ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے چین کے لیے بھی دوستی کے اشارے
شیئر کریں
صدر ژی جن پنگ کے دوست ٹیری برینسٹڈ کو چین کا سفیر اور مائیکل فِلن کو قومی سلامتی کا مشیر نامزد کردیا
صبا ایچ نقوی
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے اور روس کے ساتھ قریبی دوستی کے اشاروں کے برعکس اب چین کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی حکمت عملی پر عمل شروع کردیاہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز امریکی فوج کے سابق جنرل جان کیلی کو اپنی کابینہ میں داخلی سلامتی (ہوم لینڈ سکیورٹی) کا وزیرجبکہ مائیکل فِلن کو جو چین کے موجودہ صدر ڑی جن پنگ کے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے ہیںامریکا کی قومی سلامتی کا مشیر نامزد کیا ہے۔ اس نامزدگی کااعلان بدھ کو ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی مشیروں نے کیا جنہیں نومنتخب صدر نے انتقالِ اقتدار اور نئی حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے معاونین کے مطابق ریٹائرڈ میرین جنرل جان کیلی کا انتخاب جنوبی امریکا کے خطے سے ان کی واقفیت اور منشیات، دہشت گردی اور ان دیگر خطرات کو شکست دینے کے ان کے عزم کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو جنرل کیلی کے خیال میں وسطی اور جنوبی امریکا میں جنم لے رہے ہیں۔جنرل جان کیلی امریکی فوج کی سدرن کمانڈ کے سربراہ رہے ہیں جس کے دائرہ کار میں جنوبی امریکا اور بحیرہ بلقان کے گردونواح کے ممالک آتے ہیں۔جنرل جان امریکی فوج کے وہ واحد اعلیٰ ترین افسر ہیں جن کی اپنی اولاد نے عراق یا افغانستان کی جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ان کے بیٹے لیفٹننٹ رابرٹ کیلی 2010ءمیں افغانستان میں بارودی سرنگ کے ایک دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل بھی امریکی فوج کے دو سابق جنرلوں کو اپنی کابینہ میں مختلف عہدوں کے لیے نامزد کرچکے ہیں۔نئی کابینہ میں جگہ بنانے والوں میں لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) مائیکل فلن اور ریٹائرڈ میرین جنرل جیمز میٹس شامل ہیں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے بالترتیب قومی سلامتی کے مشیر اور وزیرِ دفاع نامزد کیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ وزیرِ خارجہ کے لیے جن ناموں پر غور کر رہے ہیں ان میں ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی فوج کے ایک اور سابق جنرل اور سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس کا نام بھی شامل ہے۔اطلاعات کے مطابق وزیرِ خارجہ کے لیے ٹرمپ کے زیرِ غور دیگر ناموں میں 2012میں ری پبلکن جماعت کے صدارتی امیدوار مٹ رومنی، نیویارک شہر کے سابق میئر روڈی گیولیانی، امریکی ریاست ٹینیسی کے سینیٹر باب کورکر، معروف آئل کمپنی ‘ایکسن موبل کارپوریشن کے سی ای او ریکس ٹلرسن اور اقوامِ متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر جان بولٹن شامل ہیں۔اس سے قبل منگل کو نومنتخب صدر نے ریاست آئیووا کے گورنر ٹیری برینسٹڈکو چین کے لیے امریکا کا سفیر نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔اطلاعات کے مطابق ٹیری برینسٹڈ کے چین کے صدر ڑی جن پنگ کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں جو 30 برسوں پر محیط ہیں۔
ادھرامریکا کی قومی سلامتی کے نامزد مشیر، مائیکل فِلن نے اپنی نامزدگی کے بعداپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے کہا ہے کہ دنیا بھر کے دشمن ”انتہائی برق رفتاری سے“ امریکا کے لیے چیلنج کا باعث بنے ہوئے ہیں؛ انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اگلے ہفتے جس عہدے پر وہ فائز ہوں گے، وہ آسان کام نہیں۔ا±نھوں نے یہ اعتراف منگل کو واشنگٹن میں ”مشعل حوالے کرنے“ کے موضوع پر ایک تقریب میں کلمات ادا کرتے ہوئے کہی۔ا±نھوں نے کہا کہ یہ لمحہ ہم سے بہتر کارکردگی کا تقاضا کرتا ہے۔ تقریب سے مراد یہ تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کو امریکی صدر بارک اوباما سے اختیارات کی منتقلی کس طرح ہو رہی ہے۔فلن فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل رہے ہیں، جو سوزن رائس کے جانشین ہوں گے، سوزن رائس نے اجلاس کو بتایا کہ فلن کے کاندھوں پر اہم ذمہ داری پڑنے والی ہے، ایسے وقت جب عالمی سلامتی اتنی غیر مستحکم ہے جیسا کہ تاریخ کے حالیہ وقت کی باقی صورت حال ہے۔رائس نے کہا کہ عبوری دور کی ذمہ داریاں منتقل ہو رہی ہیں۔ لیکن، ا±نھوں نے تفصیل نہیں بتائی، چونکہ زیادہ تر معلومات ”انتہائی خفیہ نوعیت کی ہے“۔ قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر، فلن قومی سلامتی کے امور پر منتخب صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیرِ خاص ہوں گے۔
اطلاعات کے مطابق امریکا میں اگرچہ اقتدار کی منتقلی میں چند ہی دن رہ گئے ہیں لیکن بارک اوباماکی کابینہ کے ارکان اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اورامریکا کی قومی سلامتی کی موجودہ مشیر سوزن رائس ستمبر میں چین میں ترقی یافتہ ممالک کے ’جی 20‘ سربراہ اجلاس سے قبل، آئندہ ہفتے بیجنگ اور شنگھائی جائیں گی۔ اس حوالے سے وائٹ ہاﺅس نے جمعے کے روز جاری کردہ ایک بیان میں بتایا ہے کہ بیجنگ میں، سوزن رائس اعلیٰ سرکاری اہل کاروں سے ملاقات کرنے والی ہیں، جن میں مملکتی کونسلر جانگ جیچی شامل ہیں، اور اس موقع پر باہمی، علاقائی اور عالمی معاملات پر بات چیت ہوگی، جب کہ ستمبر میں چین میں 20 کے گروپ کے سربراہ اجلاس میں صدر بارک اوباما شرکت کرنے والے ہیں، جس میں ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کے سربراہ شریک ہوں گے۔ شنگھائی میں، رائس اعلیٰ کاروباری منتظمین سے ملاقات کریں گی جس دوران چین میں کام کرنے والے امریکی کاروباری اداروں کے بارے میں شرائط پر گفتگو کریں گی اور انفرادی طور پر چینی شہریوں سے ملیں گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سوزن رائس چین کے ساتھ عملی تعاون کے فروغ اور چین کے ساتھ اختلافات سے تعمیری انداز میں نبردآزما ہونے کے ضمن میں امریکی عزم کی نشاندہی کریں گی۔۔بحیرہ جنوبی چین کے تنازع سے متعلق ثالثی کی بین الاقوامی عدالت کے 12 جولائی کے فیصلے کے بعد وائٹ ہاﺅس کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا چین کا یہ پہلا دورہ ہے۔بین الاقوامی عدالت نے فلپائن کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواست پر اپنے تاریخی فیصلے میں بحیرہ جنوبی چین کے متنازع علاقے پر چین کی ملکیت کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔چین اس فیصلے پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر چکا ہے تاہم پیر کو رائس کی بیجنگ میں چین کے اعلیٰ ترین سفارت کار اور اسٹیٹ کونسلر یانگ جئیچی سے ملاقات کے موقع پر میڈیا کے سامنے کہے گئے کلمات میں اس معاملے کا ذکر نہیں کیا گیا۔سوزن رائس نے کہا کہ عالمی معاملات پر امریکا اور چین کا نہایت قریبی تعاون ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ پر اعتماد ہیں کہ دیگر چیلنجوں سے متعلق بھی وہ "خلوص اور کھلے انداز” سے کام کر سکتے ہیں۔یانگ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مستحکم ہیں تاہم اختلافات بھی موجود ہیں جن سے نہایت احتیاط سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔