میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ میں وزارت اعلیٰ کا تنازع اور تبدیلی کی افواہیں۔۔۔۔

سندھ میں وزارت اعلیٰ کا تنازع اور تبدیلی کی افواہیں۔۔۔۔

جرات ڈیسک
پیر, ۱۲ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

نجم انوار
۔۔۔۔۔

٭ پیپلزپارٹی کے کئی رہنما چاہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ کو تبدیل کیا جائے اور وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے دو سے تین طاقتور وزیر ہمیشہ امیدوار ہوتے ہیں
٭سینئر سیاستدان اور پی پی رہنما قائم علی شاہ کے ساتھ بھی پارٹی کی اندرونی لابیز نے کام دکھایا تو پی پی مخالف وزیراعلیٰ سردار علی محمد خان مہراور ارباب غلام رحیم کے ساتھ بھی یہ ہوتا رہا
٭مراد علی شاہ پہلی بار29/ جولائی 2016ء میں وزیراعلیٰ بنے تب بھی سید قائم علی شاہ کو فارغ کیا گیا تھا۔ مراد علی شاہ پہلی مدت کے دوران بہت زیادہ طاقتور تھے
٭سال دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان سے ٹکراؤ اور راولپنڈی کے طاقتور حلقوں سے روابط میں بھی مراد علی شاہ بہترین کھیلتے رہے، آصف زرداری بھی خوش رہے
٭سال 2023 کے انتخابات کے بعد ایسا نہیں ہے اور ہوائیں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مخالف سمت میں چل رہی ہیں جس کی وجہ سے مراد علی شاہ مسلسل دباؤ کے شکار ہیں
٭سندھ کی سیاست اور وزیراعلیٰ کے عہدے کے بارے میں اچانک ہلچل اس وقت پیدا ہوئی جب بلاول بھٹوکراچی پہنچے اور ناصر شاہ کو اپنے ساتھ لے کر اسلام آباد آصف زرداری سے ملاقات کے لیے پہنچے
٭حالیہ ہلچل کا تناظر یہ ہے کہ سندھ کے سینئر وزیر اوروزیرا طلاعات شرجیل انعام میمن نے آصف علی زرداری اور پی پی رہنما فریال تالپور کو باور کروایا کہ وہ پی پی قیادت کی ہر توقع پر پورا اُتریں گے
٭پی پی رہنما فریال تالپور چاہتی ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو تبدیل کیا جائے، چونکہ وہ خود بھی وزیراعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہو گئی ہیں، اس لیے انہوں نے شرجیل انعام میمن کی حمایت کی ہے
٭ فریال تالپور مراد علی شاہ کی شدید مخالف ہیں، اس لئے انہوں نے اپنے قریبی ساتھی ضیاء لنجار کو وزیر داخلہ بنوایا، ضیاء لنجار نے احکامات جاری کیے کہ محکمہ داخلہ میں ان کے سواکسی کا حکم نہیں چلے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ میں ہمیشہ پارٹی کے اندر ہی وزیراعلیٰ کی حامی اور مخالف لابی ہوتی ہے، وزیراعلیٰ کی پارٹی کے کئی رہنما چاہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ تبدیل کیا جائے اور وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے دو سے تین طاقتور وزیر ہمیشہ امیدوار ہوتے ہیں۔سینئر سیاستدان اور پی پی رہنما قائم علی شاہ کے ساتھ بھی پارٹی کی اندرونی لابیز نے کام دکھایا تو پی پی مخالف وزیراعلیٰ سردار علی محمد خان مہراور ارباب غلام رحیم کے ساتھ بھی یہ ہوتا رہا۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ سردار علی محمد مہر کی تبدیلی کی افواہ چلی تو صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی کابینہ کا ایک وزیر آپ کی جگہ پر وزیراعلیٰ بننا چاہتے ہیں جس پر علی محمد مہر نے اعتراف کیا تھا کہ ایک نہیں دو یا تین وزیر ہیں، بعد میں ارباب غلام رحیم کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔ان تمام حقائق کے تناظر میں سندھ میں قائم علی شاہ کے بعد مراد علی شاہ نے بھی پانچ سال کی مدت پوری کر دکھائی ہے۔ اگرچہ مراد علی شاہ پہلی بار29/ جولائی 2016ء میں وزیراعلیٰ بنے تب بھی سید قائم علی شاہ کو فارغ کیا گیا تھا۔ مراد علی شاہ پہلی مدت کے دوران بہت زیادہ طاقتور تھے۔ سال دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد بھی پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنانے میں کامیاب رہے۔ سال دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان سے ٹکراؤ اور راولپنڈی کے طاقتور حلقوں سے روابط میں بھی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بہترین کھیلتے رہے جس کی وجہ سے آصف علی زرداری بھی ان سے مطمئن اور خوش رہے لیکن سال 2023 کے انتخابات کے بعد ایسا نہیں ہے اور ہوائیں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مخالف سمت میں چل رہی ہیں جس کی وجہ سے مراد علی شاہ مسلسل دباؤ کے شکار ہیں۔
سندھ کی سیاست اور وزیراعلیٰ کے عہدے کے بارے میں اچانک ہلچل اس وقت پیدا ہوئی جب پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کراچی پہنچے اور وزیر توانائی سید ناصر شاہ کو اپنے ساتھ لے کر اسلام آباد گئے اور ایوان صدر میں آصف علی زرداری کے ساتھ ان کی ملاقات کروائی۔اس پوری ہلچل کا تناظر یہ ہے کہ سندھ کے سینئر وزیر، وزیرا طلاعات، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے صدر آصف علی زرداری اور پی پی رہنما فریال تالپور کو باور کروایا کہ وہ پی پی قیادت کی ہر توقع پر پورا اُتریں گے۔ پی پی قیادت کو ہر مشکل مالی وقت میں کام آئیں گے اور صوبے میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کی بھی بھرپور کوشش کریں گے۔ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن پی پی سندھ کے سابق صوبائی صدر نثار احمد کھوڑو کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بننے کے بعد وزیراعلیٰ بننے کی پوری کوشش کر رہے ہیں کیونکہ نثار کھوڑو بھی وزیراعلیٰ کے امیدوارتھے۔
سندھ کے طاقتور وزیر شرجیل انعام میمن کی کوششوں پر پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سرگرم ہوئے اور انہوں نے وزیرتوانائی ناصر شاہ کی آصف زرداری سے ملاقات کروائی، صدر آصف زرداری اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے دوران پی پی رہنما ناصر شاہ نے اپنا وزن وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پلڑے میں ڈال دیا اور کہا کہ مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ کے طور پر برقرار رکھا جائے۔ناصر شاہ کا اس معاملے میں کردار سندھ کی پوری سیاست کو سمجھنے میں نہایت دلچسپی کا حامل ہے۔ جرأت کو انتہائی قابل اعتماد ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ناصر حسین شاہ بھی اُن لوگوں میں شامل تھے جو مراد علی شاہ کی بطور وزیراعلیٰ تبدیلی کے حق میں تھے۔ شرجیل میمن کی پوری مہم کے پس منظرمیں ناصر شاہ کی حمایت شامل رہی۔اُنہوں نے بوجوہ شرجیل انعام میمن کو قبول کر لیا تھا کیونکہ شرجیل انعام میمن کبھی بھی مراد علی شاہ سے زیادہ طاقت ور وزیراعلیٰ ثابت نہیں ہو سکتے تھے۔ واضح رہے کہ اس دوران میں بلاول بھٹو اور فریال تالپور کے مابین اختلافات کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔ جس میں شرجیل انعام میمن کے لیے وزارت اعلیٰ کالُچ تلنا زیادہ آسان محسوس ہونے لگا۔ بلاول بھٹو اور فریال تالپور کے مابین اختلافات کی زیرگردش خبریں ایک الگ موضوع ہے، جسے کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ الغرض جب شرجیل انعام میمن کی مہم کو فریال تالپور کی حمایت ملنے کے بعد مخصوص حلقوں میں بھی پزیرائی ملنا شروع ہوئی تو بلاول بھٹو جو شازیہ مری اور قرۃ العین مری کے زیراثر مراد علی شاہ کی حمایت کو اپنی ضد بناچکے ہیں اچانک متحرک ہوئے اور اُنہوں نے ناصر شاہ کی شرجیل انعام میمن کے لیے حمایت کے تاثر کو آصف زرداری کے سامنے زائل کرنا ضروری سمجھا۔ ظاہر ہے کہ ناصر شاہ کی جانب سے شرجیل انعام میمن کی حمایت بلاول بھٹو کی ناراضی کی صورت میں برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔ اس لیے ناصر شاہ نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے سامنے اپنے کردار کو بلاول بھٹو کی منشاء کے مطابق رکھا۔ یہ ایک دلچسپ کھیل ہے جو ناصر شاہ کی سندھ میں سیاست اور خود اُن کے حوالے سے پائی جانے والی حمایت اور مخالفت سے جڑا ہوا ہے۔ مگر یہ بھی ایک الگ موضوع ہے جو ناصر حسین شاہ کی سیاست کے تناظر میں کسی اور موقع پر موضوع بحث بنایا جائے گا۔

اس تناظر میں وزیرتوانائی ناصر شاہ نے بھی مجبوراً اپنا وزن ہالا کے مخدوم خاندان، عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے وزیر تعلیم سردار علی شاہ، ٹنڈو الہٰیار سے تعلق رکھنے والے ضیاء عباس شاہ رضوی، سکھر کے خورشید شاہ کے پلڑے میں ڈال دیا جو نہیں چاہتے کہ شرجیل انعام میمن وزیراعلیٰ بنیں۔بلاول بھٹو کے دباؤ یا اُن کی مخالفت سے بچنے کی خاطر ناصر حسین شاہ کا یہ کردار اپنی جگہ ہے مگر پی پی رہنما فریال تالپور تاحال یہی چاہتی ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو تبدیل کیاجائے۔ چونکہ وہ خود بھی وزیراعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہو گئی ہیں، اس لیے انہوں نے شرجیل انعام میمن کی حمایت کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں کی وجہ سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی کرسی تو فی الحال بچ گئی ہے تاہم سندھ کابینہ میں تبدیلیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت وزیر بلدیات سعید غنی کو وزیر اطلاعات بنایا جائے گا اور اُنہیں محکمہ محنت کا قلمدان بھی اضافی دیا جائے گا، شرجیل میمن سے سینئر وزیر کا درجہ واپس لے کر ناصر شاہ کو سینئر وزیر بنایاجائے گا اور ناصر شاہ کو محکمہ بلدیات دیے جانے کا امکان ہے۔ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ سے محکمہ مائنز اینڈ منرل واپس لے کر صوبائی وزیر محمد علی ملکانی کو دیا جائے گا، محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز محمد علی ملکانی سے واپس لے کر میر طارق تالپور کو یونیورسٹیز اینڈ بورڈ ز کا وزیر بنایا جائے گا۔ شاہد عبدالسلام تھیئم سے محکمہ محنت واپس لیے جانے کا امکان ہے اورانہیں کو اسٹیوٹا یا سماجی بہبود کا وزیر بنائے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی رہنما فریال تالپور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی شدید مخالف ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے قریبی ساتھی ضیاء لنجار کو وزیر داخلہ بنوایا۔ وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے احکامات جاری کیے کہ محکمہ داخلہ میں ان کے حکم کے سوا کوئی بھی کام نہیں ہوگااور سی ایم ہاؤس یا کسی بھی دوسرے شخص کے احکامات تسلیم نہ کیے جائیں جس کے باعث محکمہ داخلہ سندھ میں وزیراعلیٰ ہاؤس سے بھیجی گئی اسلحہ لائسنس کی درخواستوں کو الماری کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اعلیٰ پولیس افسران کی تقرری میں بھی وزیر داخلہ ضیاء لنجار وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے زیادہ طاقتور نظر آئے اور تبادلوں، تقرریوں میں اپنی بات منوائی۔
حکومت کے قیام کے بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے غلام نبی میمن کو آئی جی سندھ تعینات کرنا چاہا لیکن اس پر بھی وزیر داخلہ ضیاء لنجار نے رائے دی کی آئی جی کی تقرری ان کی مرضی سے ہوگی اور یوں اس تقرری کا معاملہ کئی دن تک زیر بحث رہا اور بآلاخر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور ضیاء لنجار میں صلح ہوئی تو غلام نبی میمن کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایس ایس پیز کی تقرریوں میں بھی وزیر داخلہ ضیاء لنجار اپنی مرضی چلاتے ہیں اور حیدرآباد میں انہوں نے اپنے قریبی رشتے دار فرخ لنجار کو ایس ایس پی تعینات کیا ہے۔ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن اورفریال تالپور کی لابی سابق صوبائی وزیر امتیاز احمد شیخ کو بھی آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ بھی ان کی لابی میں آئیں تو امتیاز شیخ کو وزیر خزانہ بنایا جائے گا لیکن امتیاز احمد شیخ نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ان پر احسانات ہیں اس لئے وہ وزیر خزانہ نہیں بن سکتے۔ سندھ میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے گرد گھیرا تنگ پہلی بار نہیں ہوا، کچھ ماہ قبل بھی مراد علی شاہ نے اپنے آپ کو بے بس، لاچار اور کمزور سمجھتے ہوئے پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو شکایت کی کہ وزراء ان کی بات نہیں مانتے جس پر پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی پہنچ کر وزیراعلیٰ ہاؤس میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا، اجلاس میں بلاول نے وزراء سے کارکردگی کے حوالے سے سوالات کیے اور کہا کہ مراد علی شاہ پانچ سال وزیراعلیٰ کے عہدے پر رہیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اجلاس کے دوران شرجیل میمن کا نام نہ لیتے ہوئے کہا کہ سندھ کے وزیر اطلاعات کا کام نہیں کہ وہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان پر تنقید کریں، پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اجلاس میں شریک ایک ایم پی اے سے جرأت نے سوال کیا کہ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ کے طور پر برقرار رہیں گے؟ جس پر ایم پی اے نے کہا کہ مراد علی شاہ کوششیں تو بڑی کر رہے ہیں لیکن پانچ سال کی مدت بھی بہت بڑی ہے اور ان کی مدت میں ابھی 4 سال کا عرصہ ہے یہ بہت زیادہ وقت ہے۔ اتنا عرصہ اپنے آپ کو برقرار رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔
سندھ کے صحافتی حلقوں میں یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے صرف پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پیپلز پارٹی ایم این اے شازیہ عطا مری اوران کی بہن سینیٹر قرۃ العین مری مطمئن ہیں۔باقی پی پی رہنما مراد علی شاہ سے شدید نالاں ہیں۔ فریال تالپور کو پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے بیک وقت قریب رہنے والی پی پی ایم این اے شازیہ مری اور ان کی بہن سینیٹر قرۃ العین مری پر شدید غصہ ہے۔ الیکشن کے وقت صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور چاہتے تھے کہ مراد علی شاہ کو تیسری بار وزیراعلیٰ نہ بنایا جائے، وزیراعلیٰ کے لئے ناصر شاہ یا کسی اور کو منتخب کیا جائے لیکن بلاول بھٹو زرداری کی ضد کے باعث آصف زرداری اور فریال تالپور خاموش رہے، بلاول نے الیکشن کے وقت ہی آصف زرداری کو آگاہ کیا تھا کہ سندھ میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہی ہونگے، الیکشن کے بعد پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو نے مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان اچانک کیا۔پی پی کے کئی رہنما بلاول بھٹو زرداری کے فیصلوں کو دل سے نہیں مانتے لیکن وقت اور حالات کی وجہ سے مجبور ہیں۔ سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار نے دعویٰ کیا کہ صدر آصف زرداری نے ایک اجلاس میں کہا کہ بیٹا تو سب سے آگے ہے لیکن اسپیئر میں بہت ہیں،اس لئے آصف زرداری نے کمال مہارت کے ساتھ اپنی خالی کی ہوئی ایم این اے کی نشست پر آصفہ بھٹو زرداری کو شہید بینظیرآباد سے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کروایا اور بلاول بھٹو زرداری کو خاموش پیغام دیا گیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کسی بھی وقت اچانک کوئی گڑ بڑ ہوئی تو آصفہ بھٹو زرداری قیادت سنبھالیں گی۔
****


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں