میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رمضان مبارک کے تقاضے!

رمضان مبارک کے تقاضے!

جرات ڈیسک
منگل, ۱۲ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

رمضان مبارک کاآغاز ہوچکا ہے۔یہ وہ ماہ مقدس ہے جس کا ذکر فضیلت کے ساتھ قرآن کریم میں آیا ہے اور ہمارے پیارے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے سے اتنی محبت فرماتے کہ اسے پانے کی دعائیں فرماتے اور شعبان میں ہی روزوں کی کثرت سے رمضان کے استقبال کی تیاری فرماتے اور صحابہ کرام ؓ سے استفسار فرماتے کہ کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور ساتھ ہی فرماتے کہ بے شک رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہل قبلہ کو بخش دیا جاتا ہے، یہ اللہ کریم کا خاص مہینہ ہے اور بڑی سخاوت و بخشش والا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس میں اللہ رب العزت نے اپنے گنہگار بندوں کی بخشش کے بہت سے مواقع رکھے ہیں۔نیک عمل وہی ہے جو عام مہینوں اور عام دنوں میں کیا جائے تو اس کا بھی اجر و ثواب ملتا ہے لیکن اگر ماہ رمضان میں نیکی کی جائے تو خدا اجر و ثواب کو بہت بڑھادیتا ہے، اپنے خاص کرم سے نوازتا ہے، اور ہر اس شخص کے لیے نیکی کے دروازے کھول دیتا ہے جو اس کی خواہش رکھتا
ہے۔ یہ عنایات، نوازنے اور نیکیوں کا مہینہ ہے، رحمت، بخشش اور جہنم کی آگ سے آزادی کا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور یہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں اللہ کریم نے فرمایا:”رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا“ (البقرہ: 186)۔ یہ برکتوں اور نعمتوں سے بھرا مہینہ ہے، اور قرآن کریم کا اس کی طرف توجہ دلانا ہی ہمارے لیے کافی ہے، جیسا کہ اس
میں اس کا تذکرہ ہے، اس کے واجبات کا حکم دیا گیا ہے، اور پھر اس کی جامع نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک اور جگہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔”پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو دیکھے وہ اس کے روزے رکھے“۔ (البقرہ: 186)۔ مسلمان رمضان کے روزے اس مقصد کے ساتھ رکھتا ہے کہ وہ گناہوں اور مکروہات سے چھٹکارا حاصل کرے جو سال بھر اس پر جمے رہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مختلف عبادات سکھائی ہیں تاکہ ان کی روح کو نافرمانی اور گناہوں کی غلاظت سے پاک کیا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ کے پاس روزہ دار کے لیے بہت اعلیٰ اور خاص اجر ہے، اور اس کی تصدیق ایک حدیث پاک میں ہے:”روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا“۔ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب روزے کی فضیلت)۔روزہ دار اپنے روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کوشش کسی حد تک اسے اللہ تعالیٰ سے ملنے کا اہل بناتی ہے۔ یہاں ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے سے روح کیسے پاکیزہ ہو سکتی ہے اور یہ جسمانی تھکاوٹ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کہاں سے قائم کرتی ہے؟ واضح رہے کہ انسانی دل بہت سی برائیوں سے داغدار ہے۔دل کا برتن خدا کی پاکیزہ محبت رکھنے کے قابل نہیں ہے اور اس کے چکھنے کی اعلیٰ خوشنودی حاصل نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ دل کو مصائب کی آگ میں جھونک دیا جائے اور اس کی نجاستوں اور برائیوں کو دور کرنے کے لیے صبر کیا جائے۔روح کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مشقت، تھکاوٹ، اور برداشت کر کے اللہ تعالیٰ سے ملنے کے قابل بنانا ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اے لوگو تم اپنے رب کے لیے کوشش کرو اور تم اس سے ملو گے“۔ (الانشقاق:7)۔اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے سچے مومن کے لیے سخت جدوجہد اور مختلف مشکلات کی آگ میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔ جان لو کہ یہ مصیبتیں 2قسم کی ہوتی ہیں، پہلی وہ مصیبتیں اور آفتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر انسان پر آتی ہیں اور جن کو انسان برداشت نہیں کر سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کو دور کرنے کی دعا سکھائی۔ مشکلات جو ایک شخص برداشت نہیں کر سکتا۔ فرمایا:”اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہم میں طاقت نہ ہو۔“ (البقرہ: 287)۔دوم: یہ وہ جدوجہد ہیں جن کا انتخاب مومن اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کرتا ہے۔ روزہ ان جدوجہد میں سے ایک ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں روزے کا حتمی مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے اس فرمان میں واضح کیا ہے: ”…تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ“۔ (البقرہ: 184)۔
اول: روزہ دار جب کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے تو غریبوں، بھوکوں اور پیاسوں کی تکلیف کو محسوس کر سکتا ہے جو اسے تسلی دینے، ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے پر اکساتا ہے۔ ایک شخص دوسروں کے دکھ کی قدر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اس سے دوچار نہ ہو یا اس سے گزر جائے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے مومن کو رمضان کے روزے رکھنے کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دکھی اور مساکین کی تکالیف کا احساس کر سکے۔یہ ایک طرف ہے، اور دوسری طرف، یہ رمضان کو خیرات اور خدا کی خاطر خرچ کرنے والا مہینہ بنا دیتا ہے۔دوسرا: روزہ دار روزے سے یہ سبق سیکھتا ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی کچھ دنیاوی لذتیں، نفسانی خواہشات اور اپنی فطری ضرورتوں کو ترک کرنا ہو گا، اگر وہ ایسا کرے تو یہ اس کا حصہ ہے۔دلوں کا تقویٰ۔ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ ہمیں جو کچھ سکھاتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لیے حلال چیزوں میں سے کچھ ترک کر سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے حرام کو چھوڑنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ رمضان کے مقدس مہینے کی برکات میں سے ایک ”دعا کا جواب دینا“ ہے۔ اس مہینے میں دعاؤں کی قبولیت کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے جہاں اس نے روزے کی فرضیت کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:”اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں تو میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، پس چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں“۔ (البقرہ: 187)۔رمضان کی ایک اور عظیم نعمت قیام الیل یعنی نماز تراویح ہے، اس کا خشوع خضوع سے اہتمام کیا جائے۔ تہجد کا اہتمام کیا جائے۔ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ ماہ رمضان کی ایک ایک ساعت ہمارے لیے رحمت کا باعث ہے،لیکن ہمارے ہاں آج تک یہ عقدہ حل نہیں ہو سکا کہ ہم ایک مسلم ملک کے اللہ تعالیٰ کو ماننے والے اور آخرت پر یقین رکھنے والے ہیں لیکن اس کے باوجود ماہِ رمضان آتے ہی پاکستان میں اشیاکی قیمتوں کو پَر کیوں لگ جاتے ہیں۔دنیا بھر میں ماہِ رمضان کی آمد پر غیر مسلم ممالک میں بھی اشیاء سستی کر دی جاتی ہیں۔اس حوالے سے ڈسکاؤنٹ ا سکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں،مگر بدقسمتی سے پاکستان میں رمضان سے پہلے ہی کاروباری طبقہ چھریاں تیز کر لیتا ہے۔حکومت صرف یوٹیلٹی اسٹور پر رمضان پیکیج دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہے،حالانکہ وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہوتا ہے،ویسے بھی ملک میں یوٹیلٹی ا سٹورز کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ عوام کی ضروریات پوری کر سکیں۔اس کا یہ حل ہر گز نہیں،اصل حل یہ ہے مصنوعی مہنگائی کرنے والوں اور ذخیرہ اندوزوں پر مضبوط ہاتھ ڈالا جائے۔یہ کوئی مشکل سائنس نہیں کہ اِس بات کا کھوج نہ لگایا جا سکے کہ رمضان المبارک سے پہلے100 روپے درجن بکنے والا کیلا یا ڈھائی سو روپے کلو ملنے والا سیب 500 روپے کلو کیوں ہو جاتا ہے۔ظاہر ہے کوئی نہ کوئی مافیا ہے جو اِس سارے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔یہ بڑے بڑے آڑھتی اور اسٹور مالکان ہیں جو پھلوں کا بھی ذخیرہ کر لیتے ہیں اور اپنی مرضی کی قیمت پر باہر لاتے ہیں۔کئی پہلوؤں پر بات ہوسکتی ہے لیکن تنگی دامن اجازت نہیں دیتی۔ اس ماہ مقدس میں اپنی زکوٰۃ، صدقات اور عطیات میں آسمان کو چھوتی اس مہنگائی میں مدارس دینیہ کا نظام سب سے زیادہ متاثر ہے۔
ٍ ہمارا یہ وطن عزیز بھی ایک تحفے کی صورت میں ہمیں اسی رمضان الکریم میں ہمیں ملا تھا اور آج اگر ہم رمضان الکریم کا استقبال اس طرع کریں جس طرع رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تو یقین کیجئے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ادا ہو جائے گی اور ہمارے موجودہ مسائل بھی ختم ہو جائیں گے ‘ معاشرتی برائیاں بھی ختم ہو جائیں گی’ ملک میں امن و انصاف کا دور دورہ بھی ہو جائے گا ‘ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل بھی ختم ہو جائیں گے قصہ مختصر ہمارے تمام مسائل ختم نہ بھی ہوئے تو کم ترین سطح پر ضرور پہنچ جائیں گے اگر ہم رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ کی سنت مبارک پر عمل کرتے ہوئے اپنے 30 دن صرف اس مہمان کیلئے وقف کر دیں تو یقین کیجئے کہ یہ مہمان ہماری ایسی ٹرانسفارمیشن کر دے گا کہ ہم ایک مکمل خوددار اور باعزت قوم کے طور پہ ابھر کر سامنے آ جائیں گے اور پھر نہ صرف یہ کہ ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرے گا بلکہ پوری امت مسلمہ کے مسائل کے حل کا ایک بہترین ذریعہ بھی یہی قوم اور ملک بن جائیں گے تو آئیے آج ہم عہد کریں کہ اس رمضان المبارک سے ہم مکمل استفادہ کریں گے اور اس مہینے کی برکت سے ہم عملی طور پر مسلمان بن جائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں