میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھٹو کی پھانسی پر ریفرنس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

بھٹو کی پھانسی پر ریفرنس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

جرات ڈیسک
جمعرات, ۱۴ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف دائر ریفرنس پر منگل کو سماعت کے بعد جیو نیوز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت جنوری 2024 تک ملتوی کر دی۔عدالت عظمیٰ نے جیو نیوز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چینل کے پاس موجود ذوالفقار بھٹو کیس سے متعلق انٹرویوز اور کلپس کا ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار چاہے تو نمائندگی کر سکتی ہے۔ اس ریفرنس پر سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس کی سماعت براہ راست نشر کی گئی تھی۔ لارجر بینج میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔2011 میں دائر کیے گئے اس صدارتی ریفرنس پر سماعت کے آغاز سے قبل چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کی کارروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کی جاتی تھی تاہم اب کمیٹی کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کارروائی لائیو نشر ہوگی۔انہوں نے وکیل فاروق ایچ نائیک کے ساتھ مکالمے کے دوران کہا کہ ان کی درخواست آنے سے پہلے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا: یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اب بھی اس کیس کو چلانا چاہتی ہے؟اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہیں ہدایات دی گئی ہیں کہ حکومت اسے چلانا چاہتی ہے۔وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ وہ بلاول زرداری کی نمائندگی کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وہ انہیں ورثا کے طور پر اور سیاسی جماعت کے وکیل کی حیثیت سے بھی سن سکتے ہیں۔صدارتی ریفرنس اب بھی برقرار ہے یہ واپس نہیں لیا گیا۔وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ انہیں بھی سنا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہر قانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے‘۔ ان کی سماعت عام انتخابات کے بعد تک موخر کرنے کی درخواست بھی عدالت نے مسترد کر دی۔
ریفرنس کی سماعت کے آغاز پر ہی عدالتی بینچ کے ایک اہم رکن عزت مآب جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھادیے ان کا کہناتھا کہ: عدالت بھٹو کیس میں فیصلہ سناچکی ہے اور اس پر نظرثانی بھی خارج ہو چکی ہے۔ اس لیے ایک ختم ہوجانے والے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی، ایک معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ عدالت کو یہ تو بتائیں کہ اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ کا موقف تھا کہ فیصلہ برا تھا تو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جا سکتا، یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ عدالت کو کوئی قانونی حوالہ دیں۔’آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے حتمی انداز میں کہا کہ اب ہم بھٹو کے فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے۔ عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہو کر ختم ہو چکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں دوسری نظرثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ کھلوا سکتا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے؟ پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے۔وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں، ان کے8 پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں، ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار چاہے تو نمائندگی کر سکتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیا دور میں سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والے سزا متنازع تھی اور پاکستان ہی نہیں دنیا کے متعدد ممالک کے وکلاء نے اسے انصاف کے منافی قرار دیاتھا،یہی نہیں جسٹس نسیم حسن شاہ اور اس وقت کے سپریم کورٹ کے کئی ججوں نے یہ اعتراف کیاتھا کہ بھٹو کوپھانسی کا فیصلہ انتہائی سخت دباؤ کے تحت دیاگیاتھا، نسیم حسن شاہ نے یہاں تک کہاتھا کہ مارشل لا والوں کی بات ماننا پڑتی ہے جب سپریم کورٹ کے جج خود یہ اعتراف کررہے ہیں کہ فیصلہ شدید دباؤ کے تحت دیاگیاتھا،تو پھر نظرثانی اپیل مسترد کرنے کا فیصلہ بھی اسی دباؤ کے تحت دیاگیاہوگا۔ اس لئے جسٹس منصور علی شاہ کا یہ کہنا کہ ہم اسے چھو بھی نہیں سکتے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جسٹس منصور علی شاہ جیسے اعلیٰ پائے کے نیک نام جج کو اس فیصلے پر نظرثانی کے اس مقدمے کوایک نظیر بنانے کی بات کرنی چاہئے تھی اور اس مقدمے کو نظیر اس طرح بنایاجاسکتاتھا کہ اس مقدمے کی سماعت کرنے والے ان تمام جج حضرات کو جو ابھی تک زندہ ہوں عدالت میں انصاف میں کوتاہی کے مجرم کے طورپر عدالت میں طلب کیاجانا چاہئے تھا اور اس دور میں ان کے دیے گئے ایسے تمام فیصلے جن میں کسی طاقتور فریق کی جانب سے مداخلت کا شبہ ہو دوبارہ کھول کر ان کی دوبارہ سماعت کرنی چاہئے تھی اور دباؤ کے تحت فیصلے دینے والے تمام ججوں کو کم از کم حکومت سے حاصل کردہ مراعات اور پنشن ضبط کرنے کی سزا دینی چاہئے تھی، تاکہ آئندہ کوئی جج دباؤ میں آکر فیصلہ دینے کے بجائے استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جانے کو ترجیح دینے پر مجبور ہوتا۔ جہاں تک صدر مملکت کی جانب سے فیصلے پر نظرثانی کیلئے اس کیس کو سپریم کورٹ بھجوائے جانے کا تعلق ہے تو یہ پاکستان کے عین مطابق ہے کیونکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کے لیے عدالت عظمی کو بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدر مملکت کو بھجوا دے گی۔ یہ ریفرنس آصف زرداری نے صدر کی حیثیت سے سپریم کورٹ بھیجا تھا لیکن بوجوہ اپنے دور صدارت میں اس کی سماعت میں انھوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی،اگر وہ اپنے بھیجے گئے اس ریفرنس کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے اور اپنے سسر کو واقعی عوام کی نظر میں سرخرو دیکھنے کے خواہاں ہوتے تو شاید برسوں پہلے اس کا فیصلہ ہوچکاہے۔ زرداری کے بعد آنے والوں کے سرپرستوں کو چونکہ بنیادی طورپر اس کیس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی اس لئے انھوں نے اس معاملے کو طاق نسیاں کے سپرد کیے رکھنے کو ہی زیادہ مناسب تصور کیا،اور چونکہ اس کے آگے سماعت ہی نہیں ہوئی تو اسے واپس لینے کا بھی کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا۔یوں یہ ریفرنس زمانے کے سردوگرم میں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہزاروں مقدمات کے طرح فائلوں میں دبا رہا اور اب چونکہ انتخابات سرپر ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس اپنے ناراض کارکنوں کو سمجھانے کیلئے کچھ نہیں ہے اس لئے زرداری کی کوشش ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے بھٹو کو بے قصور قرار دلواکر اس کامیابی کاسہرا اپنے سر باندھ لیں اور کارکنوں کو بتائیں کہ وہ بھٹو کی کھوئی ہوئی عزت بحال کرانے میں ہمیشہ پیش پیش رہیں گے چونکہ وہی بھٹو کی وراثت کے مالک ہیں۔
تاریخ کی عدالت میں انصاف کٹہرے میں ہو تو منصف آزاد کیسے ہو سکتے ہیں۔ غلط فیصلوں کا بوجھ قوم اُٹھا رہی ہے مگر اب شاید فیصلوں کا وقت آ گیا ہے۔ گویا یہ دسمبر نئے سال کی نوید ہے۔کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار؟ یہ دسمبر نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے۔ دسمبر کا درد جاتے نہیں جاتا، مشرقی پاکستان کا سانحہ ہو یا سانحہ آرمی پبلک اسکول یا پھر بے نظیر بھٹو کا قتل۔ دسمبر کے ذمے بڑے حساب ہیں۔ ایک طرف اعلیٰ عدالت نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ’عدالتی قتل‘ کا مقدمہ کھول لیا ہے تو دوسری جانب ایک اور سابق وزیراعظم کوبری کرکے ان کے سیاسی قتل یعنی نااہلی کو ختم کردیا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے خلاف مقدمے میں قاضی کی عدالت میں خود سپریم کورٹ کٹہرے میں ہے۔ ذرا سوچیے کہ کیا منظر ہو گا۔ذوالفقار علی بھٹو کے قتل میں ملوث فوجی اور قاضی القضاۃہوں گے۔ بتایا جائے گا ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار کی زینت کیوں بنایا گیا؟ بھٹو کے مقدمے کی گونج دہائی بعد پھر سُنائی دے رہی ہے۔ اب بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے جج حضرات پر یہ لازم ہوگا کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ بھٹو کا اصل قصور کیا تھا؟ جنرل ضیا الحق جیسا آمر آئین اور منتخب وزیراعظم کا قتل کیوں چاہتا تھا اوراپنے آپ کو آئین کامحافظ ثابت کرنے والے کون کون سے سیاستداں اس وقت بھٹو کو پھانسی دینے سے متعلق جنرل ضیا کی خواہش کے سہولت کا بنے ہوئے تھے اور یہ کہ عدلیہ کیوں اور کیسے فوجی آمر کی سہولت کار بنی۔ آئین معطل کرنے اور توڑنے میں معاون و مددگار کون تھے۔ پاکستان کے خلاف کیا اصل عالمی سازش ہوئی۔وطن عزیز کے اس تاریک باب کا آغاز کیا تھا انجام کیا ہو گا؟ کیا یہ محض مقدمہ ہو گا یا بھٹو کو انصاف بھی ملے گا؟ کیا اس مقدمے کے ذریعے پاکستان کے عوام کو وہ عوامل، مقاصد اور نتائج سے آگاہی ملے گی یا پھر ادھورے سوالات اور آدھے وجود کے ساتھ تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا جائے گا۔سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق 5 سوال بھیجے تھے۔صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال تھا کہ کیا ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟قاضی کی عدالت میں خود سپریم کورٹ کٹہرے میں ہو گی۔ ذرا سوچیے کہ کیا منظر ہو گادوسرا یہ کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر تمام کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟تیسرا سوال کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا اور کیا یہ فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟ اور کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ خود پر لگے الزامات کیسے دھوئے گی؟ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟دوسری جانب سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے متعلق نا اہلی کا معاملہ انھیں کلین چٹ دے کر نمٹایاجاچکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیانواز شریف کی خواہش کے مطابق ایسے بوگس کیس بنانے والوں کا احتساب بھی ہو گا کہ کس طرح اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں نے سیاسی بساط بچھائی اور ایک وزیراعظم کو خارج دفتر کیا؟کیا ہائبرڈ دور کی تخلیق کرنے والے سب کردار منظر عام پر آئیں گے؟ کیا گزرے چند برسوں میں پاکستان کے ساتھ کیے گئے ڈرامے کے ا سکرپٹ اور کرداروں کو بھی احتساب کے لیے پیش کیا جائے گا۔بظاہر معلوم یہ ہوتاہے کہ دسمبر عدالتی احتساب اور پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا تاریخ کی درستگی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جائے وقوعہ پر ہی انصاف بھی فراہم کر دیا جائے اور قاتلوں کو علامتی ہی سہی مگر سزا ضرور سُنائی جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں