میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی کے نرخ میں اضافے کاجواز کیاہے؟

بجلی کے نرخ میں اضافے کاجواز کیاہے؟

ویب ڈیسک
هفته, ۱۴ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

نیپرا نے گزشتہ روز اپنے اجلاس میں کراچی کے شہریوں پر بجلی گرانے میں مصروف کے الیکٹرک کوبجلی کی قیمت میں 75پیسے سے زیادہ فی یونٹ اضافہ کر نے کی اجازت دے کر گویاکراچی کے شہریوں پر ایک اور بم گرانے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے ، نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کو بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ بیان نہیں کی کیونکہ اس ادارے کے پاس غالباً اس کاکوئی معقول جواز تھا بھی نہیں،نیپرانے کے الیکٹرک کو بجلی کی قیمت میں 75پیسے فی یونٹ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کے الیکٹرک پر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی شرط بھی ختم کردی ہے، گویا کے الیکٹرک اب جتنی دیر چاہے لوڈ شیڈنگ کرسکتاہے، اس کو اس کی کھلی چھوٹ ہوگی۔ دستاویزات کے مطابق کے الیکٹرک کا ٹیرف منظور کرنے میں وزیر اعظم اور وفاقی حکومت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے ملک کو جس سنگین خطرے اور خسارے کا سامنا ہے وہ سب مختلف طریقوں سے عوام ہی سے وصول کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور کے الیکٹرک کو بجلی کے نرخ بڑھانے کی اجازت اس ادارے کو چین کی نیشنل پاور کمپنی کے ہاتھ بیچنے میں آسانی پیدا کرنے اور چینی کمپنی کے لیے کے الیکٹرک کی خریداری میں کشش پیدا کرنے کے لیے دی گئی ہے تاکہ چین کی کمپنی آکر کے الیکٹرک کی خریداری پر لگائی گئی رقم جلد از جلد کماکر اپنے وطن منتقل کرسکے۔ نیپرا کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی اس اجازت سے کراچی کے شہری محض 75 یا 80 پیسے فی یونٹ کی شرح ہی سے زیادہ رقم ادا کرنے کے پابند نہیں ہوں گے بلکہ یہ اضافی فیول ایڈجسٹمنٹ ، سیلز ٹیکس ، ودھ ہولڈنگ ٹیکس اور دیگر ٹیکس ملا کر کم وبیش 2 روپے بن جائیں گے، اس طرح 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے ایک متوسط گھرانے کو بھی ہر ماہ کے الیکٹرک کو کسی جواز کے بغیر 500-600 روپے زیادہ ادا کرنا پڑیں گے،جبکہ اس اضافی ادائی کے باوجود انھیں بلاتعطل بجلی کی فراہمی کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔
کے الیکٹرک کو من مانے طریقے سے لوڈ شیڈنگ جاری رکھنے کی یہ اجازت ایک ایسی حکومت کے ادارے نے دی ہے جو اٹھتے بیٹھتے دعوے کررہی ہے کہ لوڈ شیڈنگ ختم یا بہت ہی کم ہوگئی ہے جبکہ نیپرا کو لوڈ شیڈنگ کی کھلی چھوٹ دے کر حکمرانوں نے بالواسطہ طورپر یہ اعتراف کرلیاہے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ کراچی میں آج کل شدید گرمی پڑ رہی ہے لیکن کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بھی جاری ہے لیکن کے الیکٹرک کی جادوگری کایہ عالم ہے کہ بجلی میسر ہو یا نہ ہو، بل بڑھتے جارہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم نے اس ظالمانہ اضافے پر احتجاج کرتے ہوئے گزشتہ روز کہا ہے کہ حکومت، نیپرا اور کے الیکٹرک کے گٹھ جوڑ نے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ عوام سے ناجائز طور پر وصول کیے گئے 200ارب روپے واپس کرنے کے بجائے ان پرمزید معاشی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ ایک واضح امر ہے کہ پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ صرف ان اشیا تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ان کی وجہ سے تقریباً تمام اشیائے ضرورت مہنگی ہوجاتی ہیں۔ کے الیکٹرک کے نرخ میں 7سال کے لیے اضافہ کیا گیا ہے لیکن اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ اگلے ہی سال مزید اضافہ نہیں کردیاجائے گا۔
کے الیکٹرک کے ارباب اختیار بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے لیے یہ جواز پیش کرتی رہے ہیں کہ صرف ان علاقوں میں زیادہ دیر کے لیے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے جن علاقوں میں بجلی زیادہ چوری ہوتی ہے، اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کے الیکٹرک بجلی چوری کرنے والوں کا بوجھ باقاعدگی سے بل ادا کرنے والوں سے وصول کرنے پر مصر کیوں ہے؟وہ بجلی چوری روکنے کے لیے خود کوئی قابل عمل میکانزم تیار کیوں نہیں کرتی ؟یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر کے الیکٹرک کا یہ موقف درست ہے کہ وہ صرف ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کررہی ہے جہاں سے بل کی وصولی کم اور چوری زیادہ ہے تو پھر سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ بجلی چوری کی رقم عام ایماندار شہریوں سے وصول کرنے کے لیے کچی آبادیوں کو شہر کے دیگر علاقوں سے نتھی کس اصول کے تحت کررہی ہے، مثال کے طورپر نارتھ ناظم آباد کی مستقل آبادی کے ساتھ پہاڑ گنج اور اس کے قرب وجوار کی کچی آبادیوں کو نتھی کرنے کاکیاجواز ہے یا فیڈرل بی ایریا کی مستقل آبادیوں کو سہراب گوٹھ کی کچی آبادیوں سے منسلک کرنے کاکیاجواز ہے، ناظم آباد کی مستقل آبادیوں کواس کے ارد گرد کے علاقوں میںواقع کچی آبادیوں یا لیاقت آباد کی مستقل آبادی کو اس کے ارد گرد کی کچی آبادی سے منسلک کیوں کیاجارہاہے؟کے الیکٹرک کے ارباب اختیار اس کاکیا جواز پیش کرسکتے ہیں، کیا یہ سب کچھ جان بوجھ کر اس شہر کے ایماندار شہریوں کوجان بوجھ کر پریشان کرنے کے مترادف نہیں ہے؟
اس حوالے سے نئے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا یہ کہنا درست ہے کہ اوور بلنگ اور بجلی چوری کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جانی چاہئے۔ اویس لغاری نے بجاطورپر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ بجلی کا اضافی بل ایک ایشوہے۔ انھوں نے اس حوالے سے یہ بھی کہاہے کہ متعلقہ افسران کواس کا جواب دینا ہوگا۔اس حوالے سے ہم وزیر توانائی سے یہ کہناچاہیںگے کہ، اوور بلنگ بجلی کمپنیوں کا ایک معمول کاحربہ ہے اس حوالے سے ہرماہ سینکڑوں افراد وفاقی محتسب سے بھی رجوع کرتے ہیں جہاں بیشتر شکایت کنندگان کی شکایت درست ثابت ہوتی ہیں،اگر صرف وفاقی محتسب کے پاس درج کرائی جانے والی شکایتوں کو بنیاد بنا کر ہی متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی شروع کردی جائے تو یا تو ایک دوماہ میں یہ مسئلہ مکمل طوپر ختم ہوجائے گا یا کے الیکٹرک اور بجلی فراہم کرنے والے دیگر اداروںکے ایسے سہل پسند افسران کاصفایا ہوجائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زیادہ بجلی کے بل بھیجنے پر نہ صرف یہ کہ متعلقہ افسران کے خلاف فوری کارروائی کی جانی چاہئے بلکہ اوور بلنگ کی شکایت کے فیصلے تک کمپنی کو صارف کی بجلی منقطع کرنے اور بجلی کے بل کی وصولی سے بھی روکا جانا چاہئے کیونکہ جب اوور بلنگ کی صورت میں جب کوئی صارف شکایت لے کر جاتاہے تو اس سے کہاجاتاہے کہ پہلے بل جمع کرائیں ، پھر دیکھیں گے،جبکہ بعض اوقات بل اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ صارف کی پورے مہینے کی تنخواہ یا آمدنی بھی اس کے لیے ناکافی ہوتی ہے،اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر اویس لغاری نے ملک میں اووربلنگ کوایک گمبھیر مسئلہ تسلیم کر لیا۔لیکن اس حوالے سے ان کا یہ موقف قرین انصاف نہیں ہے کہ اووربلنگ بجلی چوری اور لائن لاسز کے باعث ہو رہی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اووربلنگ ایک گمبھیر مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس پر تمام صوبائی اسمبلیوں‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فاضل ارکان موقع بہ موقع شدید احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ متعلقہ وزارت اور حکام بھی بارہا اس مسئلہ پر قابو پانے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں مگر اصلاح احوال ہوتی نظر نہیں آتی۔ عام صارفین کو ہزاروں کا بل بھی آجاتا ہے۔ وفاقی وزیر شاید اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ کئی لوگ تو اپنی حیثیت اور ریڈنگ سے کہیں زیادہ بلآنے پر خودکشی بھی کر چکے ہیں۔ حکومت کا بجلی چوری کی طرح اووربلنگ کو ایک جرم قرار دینے کی قانون سازی کا فیصلہ بجا اور وقت کی ضرورت ہے مگر صرف قانون سازی ہی نہیں ہونی چاہئے‘ قانون پر عمل بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کو ایسے قوانین میں شامل نہ کر لیا جائے جیسا پبلک مقام پر سگریٹ پینا اور کوڑے کو آگ لگانا جرم ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ توانائی کے وفاقی وزیر اپنی مختصر مدت وزارت کے دوران اپنے اعلان پر عملدرآمد کویقینی بنانے کی کوشش کریں گے اس پر یقینا وہ اس شہر اور بحیثیت مجموعی پورے ملک کے لاکھوں لوگوں کی دعائیں حاصل کرسکیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں