میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ ،کراچی سرکولر ریلوے کوتین ماہ میں فعال کرنے کا حکم

سپریم کورٹ ،کراچی سرکولر ریلوے کوتین ماہ میں فعال کرنے کا حکم

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۲ فروری ۲۰۲۰

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی سرکولر ریلوے (کے سی آر)کوتین ماہ میں فعال کرنے اور کراچی سرکولر ریلوے کی زمین ایک ماہ میں خالی کروانے کا حکم دیا ہے ، جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ کراچی سرکولر ریلوے کو سندھ حکومت کو کیوں دے رہے ہیں، کراچی سرکولر ریلوے کا حال بھی کراچی ٹرانسپورٹ جیسا ہو جائے گا۔ ہم تو چاہ رہے تھے کہ سرکولر ریلوے کے بعد کراچی ٹرام بھی چلائیں۔ لوگ سرکولر ریلوے کی بحالی کاانتظار کررہے ہیں۔معاملہ سندھ حکومت پر چھوڑا تو کے سی آر نہیں چل سکے گی۔ جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا ہے کہ زمین خالی کروا کر چھوڑ دیں گے تو اس پر دوبارہ قبضہ ہو جائے گا۔ جبکہ عدالت نے کراچی سرکولر ریلوے کے معاملہ پر سندھ حکومت سے بھی جواب طلب کر لیا ہے ۔ عدالت نے ریلوے خسارہ کیس کی مزید سماعت دو ماہ کے لئے ملتوی کر دی۔بدھ کوچیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت وزیر برائے ریلویز شیخ رشید احمد ، وزیر برائے ترقی، منصوبہ بندی و اصلاحات اسد عمر سمیت دیگر حکام پیش ہوئے ۔ دوران سماعت وفاقی وزراء کی جانب سے ریلوے کا بزنس پلان عدالت میں جمع کروایا گیا۔ چیف جسٹس نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بزنس پلان میں آپ نے سب کچھ لکھ دیا لیکن بزنس پلان میں آپ نے یہ نہیں بتایا کہ کب اور کیسے عمل ہو گا۔ اس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ جو کام 70سال میں نہیں ہوا وہ 12دن میں ہو گیا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے شکر گزار ہیں یہ قوم کے لئے ہورہا ہے ، یہ کام میری اور آپ کی ذات کے لئے نہیں ہو رہا۔ چیف جسٹس کا شید رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شیخ صاحب!رپورٹ میں سرکولر ریلوے کی تکمیل کے وقت کے علاوہ سب کچھ ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا آپ نے بتایا نہیں کہ کب تک کراچی سرکولر ریلوے مکمل کریں گے ؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریلوے اپنی پانچ جائیدادیں بیچ دے تو سب مسائل حل ہوجائیں گے ۔ اس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ کراچی کی ایک پراپرٹی یہ سارا کام کرسکتی ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایم ایل ون کے بارے میں پتہ چلا ایلی ویٹڈ ٹرین بنارہے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایم ایل ون لمبی کہانی ہے ۔ شیخ رشید کا کہناتھا کہ 14سال بعد ایم ایل ون کا ٹینڈر ہورہا ہے ۔ جبکہ اسد عمر نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ 15اپریل تک ایکنک ایم ایل ون منصوبہ کی منظوری دے دے گی اور ایم ایل ون کا جو کا م ہے وہ شیخ رشید کے ہاتھوں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم ایل ون منصوبہ نو ارب ڈالر سے مکمل ہو گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسارکیا کہ بزنس پلان کے حوالہ سے تفصیلاً آگاہ کریں کہ اس پر عمل کب اور کیسے ہوگا۔ اس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کا کہنا تھا کہ پانچ سال میں ایم ایل ون منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی سرکولر ریلوے کے لئے گزشتہ رات عمارتیں گرائی ہیں اس سلسلہ میں سندھ حکومت بھی تعاون کررہی ہے ۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کراچی سرکولر کو سندھ حکومت کو کیوں دے رہے ہیں، کراچی سرکولر ریلوے کا حال بھی کراچی ٹرانسپورٹ جیسا ہو جائے گا۔ ہم تو چاہ رہے تھے کہ سرکولر ریلوے کے بعد کراچی ٹرام بھی چلائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کراچی سرکولر ریلوے سندھ حکومت کو نہ دیں اور یہ اپنے پاس رکھیں۔ سرکولر ریلوے کو بھی آپ چلائیں یہ وفاقی حکومت کا سبجیکٹ ہے ۔ چیف جسٹس نے استفارکیا کہ کیا آپ آئین میں ترمیم کرنے جارہے ہیں؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے خلاف کوئی کام نہ کریں۔ اس پر اسد عمر نے بتایا کہ اس منصوبہ کے لئے سندھ حکومت کا تعاون بھی ناگزیر ہے ۔ اس پر عدالت نے آئندہ تاریخ سماعت پر سندھ حکومت سے بھی جواب طلب کر لیا ہے ۔ عدالت نے حکم دیا کہ کراچی سرکولر ریلوے آپریشن تین ما ہ میں مکمل کیا جائے ۔ اس پر اسد عمر نے جواب دیا کہ تین ماہ میں یہ نہیں ہوسکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں سندھ حکومت کو شامل کرنا پڑے گا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کچھ نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ سندھ حکومت پر چھوڑا تو کے سی آر نہیں چل سکے گی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ زمین خالی کروا کر چھوڑ دیں گے تو اس پر دوبارہ قبضہ ہو جائے گا۔ چیف جسٹس نے اسد عمر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا بیک گرائونڈ ہے ، آ پ کو کام کرکے دکھانا ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ وقت کچھ ڈلیور کرنے کا ہے ۔ ریلوے وفاق کے ماتحت ہے آپ اسے خود ٹیک اوور کر کے چلائیں۔ سندھ حکومت پر چھوڑ کر غیر آئینی کام نہ کریں۔ شیخ رشید کا کہنا تھا تین ماہ میں سرکولر ریلوے مکمل نہیں ہوسکتا۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نہ ہونے والی بات کررہے ہیں۔ آپ نہ سوئیں ہم بھی نہیں سورہے ۔ اپنے بندوں سے دن رات کام کرائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کام مکمل نہ کیا تو منصوبہ ردی میں چلا جائے گا۔ لوگ سرکولر ریلوے کی بحالی کاانتظار کررہے ہیں، یہ منصوبہ آپ ہی چلائیں گے اور کوئی نہیں چلاسکتا۔ سندھ حکومت سے کوئی کام نہیں ہوگا۔ سرکولر ریلوے کو سی پیک میں کیوں شامل کیا گیا۔ اس پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ معاشی صورتحال کی وجہ سے منصوبہ سی پیک میں شامل کیا گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرکولر ریلوے کے لئے تو چین سے مہنگا قرض ملے گا۔ عدالت نے ریلوے خسارہ کیس کی مزید سماعت دو ماہ کے لئے ملتوی کر دی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں