نگراں وزیراعظم عام انتخابات کو غیر جانبدارنہ بنائیں!
شیئر کریں
سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو پاکستان کا آٹھواں نگراں وزیر اعظم تعینات کیا گیا ہے، ان کا تعلق بلوچستان میں پشتونوں کے معروف کاکڑ قبیلے سے ہے۔ پاکستان کے نامزد نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ وہ ملک کی قیادت کے لیے اعتماد کرنے پر تمام ا سٹیک ہولڈرز کے شکر گزار ہیں۔ٹوئٹرپر اپنے پیغام میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’اللہ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے پاکستانی عوام کی خدمت کا موقع ملا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے ملک کی قیادت کے لیے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنی ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ ’سب سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذمہ داریاں پوری تندہی سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے،نگران وزیر اعظم سینیٹر انوار الحق کاکڑ بلوچستان عوامی پارٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانی کے چیئرمین ہیں، انہوں نے کوئٹہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے، بلوچستان یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی میں ماسٹرکیا۔سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے 2008 میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پرکوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا جس میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی،وہ 2013 میں بلوچستان حکومت کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل میں ان کا کلیدی کردار رہا، انوارالحق کاکڑ 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ وہ بلوچستان سے بننے والے دوسرے نگراں وزیراعظم ہیں۔اگرچہ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے یہ تاثر دیاتھا کہ انوارالحق کے نام پرتمام اتحادی جماعتوں سے مشورہ کیاگیاتھا لیکن مسلم لیگ ق شجاعت گروپ کے چیف آر گنائزر چودھری سرور کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کو نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورتی عمل میں شامل نہیں کیا گیا جو بات چودھری سرور نے کہی یہی اعتراض قوم پرست جماعتوں کو بھی ہے۔
نگراں وزیر اعظم کے حوالے سے سابق حکومت کے اتحادیوں کی جانب سے آنے والے اعتراضات اپنی جگہ صحیح بھی ہوسکتے ہیں لیکن آئینی اعتبار سے وزیراعظم کو اسمبلی میں موجود قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کے بعد نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان کرنے کا اختیار تھا،اور انھوں نے ایسا کردیا۔ آئین میں اتحادی پارٹیوں سے مشاورت کی کو ئی پابندی نہیں ہے،اس لیے چودھری سرو ر یا دیگر اتحادی جماعتوں کے اعتراض کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے اور اب ان سب کو نگراں حکومت کی جانب سے طے کیے جانے والے اصولوں اور طے کردہ شرائط پر ہی عمل کرنا ہوگا،اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وزارت پارلیمانی امور نے ملک کی 15 ویں قومی اسمبلی کی تحلیل کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس میں آئین کی دفعہ 58 کی ذیلی شق ایک کے تحت قومی اسمبلی کے علاوہ وفاقی کابینہ کے ارکان بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیے گئے ہیں، کابینہ ڈویژن کے مطابق 3 الگ الگ نوٹیفکیشنوں کے ذریعے 33 وفاقی وزرا، 7 وزرائے مملکت، 5 مشیروں اور 38 معاونین خصوصی کو عہدوں سے فارغ کیا گیا ہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وفاقی کابینہ کے نام پر کس قدر بھاری بھرکم فوج قومی خزانے سے مراعات حاصل کر رہی تھی اور ان میں سے بہت سے وزرائے کرام ایسے بھی تھے جن کو کوئی محکمہ تک نہیں سونپا گیا تھا گویا ان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں تھا، اس کے باوجود قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے تھے، اس طرز عمل کو ’اقربا پروری‘ کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ کابینہ کے ساتھ ہی اس کی ایک درجن کے قریب کمیٹیاں بھی ختم ہو گئی ہیں جن کے ارکان اور چیئرمین کے طور پر کابینہ کے ارکان مزید بہت سی مراعات بھی حاصل کر رہے تھے، ایک اندازے کے مطابق کابینہ کے ایک رکن پر ایک کروڑ روپے ماہانہ سے زیادہ اخراجات ہو رہے تھے جن سے اب قوم کو نجات مل گئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نگراں وزیر اعظم اپنی کابینہ میں کن اور کتنے لوگوں کو قلمدان سونپتے ہیں اور اس ملک کے بے وسیلہ عوام کو ان پر کتنا کچھ خرچ کرنا پڑے گا۔
اسمبلی تحلیل ہونے اور وزرا،معاونین اور مشیروں کو فارغ کیے جانے کے بعد اب اصولی طور پر تمام پارٹیوں کو عام انتخابات کی تیاریاں کرنی چاہئے لیکن سابقہ حکومت کی سب سے بڑی اورتمام سیاہ وسفید کی مالک جماعت مسلم لیگ ن اور 16 ماہ کی حکومت میں شامل پاکستان کے زیرک اور تجربہ کار سیاستدانوں کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جسے لے کر وہ عوام کے پاس جاسکیں اور عام آدمی ایک دفعہ پھرانھیں برسراقتدار آنے کا موقع دینے پر قائل کرسکیں، اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی سربراہی میں بننے والی مخلوط حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد جس شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا وہ معیشت کا شعبہ تھا۔گزشتہ ڈیڑھ سال کی حکومت کے بعد ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معیشت کو واپس پٹری پر لانے کے دعوے کیے گئے ہیں،لیکن حقیقی یعنی زمینی صورتحال یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور دوسرے معاشی اشاریے بھی گراوٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ڈالر کی قیمت میں 100 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا وہیں بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں تاریخ کے بڑے اضافے دیکھے گئے۔ ملک پر چڑھے قرض میں اضافہ جبکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب رقوم بھیجنے میں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔16 ماہ تک حکومت کرنے والے رہنماؤں کی کارکردگی کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے روز ڈالر کی قیمت 184 پاکستانی روپے تھی جو 9اگست یعنی موجودہ حکومت کے خاتمے کے دن 287 روپے تھی۔موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے بعد ڈالر کی قدر کو مستحکم کرنے کے متعدد دعوے کیے مگر ڈالر شتر بے مہار کی مانند بے قابو رہا اور وہ وقت بھی آیا جب ڈالر کا سرکاری ریٹ 300 روپے کی حد تک چلا گیا۔ڈالر کی قیمت میں موجودہ حکومت کے دور میں جتنا اضافہ ہوا وہ ماضی کی کسی حکومت کے دور میں نہیں ہوا تھا۔تحریک انصاف کی حکومت کے اختتام پر پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی جو شہباز حکومت کے دور میں جولائی کے مہینے کے اختتام پر 28.3 فیصد پر بند ہوئی ہے۔ مخلوط حکومت کے ڈیڑھ سالہ دور میں مہنگائی کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر رواں سال مئی میں 38 فیصد تک بھی پہنچی۔اسی طرح روز مرہ استعمال کی مختلف اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت میں ان میں کافی بڑا اضافہ نظر آتا ہے۔ پاکستان میں آٹے کی قیمت اپریل 2022 میں 58 روپے فی کلو تھی جو جولائی 2023 کے اختتام پر 141 روپے فی کلو تھی۔اسی طرح چینی کی قیمت سابقہ حکومت کے آخری دنوں میں 88 روپے فی کلو تھی جو موجودہ حکومت کے اختتام پر 150 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔موجودہ حکومت اگرچہ مہنگائی کو کم کرنے کے دعوے کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی تاہم اپنے دور حکومت کے اختتام پر تحریک انصاف کی حکومت کے مقابلے میں مہنگائی کی دگنی شرح چھوڑ کر گئی ہے۔اگر حکومتی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو گزشتہ ڈیڑھ سال کی اتحادی حکومت نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 120 روپے تک کا اضافہ کیا ہے۔بجلی کی قیمتیں بھی ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں بہت زیادہ بڑھیں، اپریل 2022 میں 100 یونٹ تک بجلی خرچ کرنے والے گھرانے فی یونٹ 9.50 روپے قیمت ادا کر رہے تھے جو آج 16.48 روپے تک پہنچ گیا۔ اسی طرح 200 سے 300 یونٹ کے درمیان بجلی خرچ کرنے والے صارفین جو اپریل 2022 میں فی یونٹ 12.62 روپے ادا کر رہے تھے آج وہ 27.14 روپے فی یونٹ ادا کر رہے ہیں۔ 700 یونٹ سے زائد ماہانہ بجلی خرچ کرنے والے صارفین اپریل 2022 میں 22.22 روپے فی یونٹ ادا کر رہے تھے اور اب وہ اس بجلی قیمت 42.72 روپے فی یونٹ ادا کر رہے ہیں۔گیس کی قیمتوں میں بھی گزشتہ ڈیڑھ سال میں بڑا اضافہ ہوا اور 50 یونٹ فی ایم ایم بی ٹی یو گیس استعمال کرنے والے صارفین جو اپریل 2022 میں اس کی قیمت 121 روپے ادا کر رہے تھے، اب یہ گیس انھیں 150 روپے میں دستیاب ہے۔ 500 ایم ایم بی ٹی یو ماہانہ استعمال کرنے والوں کو گیس موجودہ دور میں 3100 روپے میں مل رہی ہے جو ڈیڑھ سال پہلے 1460 روپے میں دستیاب تھی۔پاکستان پر مجموعی قرضوں کے حجم میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2022 کے اختتام پر ملک پر مجموعی قرضے (اندرونی و بیرونی) 43000 ارب روپے تھے۔ جبکہ ملک کے مرکزی بینک کی جانب سے اب تک مئی 2023 تک کے قرضے کے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں جن کے مطابق ملک کا مجموعی قرضہ 58962 ارب روپے ہو چکا ہے۔ اس طرح 13 مہینے کے عرصے میں ملک پر قرضوں کے حجم میں تقریباً 16000 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔سبکدوش اسمبلی نے ہی نیب قوانین میں ایسی ترامیم کیں جس سے اِس اِدارے کے اختیارات میں اِس حدتک کمی آ گئی کہ50 کروڑ تک بدعنوانی کے مقدمات اِس کے دائرہ کارسے باہر ہوگئے۔ اختیارات محدود ہونے کے بعد اب نیب عملی طورپر عضو معطل کے سوا کچھ نہیں، سبکدوش اسمبلی اگر عوامی مفادات کے تحفظ میں ناکام رہی تو یہ بھی سچ ہے کہ سبکدوش حکومت کی اہم شخصیات کوبدعنوانی کے اہم ترین مقدمات میں گلوخلاصی کرانے میں اِس اسمبلی کا کردار کلیدی رہا۔ وزیراعظم نے اقتدار کے دوران اپنے خاندان کے زیادہ تر مقدمات ختم کرانے کے ساتھ آخری روز منجمد جائیدادیں بھی واگزار کرالیں، یہ پاکستان کی واحد اسمبلی رہی جس میں اپوزیشن نشستوں پر بھی حکومت کے حمایتی براجمان رہے مگر حقیقی اپوزیشن ممبران کو ایوان میں داخلے کی اجازت دینے کی تویہ اسمبلی جرأت نہ کرسکی لیکن ملکی تاریخ کی سب سے بڑی87رُکنی کابینہ تشکیل دینے کی منظوری باآسانی دے دی جس کی کارکردگی نہ صرف انتہائی مایوس کُن تھی بلکہ اس پر اربوں کے اخراجات کے باوجود ملک کو رتی بھر فائدہ نہ ملا۔16ماہ کے اقتدار میں کوئی ایسا پہلو تلاش نہیں کیا جا سکتا جسے قابلِ ستائش یا قابل تعریف کہہ سکیں بلکہ یہ دور جمہوری اقدارکویکسر فراموش کرنے کی بناپر ملکی تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا جا سکتا ہے۔ مہنگائی ملکی معیشت کی تباہی اور عالمی مداخلت کے بھی جواز تراشے گئے، اسی لیے جمہوری حلقے سبکدوش اسمبلی کو بھی آزاد اور خود مختار نہیں کہتے کیونکہ قانون سازی کے دوران عوامی مفاد کو پیش نظر رکھنے کے بجائے اتحادی حکومت اپنے مفادات کی نگہبانی کرنے میں مصروف دکھائی دی اور اس کیلئے عالمی طاقتوں کے احکامات کی تعمیل کے دوران کسی انتہا پر جانے میں بھی قباحت محسوس نہ کی۔ اب جبکہ ملک کومسائل کی دلدل میں چھوڑکر اسمبلی اور کابینہ رخصت ہوچکی ہے شدید افراط زر،گرتی کرنسی قدر کے ساتھ تاریخ کے کم ترین زرِ مبادلہ کے ذخائر جیسے مسائل کا مستقبل قریب میں حل ہونانہایت دشوار محسوس ہوتا ہے۔ سیاسی بے چینی ایک الگ بڑاخطرہ ہے امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں بلکہ تشویشناک ہے۔ اسی لیے جب رُخصت ہونے والے حکمران یا اسمبلی ممبران اپنی کامیابیاں گنوانے کی کوشش کرتے ہیں تو دلیل کے نام پر پیش کرنے کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔16ماہ کے دوران حکمران اتحاد نے قومی سیاست اور عوامی معیشت کے ساتھ جو کچھ کیاہے وہ بھی تاریخ میں یاد رہے گا اور سیاست پر بھی اس کے گہرے اثرات ہوں گے۔ قدر زر میں گراوٹ،قرض خواہ آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق بجلی، گیس اور پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابل ِ برداشت اضافے نے عامتہ الناس کا بھرکس نکال دیا ہے۔ریونیو جمع کرنے کی پالیسی کے باعث ہر سطح پر حکومتی ادارے (ٹریفک، ایکسائز وغیرہ) غیر انسانی انداز میں وصولیوں کے ریٹس بڑھا رہے ہیں الامان الحفیظ۔ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانوں کے ذریعے وصولیوں کے ٹارگٹ دیے جا رہے ہیں،غلط پارکنگ پر 300 روپے جرمانہ کرنے والی ٹریفک پولیس اب2000روپے جرمانہ وصول کر رہی ہے۔حکومت نے انہیں ماہانہ بنیادوں پر وصولیاں کرنے کے ٹارگٹ دے رکھے ہیں،آٹا، دال، گھی، سبزی کی قیمتیں ناقابل بیان حد تک بڑھ چکی ہیں اس پر بے یقینی کی کیفیت نے معاملات کو بالکل ہی برباد کر دیا ہے۔الیکشن2023 کے بارے میں غیر یقینی پائی جاتی ہے،معاشی حالات بہتر ہونے کے بارے میں بھی غیر یقینی پائی جاتی ہے۔تحلیل ہونے والی اسمبلی کے آخری برس سے شروع ہونے والی گرفتاریوں،تشدد اور سزاؤں کا لامتناہی سلسلہ ابھی تک تھمنے کانام نہیں لے رہا۔ سیاستدانوں،کاروباری اور اعلیٰ افسران کو بے دریغ تختہ مشق بنایا گیا ملکی تاریخ میں کئی دہائیوں بعد حکومتی ایما پراِتنے بڑے پیمانے پر اختلافِ رائے رکھنے والے پابندِ سلاسل ہوئے مگرستم ظریفی یہ کہ انسانی حقوق کی پامالی کو پی ڈی ایم کی حکومت،قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کی طرف سے انصاف قرار دیا جاتا رہا۔عوامی جان و مال کے حوالے سے اقدامات یا قانون سازی کے حوالے سے سبکدوش اسمبلی اور حکومت کی کارکردگی کوانتہائی پست بلکہ مایوس کُن کہہ سکتے ہیں جس نے شہری آزادیوں اور اظہارِ رائے کوجُرم قراردینے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔سچی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت جاتے جاتے معیشت کاکباڑہ کرگئی ہے اگر2022 میں بجلی کے گردشی قرضوں میں 27 ارب کی کمی آئی تو 2023 میں 400 ارب کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رواں برس جولائی تک یہ قرضے 2690کاہندسہ کراس کر گئے ہیں حالانکہ یہی قرضے گزشتہ برس 2250ارب تھے۔ اب یہ سارا بوجھ براہِ راست عوام کو منتقل کردیا گیا ہے۔ ملک کے پیداواری شعبوں میں شرح نمو 0.29 ہے حالانکہ جب عمران خان کی حکومت کو نکالاگیا تو یہی شرح 6 فیصد تھی اسی لیے معاشی ماہرین رخصت ہونے والی حکومت کو موجودہ تباہی کا موجب تصورکرتے ہیں جس نے اقتدار لے کر اپنی نالائقی اور نااہلی سے ملک کو تباہ کردیا۔ حد یہ ہے کہ ہمارے ملک و قوم کا حال تو بے حال ہی ہے اس کے مستقبل کے بارے میں بھی مکمل بے یقینی،نااُمیدی اور مایوسی پائی جاتی ہے۔قابل اور کارآمد نوجوان دھڑا دھڑ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں، سرمایہ کار پہلے ہی ملک چھوڑ چکا ہے۔اگرچہ نگراں حکومت کی جانب سے اگلے 3-4 ماہ کے دوران کسی انقلابی تبدیلی اور مہنگائی میں کمی کی توقع کرناعبث ہے، تاہم دیکھنا یہ ہے نگراں وزیراعظم ملک میں عام انتخابات کوغیر جانبدارانہ بنانے کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اور شہباز حکومت کی جانب سے ملک کی سب سے زیادہ بڑی اور سب سے زیادہ مقبول پارٹی کو انتخابات میں کھلا میدان دینے کیلئے کیا اقدامات کرتے ہیں؟،اور عام انتخابات کو قطعی غیر جانبدارانہ اور شفاف بنانے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔
٭٭٭