دہشت گردی ختم کرنے کے لیے علما سے مدد کی اپیل،مثبت سمت میں مثبت قدم
شیئر کریں
وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز جامعہ نعیمیہ میں اتحاد بین المسلمین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردوں کے نظریات کے خاتمے کے لیے علما سے مدد طلب کی ہے ان کاکہناتھا کہ دہشتگردی کا خاتمہ علماکے کردارکے بغیر ممکن نہیں۔ ریاست دہشت گردوں کا کھوج لگا رہی ہے، مگر علمائے کرام کے کردار کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ، انہوں نے اعتراف کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے کٹھن کام میں اللہ نے حکومت کی مدد کی جس کی وجہ سے پاک فوج دہشت گردوں کی کمر توڑنے میں کامیاب ہوگئی۔تاہم وزیراعظم نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ملک میں اب بھی دہشت گردی کے تھوڑے بہت واقعات رونما ہو رہے ہیں اور معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دہشت گردوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، مگر حکومت ان کا کھوج لگا رہی ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے علما کرام سے مدد کی اپیل کو ’دیر آید درست آید‘ کے مصداق صحیح سمت میں ان کاصحیح قدم قرار دیاجاسکتاہے ، اگر حکومت ابتدا ہی میں دہشت گردوں کے خلاف مہم میں علما کرام کو شامل رکھتی اور ان کے مشورے سے کام کرتی تو شاید دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو اس ملک میں پھلنے پھولنے اور اپنی جڑیں گہری کرنے کا موقع نہ ملتا،کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دہشت گرد اپنی مجرمانہ کارروائیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے دینی دلائل استعمال کرتے ہیںاور اسلام کے اصولوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے اپنی مجرمانہ اور مذموم وقابل مذمت کارروائیوں کو درست اور خود کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں،علمائے کرام ہی عام آدمی کو اس طرح کی تاویلات کامثبت اورمسکت جواب دے کر ان کے استدلال کو مسترد کردینے کے قابل بنا سکتے ہیں۔اس اعتبار سے یہ واضح ہے کہ دہشت گردی کے خلاف حتمی اور یقینی کامیابی کے لیے علمائے کرام کا ساتھ ضروری ہے، جہاں تک علمائے کرام کا تعلق ہے تو انہوں نے ملک میں امن وامان قائم رکھنے، فرقہ وارانہ اتحاد برقرار رکھنے اور پوری قوم کو منظم اور مربوط اور متحد رکھنے کے حوالے سے ہمیشہ ہی ریاست اور حکومت کا ساتھ دیا ہے اورمشکل وقت میں مسلک اور فرقہ سے بالاتر ہوکر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر سڑکوں پر آنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے جبکہ اس حوالے سے علمائے کرام کے ساتھ حکومت کا رویہ کبھی بھی ایسا نہیں رہا جسے خوش آئند کہاجاسکے۔
وزیراعظم نواز شریف کا یہ خیال اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ انتہاپسندی اور جہاد2الگ چیزیں ہیں، مگر انتہاپسندوں نے جہاد کے نظریے اور بیان کو مسخ کرکے دہشت گردی میں بدل دیا ہے اور وہ مسلمانوں میںتفریق پیدا کرنے اورعلمائے کرام کوسرعام اس فرق کو نمایاں کرنے سے روکنے کے لیے خوف ودہشت کی فضا قائم کرنے کے لیے جہاد کے نام پر قتل کو جائز قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے، آج اس نظریے اور اس بیان کو غلط ثابت کرنے اور اسے مسترد کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ کام عالم دین ہی کر سکتے ہیں۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہماری مسلح ا فواج اورپولیس اور رینجرز کے جوانوں نے وطن کی حفاظت کے لیے اپنے سر ہتھیلیوں پر رکھ کر اپنے فرائض انجام دیے ہیں، فوج ،رینجرز اورپولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کمر کسی اوراپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کی کچھار میں کود کر ان کو للکارا اور اس عمل کے دوران اپنی قیمتی جانوں کانذرانہ پیش کیا، ہماری مسلح افواج، رینجرز اور پولیس کے جری نوجوانوں نے ملک کے نونہالوں کے مستقبل کو تابناک بنانے اور ملک کے عام آدمی کے گھروں کو ہنستا بستا رکھنے کے لیے اپنے اہل خانہ اور اپنے بچوں کے مستقبل کو داﺅ پر لگادیا ، ملک کی سلامتی کے تمام اداروں نے یکسو ہوکر اپنے فرائض انجام دیے اور اس ملک کے عوام نے بے مثال عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی پشت پناہی کی۔
وزیر اعظم کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیںہوتا ۔علمائے کرام نے ہر موقع پر اس کو اجاگر کیا ہے،وزیراعظم کا یہ خیال درست ہے کہ حکومت عوام اور علمائے دین کے بھرپور تعاون سے ان شکست خوردہ اور مایوس عناصر کو شکست دے سکتی ہے جو قومی وحدت کے خلاف ہیں،لیکن یہ کام صرف زبانی تقریروں سے نہیں ہوسکتا اس کے لیے حکومت کو اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور لبرل ازم اور ترقی پسندی کے نام پر مذہب اور علمائے کرام کی تضحیک کرنے والے عناصر کو لگام دیناہوگی۔ انصاف کے نظام کو مو¿ثر بنانا ہوگا ، انصاف کومشکل اور عام آدمی کی دسترس سے دور کی چیز بنانے کے بجائے عام آدمی کی دسترس میں لانا ہوگا، اور ایک ایسا نظام وضع کرناہوگا جس میں معمولی سے معمولی اور غریب ترین فرد کوبھی یہ یقین ہو کہ کوئی بااثر اور باوسیلہ شخص اس کاحق نہیں مارسکتا اور ایسا کرنے والا قانون کی دسترس سے نہیں بچ سکے گا۔
اس حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ انصاف کے راستے کا آغاز پولیس اسٹیشن سے ہوتا ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو اس پولیس فورس کواپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ پولیس کو حکومت کے خلاف مظاہروں کو کچلنے اور مخالفین کا سرکچلنے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے انہیں ان کے اصل کام تک محدود کرنا ہوگا، اور پولیس کے احتساب کاایک ایسا نظام قائم کرنا ہوگا کہ پولیس کا کوئی افسر اور اہلکار رشوت اور بددیانتی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے ، ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی آمدنی اور خرچ پر نظر رکھنا ہوگی اور عوام کو لوٹ کر ڈیفنس میں کوٹھیاں بنانے اور لمبی گاڑیوں میں گھومنے والے آئی جیز، ڈی آئی جیز ،اے آئی جیز،ایس ایس پیز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز سے یہ پوچھنا ہوگا کہ وہ اتنی عالی شان عمارت کے مالک کیسے بنے؟
وزیراعظم کایہ کہنا درست ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی بھی انسان کی سوچ نہیں بدلی جاسکتی، تاہم ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے محفوظ اور مربوط نظام بنایا جاسکتا ہے،اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ قومی دولت لوٹنے والوں کاپتہ چلا کر ان کااحتساب ضرور کیاجاسکتاہے اور اگر بااثر لوگوں کا احتساب کسی امتیاز اور رعایت کے بغیر یقینی بنادیاجائے تو لوگوں کی سوچ بھی یقیناً بدل جائے گی۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے پہلے حکومت کو، وزیر اعظم کو، اپنی سوچ بدلنا پڑے گی۔ اپنے ساتھیوں اور ہم نواﺅں کی سوچ بدلنا پڑے گی ،اگر وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھ صاف ہوں گے ، اگر وہ اپنی اوراپنے بچوں کی بیرون ملک سرمایہ کاری ختم کرکے اپنی دولت پاکستان منتقل کرنے پر تیار ہوجائیں تو نہ صرف یہ کہ ہمارے بہت سے صنعت کار اور تاجر بھی ان کی پیروی کریں گے بلکہ بیرون ملک بھی ہماری ساکھ زیادہ بہتر ہوگی اور غیرملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریز نہیں کرےں گے اور جب پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا تو روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے اور جب سب کو ان کی اہلیت کے مطابق روزگار کی فراہمی یقینی ہوجائے تو پھر دہشت گردوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے پاکستان میں افرادی قوت دستیاب نہیں ہوسکے گی اس طرح دہشت گردی خود بخود دم توڑ جائے گی ۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری مساجد اورخانقاہیںہمیشہ امن کا گہوارہ رہی ہیں ،حقیقی معنوں میں اسلام کی تعلیم دینے والے کسی بھی مدرسے اور کسی بھی خانقاہ میں دہشت گردی کے نظریات کی ترویج نہیں کی جاتی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے بعض علما اپنی کم علمی یاجاہ طلبی کا شکار ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا کردار ادا کرنے لگے ہیں ، دہشت گرد ان علما کی کم علمی یا ان کی معاشی تنگی کی بنیاد پر ان کو اسلام کی غلط تشریح ذہن نشین کراکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ معصوم علما اپنی کم علمی کی وجہ سے جنت کی طلب اورچاہت میں جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں ۔اس صورت حال کے خاتمے کے لیے بھی جید علما ہی نہ صرف مدد کرسکتے ہیں بلکہ نمایاں کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے جید علما کرام دہشت گردوں کے ورغلانے میں آجانے والے کچے ذہن کے کم علم علما کے سامنے اسلام کی صحیح تشریح کرکے انہیں راہ راست پر لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمارے علمائے کرام کو وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فتووں سے آگے نکلنا ہوگااور تمام مسالک اور فرقوں کا احترام کرناہوگا اور سب کو ملک کو دہشت گردی کے لیے تراشے جانے والے دینی دلائل کا مدلل اور منطقی انداز میں جواب دیناہوگا۔علما کو دہشت گردوں اور اسلام دشمن عناصر کی جانب سے ایک منظم سازش کے تحت پھیلائے جانے والے نفرت کے زہرکا توڑ کرناہوگا اس زہرکوعلما ہی ختم کرسکتے ہیں،انہیں لوگوں کو یہ بتاناہوگا کہ دہشتگردی کی بنیادیں انتہا پسندی پر ہیں اور اسلام نے ہمیں میانہ روی کادرس دیاہے۔ اسلام نے تو ہمیں دیگر مذاہب کے خود ساختہ خداﺅں کو برا کہنے کی ممانعت کی ہے ،علما کرام کو عوام کو خاص طورپر کم علمی کے شکار علما اور دینی مدرسین کو یہ بتانا ہوگا، سمجھانا ہوگا کہ اسلام دشمن عناصر دین کے نام پرانتہاپسندی پھیلاکر ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں ،لیکن اس کام میں حکومت کو ہمارے علما کرام کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا اور امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کو خوش کرکے دینی مدرسوں ،مساجد اور خانقاہوں کو بدنام کرنے کا وطیرہ ترک کرنا ہوگا ،اگر کوئی عالم دین اپنی کم علمی یا معصومیت کی وجہ سے دہشت گردوں کے بہکاوے میں آبھی گیاہو تو میڈیا پر اس کی تشہیر کرنے کے بجائے اسے اصلاح کا موقع دینا ہوگا ،اور اس کی ذہنی تربیت کا فریضہ جید علما کرام کے سپرد کرنے کاطریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ جب تک حکومت خود دین اور دینی اداروں کا احترام نہیں کرے گی دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر حکومت کے اس عمل کو غلط رنگ میں پیش کرکے اپنا الو سیدھا کرتے رہیں گے ۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم دین کی آبیاری کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لانے پر غور کریں گے ،اور علمائے کرام کو اپنا دست وبازو بنانے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے دہشت گردوں کو حقیقی معنوں میں شکست دی جاسکتی ہے۔