میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدلیہ کے خلاف مہم جوئی سے نوازشریف کے وکلا پریشان

عدلیہ کے خلاف مہم جوئی سے نوازشریف کے وکلا پریشان

منتظم
اتوار, ۱۳ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

*فیصلے پر نظرثانی کی اپیل تیار ہے وکلا دائر کرنے سے گریزاں ، کس منہ سے عدلیہ کے سامنے کھڑے ہونگے ،بڑاسوال
*وکلاء پینل کے سربراہ صادق اعوان کاخیال ہے عدلیہ پرتنقید کرکے نوازشریف نے کوئی جرم نہیں کیا‘تنقید کرنا ہرشہری کاحق ہے
*سپریم کورٹ بارکے ارکان عدلیہ مخالف مہم جوئی پربرہم ‘سپریم کورٹ سے معاملہ کانوٹس لیکرسخت کارروائی کامطالبہ کررہے ہیں
ایچ اے نقوی
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دئے جانے کے فیصلے کے بعد بظاہر اس فیصلے کو قبول کرنے کااعلان کرتے ہوئے اقتدار سے علیحدہ ہوجانے کے بعد نواز شریف نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کوجس طرح متنازع بنانے اور اعلیٰ ترین عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو مطعون کرنے کی مہم شروع کی ہے اس نے نہ صرف یہ کہ خود ان کی اپنی پارٹی کے سنجیدہ رہنماؤں ، دیرینہ ساتھیوں اور پارٹی کے صف اول کے رہنماؤں کو تذبذب میں مبتلا کردیاہے،بلکہ ان کے وکلا کی ٹیم بھی پریشان ہے،اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے وکلا کی ٹیم نے ان کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل تیار کرلی ہے لیکن اب وہ یہ اپیل پیش کرنے سے گریزاں اور ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے نظر آرہے ہیں کہ عدلیہ کے خلاف نواز شریف کی بڑھتی ہوئی ہرزہ سرائی کے ہوتے ہوئے وہ کس منہ سے عدالت کے سامنے کھڑے ہوں گے اور جج صاحبان کے سوالات کے کیاجواب دیں گے۔
نواز شریف کے وکلا کے پینل کے ایک سینئر وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ موجودہ صورت حال کے سبب ہم نے فیصلہ کیاہے کہ نظر ثانی کی اپیل فوری طورپر دائر کرنے کے بجائے نواز شریف کی مہم جوئی ختم ہونے کاانتظار کیاجائے اور نظرثانی کی اپیل کم از کم ایک ہفتہ تاخیر سے دائر کی جائے تاکہ نواز شریف کی جانب سے شروع کردہ مہم جوئی سے فضا میں پیدا ہونے والا بوجھل پن کچھ کم ہوسکے اور گرد کچھ بیٹھ جائے اور معاملات کسی حد پرسکون ہوجائیں ، جبکہ ایک دوسرے وکیل کاخیال تھا کہ نواز شریف چھن جانے کی وجہ سے سخت اضطراب میں ہیں اور یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ نچلے بیٹھ جائیں بلکہ اندیشہ یہی ہے کہ وہ عدلیہ کو مسلسل نشانہ بناتے رہیں اور اس صورت حال میں ان کاحق وفاداری نبھانے والے ٹی وی چینلز اور اینکر ز اس جلتی پر مزید تیل چھڑکتے رہیں گے جس کی وجہ سے یہ آگ جلد ٹھنڈی ہوتی نظر نہیں آتی۔نواز شریف کے وکلا کی اکثریت کا خیال ہے کہ نواز شریف نے عدلیہ کے خلاف مہم جوئی کے لیے بہت غلط وقت کا انتخاب کیا انھیں اقتدار سے فوری علیحدگی کے بعد کم از کم نظر ثانی کی اپیل کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے تھاتاکہ ان کادفاع کرنے والے وکلا عدلیہ کو یہ باور کراسکتے کہ نواز شریف عدلیہ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور عدلیہ کے فیصلے کے بعد انھوں نے اقتدار سے علیحدگی اختیار کرکے عدلیہ کے احترام کا ثبوت دیاہے اس لئے عدالت اب انھیں کچھ ریلیف فراہم کرسکے ،جبکہ موجودہ صورت حال میں عدلیہ کے سامنے یہ موقف اختیار نہیں کیاجاسکتااور پے درپے ہر جگہ اپنی تقریروں میں نواز شریف نے جس طرح عدلیہ کو نشانہ بنایا ہے اور مسلسل بنارہے ہیں اس کے پیش نظر ان کی باتوں کو غیر ارادی اور جذباتی قرار دے کر بھی ان کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنا ممکن نہیں ہوسکتا جبکہ نواز شریف کی اس مہم جوئی کے نتیجے میں عدلیہ دباؤ میں نہیں آئے گی اوراگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ دباؤ میں آکر اپنا فیصلہ تبدیل کردے گی تو یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ اس طرح کی مہم جوئی سے عدلیہ کو اپنے فیصلے پرقائم رہنے کی شہہ ملے گی کیونکہ اگر عدلیہ اس طرح سیاسی دباؤ پر اپنے فیصلے تبدیل کرنے لگی تو ہر طالع آزما چند ہزار کرائے کے ٹٹو جمع کرکے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے لگے گا، اور انصاف عدلیہ کی دہلیز پر ہی دم توڑ دے گا۔
یہ بھی معلوم ہواہے کہ اب نواز شریف کے وکلا موجودہ صورت حال میں نظر ثانی کی اپیل میں کامیابی سے ناامید ہونے کے بعد نظر ثانی اپیل کے ساتھ ہی اس فیصلے کے خلاف بھی ایک اپیل دائر کرنے پر سوچ رہے ہیں ،تاہم ماہرین قانون کا کہناہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ اسکینڈل کے حوالے سے آئین کی دفعہ184(3) کے تحت دئے گئے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
دوسری جانب نواز شریف کی پارٹی کے وہ سینئر ارکان جو آئین وقانون کی بھی کچھ سمجھ رکھتے ہیں کاکہناہے کہ نواز شریف اور ان کے وکلا نے ابتدا ہی سے سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کے ارکان اس کے طریقہ کار اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے واٹس اپ کالز وغیرہ کوجس طرح اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کی اس سے ان کی پوزیشن پہلے ہی کمزور بلکہ خراب ہوچکی ہے ،اور6 رکنی جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد ہی سے نواز شریف اور سپریم کورٹ کے درمیان تلخی کاشکار ہیں ۔نواز شریف نے پانامہ کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے خلاف ابتدا ہی سے جس طرح میڈیا میں مہم چلانے کی کوشش کی اور اس معاملے کو جس طرح سے توڑ مروڑ کر اور حقائق کو مسخ کرکے عوام کے سامنے پیش کی اس نے اعلیٰ عدلیہ کو پریشان کردیاتھاجس کا اندازہ مقدمے کی سماعت کے دوران ان کی جانب سے دئے جانے والے ریمارکس سے اچھی طرح لگایاجاسکتاہے۔اور فیصلے سے قبل بھی سپریم کورٹ کے جج حضرات نے 8 افراد کی نشاندہی کی تھی جو مبینہ طورپر عدلیہ اور جج حضرات کونشانہ بنانے کی کوشش کررہے تھے۔
اس پوری صورت حال کے باوجود نواز شریف کے وکلا کے پینل کے سربراہ صادق اعوان کااب بھی یہ خیال ہے کہ عدلیہ کے فیصلے پر برہمی کااظہار کرکے اور اس پر تنقید کرکے نواز شریف نے کوئی جرم نہیں کیا ہے ان کاکہناہے کہ عدالتی فیصلے عوامی امانت ہوتے ہیں اور ان پر تنقید کرنا ہر شہری کاحق ہے ،انھوں نے نواز شریف کی برطرفی اورنااہلی کے فیصلے کو حیران کن قرار دیا،صادق اعوان کاکہناتھا کہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وکلا نے ان جج حضرات کی بحالی کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیں لیکن یہ فیصلہ دیکھ کر انھیں مایوسی ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنائی جانی چاہئے اور نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والے ان ججوں کو اس بینچ میں شامل نہیں کیاجانا چاہئے۔
ایک طرف نواز شریف کے وکلا کے پینل کے سربراہ کے یہ خیالات ہیں دوسری جانب سپریم کورٹ بار کے ارکان نے عدالتی فیصلے
کے خلاف نواز شریف کی مہم جوئی پر انتہائی شدید غصے اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ عدالتی فیصلے پر اس طرح تنقید پر نواز شریف اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات قائم کئے جائیں اور انھیں اس پر فوری طورپر سخت سزائیں دی جائیں سینئروکلا کا کہناہے کہ اگر اس معاملے پرسپریم کورٹ نے فوری نوٹس نہ لیا تو عدلیہ کے فیصلوں کومذاق بنالیاجائے گا اور اس پر کیچڑ اچھالنا ایک فیشن بن جائے گا اس لئے عدلیہ کے تقدس کا تقاضا ہے کہ اس معاملے پر فوری کارروائی کی جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کے وکلا نظر ثانی اپیل دائر کرنے کے حوالے سے کیافیصلہ کرتے ہیں اور اس مقدمے کو کس انداز میں لڑنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان اپنے فیصلوں پر اس طرح تنقید کو نظر انداز کرتے ہیں یا اس پر نواز شریف سمیت دیگر متعلقہ افراد کو توہین عدالت کے الزام میں حاضر عدالت ہونے پر مجبور کرتے ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں