نواز شریف کو متفقہ طور پر نااہل کیا، کسی جج نے فیصلے سے اختلاف نہیں کیا، سپریم کورٹ
شیئر کریں
اسلام آباد (بیورو رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں شریف خاندان کی جانب سے پاناما نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے حتمی فیصلے میں 5 ججز کے بیٹھے پر اعتراضات پر سپریم کورٹ نے کہاہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ متفقہ تھا۔ بدھ کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے شریف خاندان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیلوں کی سماعت کی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث اور حسن، حسین اور مریم نواز کی جانب سے سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے 28 جولائی کے فیصلے میں 5 رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھائے۔وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پانچ رکنی بینچ میں سے 2 ججز نے 20 اپریل کو نواز شریف کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے نااہل قرار دیا اور ان ہی دو ججز نے 28 جولائی کو بھی مختلف فیصلے پر دستخط کئے۔خواجہ حارث نے کہا کہ اگر 2 ججز کو 3 ججز کے فیصلے سے اختلاف ہے تو نظر ثانی تین ججز کو سننی چاہیے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہی بات تو کل بھی آپ کو سمجھا رہے تھے ٗ آپ کے اصرار پر پانچ رکنی بینچ نظرثانی سن رہا ہے، ورنہ نظرثانی کی اپیلیں تین ججز بھی سن سکتے تھے۔اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ جنہوں نے کیس نہیں سنا تھا، ان کے سامنے نظرثانی پر کیا دلائل دوں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ ہمیں چھوڑیں اور صرف تین ججز کو اپنے دلائل سے قائل کرلیں، ہم دو جج تین ججز کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ ہم نے کل کہا تھا کہ دو ججز صرف بیٹھے رہیں گے جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا عدالت میں خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتے۔ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈکشنری میں تنخواہ سے متعلق تعریفیں موجود ہیں کہ اثاثہ وہ ہوتا ہے، جو مالک کے قبضے میں ہو تو عدالت نے وہی تعریف کیوں چنی جو نواز شریف کیخلاف جاتی تھی اور نااہلی کے لیے موجود طریقہ کار سے ہٹ کر فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر کسی کا بینک میں پیسا ہے تو وہ کیا بینک کا ہے ٗ آپ کی یہ دلیل درست نہیں، جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ افتخار چیمہ کو زیر کفالت افراد کے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے پورا میکنزم موجود ہے ٗ اس میکنزم کے مطابق ملزم کو وضاحت کا موقع دیا جاتا ہے، تاہم کیپٹل ایف زیڈ ای کا معاملہ عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا تو تنخواہ نہ وصول کرنے یا ظاہر نہ کرنے پر 62 ون ایف کیسے لگتا ہے۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نواز شریف کیپٹل ایف زیڈ ای کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین تھے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے چھپانے پر الیکشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے تاہم آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔خواجہ حارث نے عدالت میں سوال اٹھایا کہ جن ججز نے ایف زیڈ ای کے معاملے پر سماعت نہیں کی تو انہوں نے دستخط کیسے کردئیے۔جسٹس اعجاز افضل نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ مینارٹی یا اکثریتی فیصلوں میں کہیں لکھا ہے کہ نااہلی زندگی بھر کیلئے ہے، جسٹس عظمت نے کہا ‘اقلیتی فیصلہ تقاریر میں تضاد اور آمدن کے ذرائع نہ بتانے سے متعلق تھا۔جسٹس آصف کھوسہ نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ براہ راست نااہل نہیں کرنا چاہیے تھا ٗاگر دیگر فورم نااہل نہ کریں اور اپیل میں سپریم کورٹ نااہل کردے تو کیا ہوگا؟اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نااہلی کے لیے صفائی کا موقع اور اپیل کا حق دیا جاتا ہے اور میرا کہنے کا مقصد ہے کیا ان ساری باتوں پر 62 ون ایف لگنا چاہیے تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نے بہت محتاط رہ کر ججمنٹ لکھی ٗاگر آپ چاہتے ہیں کہ باقی بھی لکھیں تو پھر شکایت نہ کیجئے گا، خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں 20 اپریل 2017 کا فیصلہ منظور ہے، جو اکثریتی تھا تاہم 28 اپریل کو حتمی حکم جاری کرنے والا بینچ صحیح نہیں بنایا گیا، کیوں کہ دو معزز ممبران پہلے ہی فیصلہ دے چکے تھے اس لیے وہ حتمی فیصلے میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 2 ممبران کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا گیا، اس کا مطلب ہے آپ نے فیصلہ قبول کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اقلیتی فیصلے کی قانونی اہمیت نہیں ہوتی اس لیے اسے چیلنج نہیں کیا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے 2 ججز کے فیصلے کو اقلیتی قرار دیا، لیکن تین ججز نے کہاں لکھا ہے کہ 2 ججز کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں چلا گیا ٗ دونوں فیصلوں میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا جبکہ 28 جولائی سے قبل یہ بتا دیا تھا کہ تمام ججز حتمی فیصلے پر پہنچ چکے ہیں۔
راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک/ ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس کے حوالے سے احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 19 ستمبر کو طلب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔بدھ کو راولپنڈی کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم کو فلیگ شپ ریفرنس، جو بیرون ملک قائم کی گئیں 16 کمپنیوں سے متعلق ریفرنس ہے میں سمن جاری کیے۔احتساب عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے نواز شریف کو 19 ستمبر کو طلب کرتے ہوئے اسی روز سابق وزیر اعظم کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز کو پیش ہونے کاحکم دیا ہے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جاری کیے گئے سمن میں کہاگیا کہ 19ستمبر کو صبح نو بجے پیش ہوں ۔عدالتی سمن میں کہا گیاکہ الزامات کا جواب دینے کے لیے آپ کی عدالت میں حاضری ضروری ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سمن پر ماڈل ٹائون لاہور اور رائے ونڈ کے پتے درج ہیں ۔ رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ فلیگ شپ ریفرنس کی اضافی دستاویزات احتساب عدالت میں جمع کرا دی گئیں، فلیگ شپ ریفرنس کی تکنیکی خامیاں دور کر کے ریفرنس ایک روز قبل جمع کرا دیا گیا تھا ۔خیال رہے کہ اس ریفرنس کے مطابق سابق وزیراعظم کے بچے حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر بھی مذکورہ کمپنیوں میں اسٹیک ہولڈر ہیں۔گذشتہ روز رجسٹرار احتساب عدالت نے پاناما گیٹ تحقیقات کے حوالے سے شریف خاندان کے خلاف دائر ہونے والے 4 ریفرنسز میں سے 3 نیب ریفرنسز واپس کردیے تھے۔احتساب عدالت نے نواز شریف اور ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز کے خلاف آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے دائر کیا گیا، صرف ایک ریفرنس منظور کیا تھا۔