میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
 پارلیمانی کمیٹی میں زیر غور آنے والی انتخابی تجاویز کے مضمرات

 پارلیمانی کمیٹی میں زیر غور آنے والی انتخابی تجاویز کے مضمرات

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۴ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

اخباری اطلاعا ت کے مطابق گزشتہ روز انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی جماعت پر پابندی کا اختیار سپریم کورٹ کے بجائے پارلیمنٹ کو دینے کی تجویز پر غور کیا گیا۔انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی کا سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ان کیمرا اجلاس میں 73 انتخابی تجاویز زیر غور ہیں۔جن میں سیاسی جماعت پر پابندی کا اختیار سپریم کورٹ کے بجائے پارلیمنٹ کو دینے کی تجویز سرفہرست تھی۔مجوزہ ترمیم میں یہ تجویز کیا گیاہے کہ پہلے پارلیمنٹ اس بات کا جائزہ لے گی کہ سیاسی جماعت پر پابندی لگنی چاہیے یا نہیں اورپارلیمنٹ سیاسی جماعت پر پابندی لگانے پر متفق ہو تو معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے گا،اجلاس میں پریذائیڈنگ افسر کو نتیجہ مرتب کرنے کے لیے مخصوص وقت دینے کی تجویز بھی دی گئی، اورنتائج مرتب کرنے میں تاخیر پر پریزائیڈنگ افسر کو جوابدہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں یہ بھی تجویز سامنے آئی کہ پریزائیڈنگ افسر انتخابی نتائج کی تاخیر پر ٹھوس وجہ بتانے کا پابند ہوگا، پریزائیڈنگ افسر دستخط شدہ نتیجے کی تصویر ریٹرننگ افسر کو بھیجے گا، پریزائیڈنگ افسر کو تیز ترین انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون دینے کی بھی تجویز دی گئی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں پولنگ ایجنٹس کو بھی کیمرے والا فون ساتھ لے جانے کی اجازت دینے کی تجویز سامنے آئی ہے، پولنگ اسٹیشن کے ہر بوتھ پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی بھی تجویز دی گئی، شکایت کی صورت میں کیمروں کی ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش کی جاسکے گی، امیدوار بھی قیمت ادا کر کے پولنگ اسٹیشن کی ویڈیو حاصل کر سکے گا۔پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے انتخابی اخراجات کی حد بڑھا کر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے 40 لاکھ سے ایک کروڑ تک اخراجات کی حد مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جبکہ صوبائی نشست کے لیے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ خرچ کرنے کی اجازت دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق دھاندلی میں ملوث انتخابی عملے کی سزا 6 ماہ سے بڑھا کر 3 سال کرنے کی تجویز دی گئی، غفلت پر پریزائیڈنگ اور ریٹرننگ افسر کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی تجویز پیش کی گئی، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا فیصلہ 15 کے بجائے 7 روز میں کرنے کی تجویز دی گئی، پولنگ عملے کی حتمی فہرست بروقت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔اجلاس میں یہ بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں کہ امیدوار 10 روز کے اندر حلقے میں پولنگ عملے کی تعیناتی کو چیلنج کر سکے گا، سیکورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے اورصرف پریزائیڈنگ افسر کی اجازت سے ہی پولنگ اسٹیشن کے اندر آسکیں گے۔
انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں زیر غور آنے والی ان تجاویز سے محسوس ہوتاہے کہ حکومت تحریک انصاف پر براہ راست عدالت کے ذریعے پابندی لگوانے میں کامیابی کے حوالے مشکوک ہے، اس لیے اب اس کے لیے ایک ایسی پارلیمنٹ کا سہارا لیاجارہے جہاں اپوزیشن کے ارکان بھی حکومتی پارٹیوں کے ٹکٹ کے خواہاں بلکہ امیدوار ہیں،اس تجویز سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ حکومتی پارٹیوں خاص طورپر پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ اگر تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیاگیاتو پنجاب میں اس کا اسی طرح صفایا ہوجائے گا جس طرح اس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کا ہوچکاہے، اس لیے اندرون خانہ پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی میدان سے باہر رکھنے کی منصوبہ بندی چل رہی ہے، اس خیال کو پی ڈی ایم کے سربراہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ان بیانات سے بھی تقویت ملتی ہے جن وہ باقاعدہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ حالات انتخابات کیلئے سازگارنہ ہوئے تو انتخابات کی تاریخ بڑھانے میں کوئی حرج نہیں۔ سازگار حالات سے ان کی کیا مراد ہے اس بارے میں انہوں نے کبھی وضاحت نہیں کی جبکہ واقفانِ حال اس کا یہ مطلب نکالتے رہے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک تحریک انصاف کا میدان سے صفایا نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو وہ چاہتی ہے کہ عمران خان کو نااہل قرار دے کر انتخابات سے باہر کیا جائے جس کے بعد نوازشریف واپس آئیں اور ان کی نااہلی کا خاتمہ ہو، انہیں انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملے جس کے بعد وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے اہل بن جائیں۔  جبکہ جمہوریت کا حسن اسی میں ہے کہ آئین و قانون کے مطابق تمام سیاسی پارٹیاں انتخابی عمل میں حصہ لیں جو ایک جمہوری عمل ہے جس میں عوام اپنی منشا کے مطابق جس پارٹی کو اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں،اسے حکمرانی کا مینڈیٹ دیتے ہیں۔اس جمہوری عمل کی شفافیت کا تقاضہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام پارٹیوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے اور کسی ایسے واقعے کی آڑ میں جسے کھلی عدالت میں ثابت کرنا مشکل ہو کسی مقبول سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنا نہ صرف جمہوریت کی روح کے منافی ہے بلکہ اس سے انتقامی کارروائی کا تاثر بھی ابھرتا ہے۔ اس بار انتخابات پر عالمی مبصرین اور میڈیا کی اس لئے بھی نظریں ہوں گی کیونکہ عمران خان کی طرف سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عالمی میڈیا نے متعدد ایسے انٹرویوز بھی نشر کیے ہیں جن میں عمران خان نے شفاف انتخابات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔9مئی کے بعد تو تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے مطالبے بھی مسلم لیگی رہنماؤں کی طرف سے کئے جاتے رہے ہیں، ایسا معلوم ہوتاہے کہ 9مئی کو بنیاد بناکر تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ اب تک ہوا ہے، موجودہ حکومتی سیٹ اپ اس کے باوجود ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے، حالانکہ پارٹی کی تمام قابلِ ذکر قیادت کو جماعت چھوڑ نے پر مجبور کیاجاچکا ہے۔ عمران خان پر پابندیاں لگائی جاچکی ہیں، تحریک انصاف کسی قسم کا جلسہ یا جلوس منعقد نہیں کر سکتی۔امیدوار بننے کے خواہشمندوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے۔اس طرح بظاہر تحریک انصاف کو مروجہ سیاسی منظر نامے سے غائب کیا جاچکا ہے مگر اس کے باوجود ایک انجانا سا خوف موجود ہے کہ الیکشن کا اعلان ہوا تو تحریک انصاف پھر باہر نکل آئے گی اور اس وقت اسے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ اس خوف کی وجہ سے انتخابات کا دوٹوک اعلان نہیں کیا جا رہا اور بے یقینی و ابہام بڑھتا جا رہا ہے۔وقت گزرتا جا رہا ہے اور صرف ایک ماہ کے لگ بھگ اس حکومتی سیٹ اپ کی مدت رہ گئی ہے۔ اس کے بعد کیا نقشہ سامنے آتا ہے اس بارے میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں، شاید اسی کو بنیاد بنا کر یورپی پارلیمنٹ آبزرویشن کے سربراہ نے گزشتہ روز پاکستان میں عام انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کا اظہار کیا تھا۔
پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ایک سب سے خطرناک تجویز انتخابی مہم کے اخراجات کی حد بڑھاکر قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے انتخابی اخراجات کی حد بڑھا کر قومی اسمبلی کی نشست کیلئے 40 لاکھ سے ایک کروڑ تک اخراجات کی حد مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جبکہ صوبائی نشست کے لیے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ خرچ کرنے کی اجازت دینے کی تجویز دی گئی ہے۔اس تجویز کے واضح معنی یہ ہیں کہ ارباب حکومت اب انتخابات کو عام لوگوں کیلئے شجر ممنوعہ بناکر انتخاب لڑنے کا حق صرف اشرافیہ تک محدود رکھنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ اس ملک میں کتنے لوگ ہوں گے جو انتخابی مہم پرایک کروڑ روپے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انتخابی مہم کیلئے اخراجات کی حد چند ہزار تک محدود رکھی جاتی تاکہ عام آدمی بھی انتخابات میں حصہ لے سکتا اور اس طرح حکومت پر اشرافیہ کا موجودہ تسلط ختم کرنے میں مدد ملتی۔جہاں تک شفاف انتخابات کیلئے زیر غور آنے والی تجاویز کا تعلق ہے تو پاکستان میں آج تک شفاف انتخابات کا معیار ہی طے نہیں ہو سکا۔ جیتنے والا انتخابات کو شفاف قرار دیتا ہے اور ہارنے والا دھاندلی کا الزام لگا دیتا ہے اس بار تو معاملہ کچھ زیادہ ہی الجھا ہوا ہے موجودہ حکومت کی تجاویز کے مطابق انتخابات ہوئے تو ان کے نتائج پر انگلیاں ضرور اٹھیں گی۔ آج تک ہماری سیاسی جماعتیں متفقہ انتخابی اصلاحات پر ہی راضی نہیں ہو سکیں۔ پری پول اور پوسٹ پول دھاندلی کے الزامات معمول کی بات ہے۔ اگر انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو آزادانہ سیاسی مہم چلانے اور ان کے امیدواروں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی گئی تو انتخابات پر سوالات اٹھیں گے۔ ایسے تمام مسائل کا حل ایک وسیع البنیاد ہم آہنگی ہے جو قومی ڈائیلاگ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ملک کو سیاسی بے یقینی سے نکالنا، سیاسی استحکام کی طرف لے جانا اور معاشی مسائل پر قابو پانا ہے تو بڑے اور کھلے دل کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے،سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ایسا کرنے کوتیار ہوگی؟
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں