میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نوازشریف کی متوقع واپسی: ن لیگ کی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس آ سکے گی؟

نوازشریف کی متوقع واپسی: ن لیگ کی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس آ سکے گی؟

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۵ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

٭ مسلم لیگ ن اس وقت مشکلات کا شکار ہے، پارٹی قیادت کی ملک میں عدم موجودگی اور عوام میں غیرمقبولیت نے سابق حکمراں جماعت کو ایک طرح سے بحران سے دوچار کیا ہے
٭نواز شریف کی واپسی سے مسلم لیگ ن کو فائدہ ہو گا لیکن جس طرح کے مسائل اور گھمبیر چیلنجز کا پارٹی کو سامنا ہے،ان سے پارٹی کو نکالنا مشکل ہو گا، صحافتی حلقے
٭ن لیگ کا بڑا چیلنج یہ ہے کہ نوجوان ووٹرز میں پارٹی کے لیے کوئی کشش یا اپیل نہیں، ایک عام تاثر ہے کہ مسلم لیگ ن کی سیاست کی بنیاد اقربا پروری اور برادری ازم پر ہے
٭مسلم لیگ ن اس وقت بہت زیادہ خوفزدہ ہے، ان کا سب سے بڑا مخالف عمران خان جیل میں ہے، لیکن پھر بھی ن لیگ انتخابات میں جانے کی ہمت نہیں کر پا رہی
٭ نواز شریف کا واپسی کے بعد پہلا چیلنج اپنے کیسز ہو گا، کیسز میں بریت کے بہت زیادہ امکانات ہیں لیکن چیلنج یہی ہے کہ عدالت سے اپنے آپ کو سرخرو کروائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ پھر قائد ن لیگ نوازشریف کی وطن واپسی کی تاریخ سامنے آگئی ہے۔شہباز شریف نے پورے ملک کو نواز شریف کی واپسی کا منتظر قرار دے دیا۔دعویٰ کیا کہ نواز شریف کو سازش کے تحت اقتدار سے ہٹایا گیا۔ معیشت اور ملک اسی جگہ سے ترقی کاسفر شروع کرے گا جہاں نواز شریف نے چھوڑاتھا۔ نوازشریف کی واپسی اور اس حوالے سے دعوے اپنی جگہ لیکن یہ سوال سیاسی اور صحافتی حلقوں میں زیربحث ہے کہ کیا نواز شریف کی واپسی سے مسلم لیگ ن کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ جائے گی اور جن چیلنجز کا پارٹی کو سامنا ہے اس سے یہ نکل آئے گی؟ اس وقت مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار ہے۔ پارٹی قیادت کی ملک میں عدم موجودگی اور عوام میں غیرمقبولیت نے سابق حکمراں جماعت کو ایک طرح سے بحران سے دوچار کیا ہے، اور اس کا ادراک پارٹی کی کی قیادت کو بھی کسی حد تک ہے جس کا اظہار وہ ٹی وی ٹاک شوز اور میڈیا سے گفتگو میں حالیہ دنوں میں کرتے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے گو کہ نواز شریف کی واپسی سے مسلم لیگ ن کو فائدہ ہو گا لیکن جس طرح کے مسائل اور گھمبیر چیلنجز کا پارٹی کو سامنا ہے ان سے پارٹی کو نکالنا مشکل ہو گا۔
صحافتی حلقے کہتے ہیں کہ نواز شریف لندن سے ہدایات دے رہے ہیں۔ ڈار صاحب کو وائسرائے کی طرح لندن سے بھیجا جس کی اپنی لائن ہے اور وہ کسی کی بات نہیں مان رہے تھے۔ نواز شریف صاحب بھی ڈار صاحب ہی کی سن رہے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کی اپنی لائن ہے اور مریم نواز کی الگ۔ایک بات تو طے ہے کہ مسلم ن لیگ میں ہر کوئی نواز شریف کو لیڈر مانتا ہے اور ان کی واپسی سے پارٹی میں لیڈرشب کا جو بحران ہے وہ تو حل ہوجائے گا۔ صحافتی حلقے سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے جو چیلنجز ہیں اور پارٹی کا بحران جس سطح پر ہے وہ نواز شریف کی واپسی سے حل ہونے والا نہیں۔کچھ حلقے کہتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی مسلم لیگ ن کے ورکرز کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔ نواز شریف کی واپسی سے مسلم لیگ ن کے مایوس رہنما، سابق اراکین اسمبلی اور کارکنان دوبارہ متحرک ہوں گے اوران کا جوش اور ولولہ بڑھے گا۔ مسلم لیگ ن کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے سوال پر ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی سیاست کا مرکزی نقطہ عوام کے لیے ریلیف رہا ہے۔ ان کو ان چیلنجز اور مسائل کا ادراک ہے۔نواز شریف کو پاکستان سے دور ہونے کے باوجود یہاں کے حالات و واقعات کا بہتر ادراک ہے۔شہباز شریف ایک اچھے منتظم تو ہیں لیکن ان کی انتظامی صلاحیتیں بھی اس وقت بروئے کار آئیں جب نواز شریف وزیراعظم تھے۔ نواز شریف لندن میں رہ کر پاکستان کے مسائل سے لاتعلق ہو چکے تھے۔ پی ڈیم ایم حکومت کے بہت سے مسائل بھی اس وجہ سے تھے کیونکہ میاں صاحب کو یہاں کی صورتحال کا درست ادراک نہیں تھا۔ ن لیگ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ نوجوان ووٹرز میں پارٹی کے لیے کوئی کشش یا اپیل نہیں۔ ایک عام تاثر ہے کہ مسلم لیگ ن کی سیاست کی بنیاد اقربا پروری اور برادری ازم پر ہے۔ ن لیگ ہی نہیں مین ا سٹریم کی جو دو تین پارٹیاں ہیں ان سب میں نوجوانوں کے لیے کوئی اپیل نہیں، یہ آؤٹ آف فیشن ہو چکے ہیں۔‘ اگر پارٹیوں کی تشکیل اور بنیاد جمہوری روایات پر ہوں تو بدلتے حالات کے ساتھ یہ خود بخود ایڈجسٹ کر جاتی ہے لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور ان کاا سٹرکچر جمہوری نہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اس وقت بہت زیادہ خوفزدہ ہے‘۔ ان کا سب سے بڑا مخالف عمران خان جیل میں ہے، پارٹی زیرعتاب ہے لیکن پھر بھی ن لیگ انتخابات میں جانے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔ یہ کبھی اسٹیبلشمنٹ اور کبھی کسی اور کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔سیاسی ماہرین کے مطابق پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی بات بھی قطعیت سے نہیں کی جا سکتی لیکن اگر فروری تک الیکشن نہیں ہوتے تو بحران شدید ہو گا۔ مارچ میں سینیٹ کے آدھے اراکین ریٹائر ہوجائیں گے اور ہاؤس آف فیڈریشن نامکمل ہو گا۔لامحالہ الیکشن تو کروانا پڑے گا۔نواز شریف کی واپسی کے اعلان کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے۔ سب کو ادراک ہے کہ بحران کا حل الیکشن کے بغیر نہیں نکالا جا سکتا۔ صحافتی حلقے سمجھتے ہیں کہ واپسی کے بعد نواز شریف کا پہلا چیلنج اپنے کیسز ہو گا۔ گوکہ کیسز میں بریت کے بہت زیادہ امکانات ہیں لیکن بہرحال پہلا چیلنج تو یہ ہوگا کہ عدالت سے اپنے آپ کو سرخرو کروائیں۔اگر نواز شریف کی بریت ہوتی ہے اور انتخابات لڑنے کے لیے اہل ہوتے ہیں تو یہ لیول پلیئنگ فیلڈ کی طرف ایک اہم پیش رفت ہوگا۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی زیرعتاب قیادت کو بھی ریلیف مل سکتا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا نواز شریف پھر سے وزیراعظم بن سکتے ہیں تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ گو کہ شہباز شریف تو نواز شریف کا نام اگلے وزیراعظم کے طور پر لے رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ شہاز شریف ہی کی قبولیت ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں