میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی میںٹی وی کا ایک اور اہلکار دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ گیا

کراچی میںٹی وی کا ایک اور اہلکار دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ گیا

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

کراچی کے ضلع وسطی میں کے ڈی اے چورنگی کے قریب نجی ٹی وی چینل ”سماء“کی ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میںٹی وی چینل کا اسسٹنٹ کیمرہ مین جاں بحق ہوگیا۔ واقعہ نارتھ ناظم آباد کے علاقے کے ڈی اے چورنگی پر ڈولمن مال کے قریب پیش آیا جس کے بعد زخمی ہونے والے اسسٹنٹ کیمرہ مین کو طبی امداد کے لیے عباسی شہید ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔سماءٹی وی کے مطابق جاں بحق ہونے والے 22 سالہ اسسٹنٹ کیمرہ مین کا نام تیمور تھا اور اسے سر پر گولی لگی تھی۔ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر روہینہ حسن نے تصدیق کی کہ تیمور کو زخمی حالت میں لایا گیا تھا تاہم دوران علاج ہی وہ دم توڑ گیا۔ اس واقعے سے کچھ دیر قبل ہی فائیو اسٹار چورنگی پر شاہراہ نورجہاں تھانے کی بکتر بند گاڑی پر نامعلوم دہشت گردوں نے کریکر سے حملہ کیا تھااگرچہ اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا تاہم دہشت گردوں نے سماءٹی وی کی سیٹلائٹ وین کو بھی نشانہ بنا یا، لیکن واقعے کی کوریج میں جانے والی ٹی وی چینل کی ٹیم کا ایک نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔
پولیس نے اپنی رپورٹ میں روایت کے مطابق بتایا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے جنہوں نے وین کو نشانہ بنایا اور فرار ہوگئے۔فائیو اسٹار چورنگی پر شاہراہ نورجہاں تھانے کی موبائل پر مبینہ کریکر حملے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نوٹس لیا تھا اور ڈی آئی جی ویسٹ سے فوری طور پر انکوائری رپورٹ طلب کی تھی۔آئی جی سندھ نے ایس ایس پی وسطی کو بھی ہدایات جاری کی تھیں اور ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام تر اقدامات کو انتہائی مربوط اور موثر بنانے کا حکم دیا تھا تاہم کچھ دیر بعد ہی میڈیا وین پر حملے کا واقعہ رونما ہوگیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایک ہی مقام پروقفے وقفے سے دہشت گردی کے دو واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ واقعے کا حساب ہوگا اور متاثرین کو ضرور انصاف دلائیں گے۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ کو فون کرکے ان واقعات کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
سماءٹی وی کی وین پر دہشت گردوں کاحملہ کراچی میں اپنی نوعیت کاپہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل ستمبر 2015 میں بھی سماءکی ڈی ایس این جی وین کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد نمبر 10 میں نشانہ بنایا گیا تھا۔2015 میں میڈیا پر حملے کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، اس دوران جیو ٹی وی کی ڈی ایس این جی وین پر نامعلوم افراد نے حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں جیو کا ایک ملازم ہلاک ہوگیا تھا۔اس کے بعد جیو کے سابق ملازم اور سینئر صحافی آفتاب عالم کو بھی نارتھ کراچی میں ان کے گھر کے باہر نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔2014 میں نارتھ ناظم آباد کے علاقے بورڈ آفس میں ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی پر فائرنگ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔بورڈ آفس کے قریب ایک ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز پر فائرنگ سے ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی پر سوار ڈرائیور خالد، ٹیکنیشن وقاص اور گارڈ ہلاک ہوگئے تھے۔
دن دہاڑے صحافیوں اور ٹی وی چینلز کی ٹیم کے ارکان پر فائرنگ کے پے درپے واقعات سے دہشت گردوں کی فائرنگ کانشانہ بننے والے صحافیوں سے ارباب حکومت کی بے اعتناعی کااظہار ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات پر حکومت کی جانب سے اظہار ہمدردی اور تعزیت محض رسمی خانہ پری سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔کیونکہ اس شہر کے معروف ٹی وی چینلز کے نوجوان اور ابھرتے ہوئے صحافیوں کو نشانہ بنانے والا کوئی ایک بھی اصل مجرم اب تک گرفتار نہیں کیاجاسکا ہے۔ اس حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ ٹی وی چینلز کی گاڑیوں اور صحافیوں پر حملے کے بیشتر واقعات نارتھ ناظم آباد میں بورڈ آفس سے فائیو اسٹار چورنگی کے قرب وجوار میں ہی پیش آئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نارتھ ناظم آباد کے اسی علاقے میں پولیس اور رینجرز کی گاڑیوں اور جوانوں کو بھی نشانہ بنایا جاتارہا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسی علاقے میں یا اس کے قرب وجوار میں دہشت گردوں کی کمین گاہیں موجود ہیں ۔دہشت گرد جہاں سے نکل کر کارروائی کرکے اپنی کمین گاہوں میں جاچھپتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اب بیان بازیوں سے آگے بڑھ کر عملی کارروائی کرنے کی کوشش کی جائے اور اس علاقے سے دہشت گرد کے مخصوص ٹھکانوں کا مکمل طورپر خاتمہ کرنے کے لئے مربوط اور بھرپور کارروائی کی جائے ،جب تک اس طرح کے واقعات کی بیخ کنی کے لیے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جائے گی ، ان کی روک تھام ممکن نہیں ہوسکے گی اور وزیر اعلیٰ سندھ یا انسپکٹر جنرل پولیس کی جانب سے واقعے کی رپورٹیں طلب کرنے کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا اوریہ واقعہ بھی اس طرح کے سابقہ واقعات کی طرح کچھ دنوں بعد داخل دفتر کردیاجائے گا۔
آئی جی سندھ ایک فرض شناس افسر ہیں،انھیں اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس میں ملوث ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر ایک مثال قائم کرنا چاہئے، اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ سندھ کو سماءٹی وی کے نوخیز اسسٹنٹ کے لواحقین کی دلجوئی کے لیے فوری طورپر ان کی مالی امداد کاصرف اعلان ہی نہیں کرناچاہئے بلکہ بلاتاخیر مالی مدد ان کے لواحقین تک پہنچانے کاانتظام کرنا چاہئے تاکہ مقتول کے اہل خانہ کو مالی مشکلات سے عارضی طورپر سہی نجات مل سکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں