وفاقی حکومت نے کتنے ملکی وغیر ملکی قرضے لیے؟
شیئر کریں
ویسے توقیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کھربوں روپے کے ملکی وغیرملکی قرضے لیے ہیں اور پھر یہ ایک میوزیکل چیز کی طرح پورا ایک مافیا اس قرضے سے ملکی اور بیرونی سطح پر کمیشن لے کر اپنا پیٹ بھرتارہا ہے ۔ اس طرح جتنا بھی قرضہ لیا جاتا ہے اس کا 40 فیصد حصہ کمیشن کی نذر ہوجاتا ہے اور بقیہ 60 فیصد رقم کو جب ترقیاتی منصوبوں پر لگایا جاتا ہے تو اس میں سے بھی 35 فیصد رقم سرکاری افسران اور وزراء کی کمیشن چلی جاتی ہے اور باقی 20سے 25 فیصد رقم ہی خرچ ہوتی ہے۔ اگردیکھاجائے تو حقیقی معنوں میں صرف 15 فیصد رقم ہی خرچ ہوپاتی ہے۔
یہ ایک ایسا کھیل ہے جو پچھلے 70 سال سے عوام کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔ عوامی منصوبوں کے لیے مختص 100 فیصد رقم میں سے 15 فیصد خرچ ہوتی ہے اور جواب میں عوام کے ٹیکسوں سے ہی وہی رقم 800 فیصد واپس کی جاتی ہے اس پورے گورکھ دھندے میں بیورو کریسی مکمل طور پر ملوث ہوتی ہے ۔وہی بیورو کریسی ڈاکٹر محبوب الحق سے لے کروی اے جعفری تک ڈاکٹر حفیظ شیخ سے لے کر اسحاق ڈار تک سرتاج عزیز سے لے کرشمشاد اختر تک سب کو پٹیاں پڑھائی جاتی ہیں اور پھر وزراء اور حکومتیں اس پر چلتی ہیں ،آج تک پاکستان کو ایک بھی وزیر خزانہ ایسا نہیں ملا جو پاکستان کے عوام کی ترجمانی کرے اور جو ورلڈ بینک اور یم آئی ایف سے کہے کہ پاکستان کو جب قرضہ دیاجاتا ہے تو اس کا پیشگی کمیشن وزراء اور بیورو کریٹس کو کیوں دیا جاتا ہے ؟اس طرح کوئی دلیر نہیں بنتا جو وزیر خزانہ آتا ہے اس کو بیورو کریسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آگے پیش کردیتی ہے اور ان کو پرانے وزراء کے لوازمات کے بارے میں بتایاجاتا ہے۔
جب نیا وزیر پرانے وزیر سے دو ہاتھ آگے نکل جاتا ہے تو پھر بیورو کریسی اور عالمی مالیاتی اداروں کو ٹھنڈ پڑجاتی ہے کیونکہ ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو قرضوں کے دلدل میں پھنسادیاجائے اور پھر پاکستان کہیں کا نہ رہے ۔ہر سال مہنگائی میں اضافہ کیاجاتاہے۔تیل کی عالمی مارکیٹ میں قیمت 35 روپے سے 38روپے فی لیٹر ہے ،لیکن پاکستان میں عالمی مالیاتی ادارے اور بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ سے یہ تیل 75روپے فی لیٹر فروخت ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب تیل مہنگا ہوتا ہے تو سب کچھ مہنگا ہوجاتا ہے، مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے ،اشیاء خورد ونوش سے لے کر عام استعمال کی اشیاء تک چیز یں مہنگی ہوجاتی ہیں اور عوام بیچارے مہنگائی کی چکی میںپستے رہتے ہیں۔
حکمرانوں کواس کوئی غرض نہیں ان کے بیرون ممالک میں ڈالروں میں اکاؤنٹ کھلے ہوئے ہیں۔ جہاں سے ان کو ہر ماہ کروڑوں روپے کا سود ملتا ہے۔ وہ اپنی اولاد اور قریبی رشتے داروں کے ساتھ بیرون ممالک میں رہائش پذیر ہوتے ہیں اور یہاں آکر وہ صرف ہم جیسے غریبوں پر حکمرانی کرتے ہیں کمیشن کھاتے ہیں اور اربوں روپے لوٹ کر پھر اپنی رنگین دنیا میں واپس چلے جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت سندھ نے کھڑے پانی میں پتھر مارا ہے اور پانی میں ہلچل پیدا کردی ہے حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ کو بتایا جائے کہ 30 جون 2017 ء تک کتنے ملکی اور کتنے غیر ملکی قرضے لیے گئے؟حکومت سندھ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ حکومت سندھ نے بھی کہہ دیا ہے کہ دو افسران کا بھی بطور رابطہ افسر(فوکل پرسن) تقرر کیا گیا ہے ان میں احتشام اصغر اور شیب قیوم شامل ہیں جن کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ جاکر وفاقی وزارت خزانہ اور اکنامک افیئر ڈویژن کے ساتھ ملاقات کریں اور اعداد وشمار کا ایک دوسرے سے تبادلہ کریں تاکہ پتہ چل سکے کہ حکومت سندھ نے اب تک کتنا قرض لیا ہے؟ اور اس میں صوبوں کو کتنا حصہ دیا ہے؟اور پھر جب وصولی کی جائے گی تو کتنی رقم صوبوں سے وصول کی جائے گی ۔کیونکہ ماضی میں صوبوں کو کم قرضے دیئے گئے اور جب وصولی کا وقت آیا تو دس گنا رقم وصول کرلی گئی حکومت سندھ کے اس اقدام سے وفاقی حکومت سخت پریشان ہوگئی ہے کیونکہ وفاقی حکومت کسی بھی طور پر صوبوں سے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی تفصیلات شیئر نہیں کرتی لیکن اب حکومت سندھ نے قرضوں کا پوچھ کر وفاقی حکومت کو بھونچال میں ڈال دیاہے۔