع پرایچ یوڈی اورپنجاب کے محکمہ صحت کے اشتراک سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کااعتراف کیاکہ پاکستان میں کمسن بچوں کی اموات کا بڑا سبب ہیضہ، اسہال،نمونیہ اورغذائیت کی کمی سے پیداہونے والی بیماریاں ہیں انھوں نے اس بات کااعتراف کیا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اور علاج معالجے کی بروقت اور بہتر سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے ان بچوں کو قبل از وقت موت کے منہ میں جانے سے بچایاجاسکتاہے۔
رانا تنویر اسلم اعوان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان میں صرف ہیضہ اور اسہال کی بیماری میں مبتلا ہوکر ہر سال 53 ہزار بچوں کی اموات یقینی طورپر ایک تشویشناک بات ہے ، اوراحتیاطی تدابیر اوربروقت علاج معالجے کی فراہمی کو یقینی بناکر ان قابل علاج امراض کی روک تھا م کی جاسکتی ہے۔تاہم انھوں نے اس سلسلے میں سرکاری سطح پر کوئی ذمے داری قبول کرنے کے بجائے یہ کہہ کر حکومت کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ایک ترقی پذیر اور کم وسیلہ ملک کی حیثیت ہم سب کو مل کر اس صورت حال پر کنٹرول کی کوششیں کرنی چاہئیں ۔
رانا تنویر حسین نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جہاں اس سیمینار کا اہتمام کرنے پر اس کے منتظمین اور مہتمین کی کوششوں کو سراہا وہیں یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی کہ موجودہ حکومت عوام کو علاج معالجے کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کی کوششیں کررہی ہے اور اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی سطح پر شروع اور مکمل کیے جانے والے علاج معالجے کے مختلف پراجیکٹس کے نام گنوانے کے علاوہ ہسپتالوں میں دوائوں کی فراہمی کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور انتظامات کاذکر کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوام کو علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش ہے لیکن حکومت کی کارکردگی گنواتے ہوئے انھوں نے حکومت کی جانب سے پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ قرار دئیے جانے والے پنجاب میں جہاں کے بزعم خود خادم پنجاب عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے خود کو دن رات مصروف قرار دیتے نہیں تھکتے سڑکوں پر بچوں کی پیدائش کے پے درپے واقعات اور ہسپتالوں میں بستروں کی کمی کے سبب ہسپتال کے باہر سبزے پر چادر بچھاکر بچوں کو لٹاکر انھیں ڈرپ لگانے کے لیے درختوں کاسہارا لیے جانے کے واقعات کا ذکر کرنے سے گریز کیا اور اس حوالے سے بعض صحافیوں کے سوالات پر انتہائی ناگواری کااظہار کرتے ہوئے اسے متعلقہ ہسپتالوں کے عملے کی بد انتظامی کا نتیجے قرار دیتے ہوئے ان معاملات کی تحقیقاتی رپورٹ کے انتظار کا عذر تراش کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔
جہاںتک ہیضے اور اسہال سے ہر سال 53 ہزار کمسن بچوںکی ہلاکتوں کا تعلق ہے تو میرے خیال میں یہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والی اموات کے اعدادوشمار ہیں جبکہ ہسپتالوں میں داخلہ نہ ملنے کے سبب سڑکوں ،گلیوں، بازاروں اور گھروں میں دم توڑدینے بچوںکی تعداد اس کے علاوہ اور اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔سابقہ ادوار میں بارشوں کاموسم شروع ہوتے ہی حکومت کی جانب سے لوگوںاور خاص طورپر بچوں کو ہیضہ ،اسہال اور ملیریا سے بچائو کے ٹیکے لگانے کی مہم شروع کی جاتی تھی،لیکن گزشتہ کئی سال وفاقی ، صوبائی اور بلدیاتی کسی بھی سطح پر اس طرح کی مہم شروع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور اگر کہیں کسی ادارے نے اس طرح کی مہم شروع بھی کی ہوگی تو وہ محض کاغذی خانہ پری تک ہی محدود رکھی گئی ہوگی کیونکہ عام آدمی کو اس طرح کی کسی مہم کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ ڈینگی کے مریضوں میں اضافے اور اخبارات اور میڈیا بہت شور شرابے کے بعد حکومت نے بمشکل چند روز کے لیے اس حوالے سے مچھر مار اسپرے کی مہم شروع کی اور یہ مہم بھی مختلف شہروں کے چند مخصوص علاقوں تک ہی محدود رکھی گئی ۔
جہاں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی کاتعلق ہے تو حکومت یہ تو تسلیم کرتی ہے کہ عوام کو پینے کاصاف پانی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہر شہری کایہ بنیادی حق ہے کہ پینے کے لیے صاف پانی فراہم کیاجائے اور سانس لینے کے لیے آلودگی سے پاک ماحول فراہم کیاجائے لیکن حکومت کی جانب سے بلند بانگ دعووں کے باوجود ابھی تک اس حوالے سے نہ صرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی بلکہ حکومت خاص طورپر پنجاب کی حکومت بعض ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں شہروں کو درختوں سے محروم کرنے کے عمل میں شریک نظر آتی ہے اور صرف لاہور اورملتان میں ہزاروں درخت کاٹے جاچکے ہیں، ان درختوں کی کٹائی کے وقت اخبارات میں اور میڈیا میں جب اعتراضات اٹھائے گئے تو حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ ہرکاٹے جانے والے ایک درخت کی جگہ 10 درخت لگائے جائیں گے ،لیکن 4 سال گزرنے کے باوجود ان کاٹے گئے درختوں کی جگہ ایک پودا بھی نہیں لگایاجاسکا جبکہ اگر درختوں کی کٹائی کے ساتھ ہی اگر متبادل قریبی مقامات پرپودے لگانے کاکام بھی شروع کردیاجاتاتو آج یہ پودے تناور درخت بن چکے ہوتے اور لاہور، ملتان اور گردونواح کے شہریوں کو سموگ کے اس عذاب کاسامنا نہ کرنا پڑتا جس کی ابتدا ہوچکی ہے اور سردی میں اضافے کے ساتھ ہی اس میں بھی اضافہ ہوتاچلاجائے گا ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایک سال میں ہیضہ اور اسہال سے 53 ہزار کمسن بچوں کی اموات کے واقعات کاسنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور ان امراض کی روک تھام اور خاص طور پر دوردراز دیہی علاقوں میں اس کے علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی اور دیہی علاج مراکز اور ہسپتالوں کی کارکردگی میں بہتری کویقینی بنانے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ اس ملک کے غریب اور کم وسیلہ عوام کے بچوں کو قبل از وقت موت کے منہ میں جانے سے بچایاجاسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں