ایف بی آر میں بڑے آپریشن کی ضرورت
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطاق ایف بی آر نے ٹیکس چوروں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا فیصلہ کرتے ہوئے بڑے شہروں کے 11 ہزار افراد کی فہرست تیار کرلی ہے جس میں صنعتکار ملزمالکان تاجر پراپرٹی ڈیلرز اور دیگر طبقوں کے افراد شامل ہیں۔ ایف بی آرکے ذرائع کے مطابق فہرست میں شامل افراد کاروبار کی رفتار سے ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہوئے۔ ٹیکس چوروں کے خلاف ثبوت موجودہیں ٹیکس نوٹس پر ایک ہفتے میں دستاویزات دینا ہوں گی۔ دوسری طرف ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ایف آئی اے حساس ادارے اورا سٹیٹ بینک نے گرینڈ آپریشن کیلئے تیاری شروع کردی ہے اس سلسلے میں بھی فہرستیں تیار کرلی گئی ہیں اور متعلقہ اداروں نے ایکسچینج کمپنیوں کا دو سال کا ڈیٹا حاصل کرلیا ہے جبکہ غیر معمولی تعداد میں ڈالر لینے والوں کی فہرست بھی تیار کرلی گئی ہے۔ بینکوں سے لاکر مالکان اور سامان کی تفصیل بھی جمع کی جا رہی ہے۔
ٹیکس نادہندگان سے ٹیکس کی وصولی ایف بی آر کی بنیادی ذمہ داری ہے، اس اعتبار سے ٹیکس نادہندگان یا آمدنی کے مقابلے میں کم ٹیکس دینے والے تاجروں، صنعت کاروں اور ملز مالکان کی فہرست کی تیاری ایک اچھا قدم ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف بی آر نے اب تک ان ٹیکس چوروں کو کس بنیاد پر کیوں چھوڑا ہوا تھا اور انھیں ٹیکس چوری کی پوری چھوٹ کیوں دی ہوئی تھی، ایف بی آر کی جب بنیادی ذمہ داری ہی ٹیکس جمع کرنا ہے تو11 ہزار افراد کو ٹیکس چوری کاکھلا موقع دیناخود ایف بی آر حکام کی ایمانداری پر ایک سوالیہ نشان ہے اور نگراں حکومت کو فرائض سے غفلت برتنے والے ایف بی آر کے متعلقہ افسران اور اہلکاروں کو بھی عبرت کانشان بنادینا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی قومی خزانے کی لوٹ مار میں معاونت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد آج تک قائم ہونے والی حکومتیں ایسی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں جن کی وجہ سے کاروباری طبقے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو اپنے ذمے قابل ادا ٹیکسوں کو قومی خزانے میں جمع کرنے پر مجبور کیا جا سکا ہو بلکہ ملک میں ہمیشہ سے ایسے لوگ ہی اقتدار میں رہے جنہوں نے ٹیکس دینے سے گریز کی پالیسیاں بنائیں اور لوگوں کو ٹیکس چوری کرتے رہنے کی چھوٹ دینے کیلئے قوانین میں جان بوجھ کر سقم رکھے گئے ایف بی آر کے حکام چونکہ قوانین میں موجود ان چور راستوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اس لئے وہ بھاری رشوت کے عوض دولت مندوں کو قومی خزانے میں سرنگ لگانے کے طریقے بتاتے رہے اوراس کے عوض چند ہزار تنخواہ پانے والے ایف بی آر کے اہلکار بھی اونچی اونچی کوٹھیوں کے مالک بنتے گئے لیکن ایف آئی اے سمیت کرپشن کے خلاف کام کرنے والے کسی ادارے نے کبھی ان سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ معمولی تنخواہ میں وہ ان کوٹھیوں کے مالک کیسے بن گئے،اس طرح ایف بی آر کے ان راشی افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے مراعات یافتہ طبقات ہمیشہ ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کے طریقے اور حربے اختیار کرتارہا۔ مٹھی بھر جن لوگوں نے ٹیکس دیا بھی تو ان میں زیادہ تر تنخواہ دار طبقہ یا چھوٹے کاروباری لوگ شامل تھے تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ سے چونکہ براہ راست ٹیکس کاٹ لیاجاتاہے اس لیے وہ ٹیکس چوری کرہی ہی نہیں سکتے اور چھوٹے تاجر ایف بی آر کے افسران کے کھلے ہوئے منہ بھرنے کی سکت نہیں رکھتا، اس لیے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہونا پڑتاہے، جبکہ ٹیکس ماہرین بڑے ٹیکس چوروں کی سرپرستی کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے رہے اور معقول معاوضے لے کر ٹیکس چوری میں ممد و معاون بنتے رہے، اس ساری صورتحال کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ ملک کا کاروبار چلانے کیلئے ٹیکسوں کی وصولی کا سارا نظام عام غریب آدمی کی جانب موڑ دیا گیا جن کی آمدنی پہلے ہی اس قابل نہیں تھی کہ اس کے اخراجات کا بار اٹھا سکے۔ اس پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کرتے ہوئے ہر قدم پر اسی غریب آدمی سے زبردستی ٹیکس وصول کیے جانے لگے۔ اس وقت زندگی کے ہر شعبے پر عام آدم ہی سے ٹیکس وصول کرکے قومی خزانہ بھرنے کے ظالمانہ اقدامات نافذ ہیں جبکہ ٹیکس چور مزے میں ہیں نہ صرف اپنے حصے کے ٹیکس ادا نہیں کررہے ہیں بلکہ اسی ٹیکس چوری سے اپنے خزانے بھر رہے ہیں جب تک ملک میں ٹیکس کلچر کا نفاذ درست طریقے سے نہیں کیا جائے گا ملک سے نہ غربت کا خاتمہ ہوسکے گا نہ ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کیلئے ٹیکس وصولی کے پورے نظام کو تبدیل کرنا ضروری ہے اور ایف بی آر کے ان تمام افسران اور اہلکاروں کو بیک جنبش قلم ملازمت سے فارغ کرکے ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اپنی آمدنی سے زیادہ کی ملکیت کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور بادشاہوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔