میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایس بی سی اے: پٹہ سسٹم جڑ سے اکھاڑا نہ جاسکا، سہولت کاروں کے ذریعے خفیہ دھندے جاری

ایس بی سی اے: پٹہ سسٹم جڑ سے اکھاڑا نہ جاسکا، سہولت کاروں کے ذریعے خفیہ دھندے جاری

جرات ڈیسک
پیر, ۱۱ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

نجم انوار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭دہشت گردی کی لعنت جس طرح سہولت کاروں کو ڈھونڈتی ہے ٹھیک اسی طرح ایس بی سی اے میں پٹہ سسٹم بھی اپنے اندرونی ”سہولت کاروں“ کی مدد سے حرکت میں ہے
٭پٹہ سسٹم کے سہولت کاروں میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آئی ٹی سیکشن کی نان ٹیکنیکل ڈائریکٹر اسماء غیور، ڈائریکٹرآصف رضوی اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیمالیشن ریحان خان و دیگر شامل ہیں
٭سابق صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ نے سرغنہ سسٹم شہزاد اآرائیں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا ہے، سسٹم کے گلے کی ہڈی نکالنے کے لیے شہزاد آرائیں نے گھٹنے ٹیک دیے
٭ شہزاد آرائیں جن کاموں کا بھاری ”بیعانہ“ ہاتھ کر چکا ہے وہ پورے کرانے کے لیے ”بلیک میلرز“ سے مدد حاصل کر چکا ہے جنہیں باقی رقوم کی ادائیگی کا وعدہ کر کے کام حوالے کیے جاچکے ہیں
٭مخصوص کام راز داری سے جا ری ہیں، درجنوں فائلیں ریکارڈ سے غائب ہیں جن میں سے بیشتر شہزاد آرائیں کے گھر اور نجی دفتر میں رکھی ہیں اور کچھ فائلیں سسٹم کے کارندوں نے دفتر میں چھپا رکھی ہیں
٭ڈی جی اسحاق کھوڑو اسماء غیور سے گزشتہ ایک سال میں منظور ہونے والے پروجیکٹس کی فہرست لے کر ڈسٹرکٹ سے فائلیں مانگ لیں تو غائب فائلوں کا راز بآسانی کھل جائے گا
٭ سسٹم کے”سہولت کار“ آصف رضوی ایک طرف تو سسٹم کے پھنسے ہوئے کام نکلوا رہے ہیں تو دوسری طرف سسٹم کے کاموں کو انہدامی کارروائی سے بھی بچا رہے ہیں،یہ کھیل نہایت مکاری سے برت رہے ہیں
٭ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کرپٹ سسٹم میں 43 سے زائد افسران شمار کیے جاتے ہیں جن میں ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، سینئر بلڈنگ انسپکٹر اور بلڈنگ انسپکٹر شامل ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہر بن گیا عمارتوں کا جنگل

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی آسان اور نقد بالائی کمائی کو کوئی بھی کسی بھی سطح پر چھوڑنے کو تیار نہیں، ایک ایسے وقت میں جب نگراں حکومت آنے کے بعد اس بات کا شور وغوغا ہے کہ وزیر بلدیات کے ماتحت اس ادارے سے پٹہ سسٹم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا، درحقیقت یہ کرپٹ اور غلیظ نظام خفیہ سہولت کاروں کی مدد سے انتہائی خاموشی سے چلایا جارہا ہے۔ دہشت گردی کی لعنت جس طرح سہولت کاروں کو ڈھونڈتی ہے ٹھیک اسی طرح ایس بی سی اے میں پٹہ سسٹم بھی اپنے اندرونی ”سہولت کاروں“ کی مدد سے حرکت میں ہے۔
دلدل دلدل کرپشن میں دھنسے پٹہ سسٹم کے سہولت کاروں میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آئی ٹی سیکشن کی نان ٹیکنیکل ڈائریکٹر اسماء غیور، ڈائریکٹرآصف رضوی اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیمالیشن ریحان خان و دیگر شامل ہیں جن کے خلاف خفیہ طور پر تحقیقات بھی جاری ہیں۔ جرأت کو حاصل معلومات سے یہ عیاں اور عریاں ہو جاتا ہے کہ یہ اور ”دیگر“ مل کر نئے ڈی جی اسحق کھوڑو کو ”ماموں“ بنا رہے ہیں۔ دوسری جانب سابق صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے سسٹم کے سرغنہ شہزاد اآرائیں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا ہے تو سسٹم اس کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔

سرغنہ پٹہ سسٹم ، نشان عبرت

ریحان عرف الائچی

اس ہڈی کو نکالنے کے لیے شہزاد آرائیں نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔یوں پٹہ سسٹم کی ناجائز کمائی سے جعلی بھرم پیدا کرنے والے اور ناجائز دولت سے تکبر میں گندھے شہزاد آرائیں اب رفتہ رفتہ بے بسی کی تصویر بننے جارہے ہیں جو اس سفاک نظام میں ہرکاروں، کارندوں ا ور طفیلیوں کے ساتھ ہوتا ہے، وہی کچھ شہزاد آرائیں کے ساتھ ہونے لگا ہے۔ تفصیلات خاصی دلچسپ ہے، مگر اسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ ابھی انجام کا آغاز ہے اور آغاز کا انجام کچھ وقت کا منتظر ہے۔تاہم جرأت انوسٹی گیشن سیل کے قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شہزاد آرائیں کے دو بڑے خفیہ سرپرست جنہوں نے اسے دوبار بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے گرفتاری پر فوراً چھڑا دیا تھا وہ اب کراچی سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ جس پر شہزاد نے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے بمصداق چند دوسرے بلیک میلرز سے مدد مانگی ہے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے وہ کام جن کا بھاری ”بیعانہ“ شہزاد آرائیں ہاتھ کر چکا ہے وہ پورے کرانے کے لیے ”بلیک میلرز“ (جنہیں آئندہ دنوں میں بے نقاب کیا جائے گا) کو باقی رقوم کی ادائیگی کا وعدہ کر کے حوالے کیے جاچکے ہیں۔
جرأت کے ذرائع کے مطابق بلیک میلرز نے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مذکورہ افسران کو دھونس دھمکی کے ساتھ ساتھ ”مال“ کا آسرا دے کرسسٹم کے پھنسے ہوئے کام نکالنے پر آمادہ کر لیا ہے، مگر یہ کام ایسی راز داری سے کیے جا رہے ہیں کہ درجنوں فائلیں ریکارڈ سے ہی غائب کر دی گئی ہیں جن میں سے بیشتر فائلیں شہزاد آرائیں کے گھر اور نجی دفتر میں رکھی ہیں اور کچھ فائلیں سسٹم کے کارندوں نے دفتر میں چھپا کر رکھی ہوئی ہیں۔ ایسی تمام فائلوں کا اندراج کمپیوٹر میں موجود توہے لیکن کمپیوٹر اسماء غیور کے کنٹرول میں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ڈی جی اسحاق کھوڑو اسماء غیور سے گزشتہ ایک سال میں منظور ہونے والے پروجیکٹس کی فہرست لے کر ڈسٹرکٹ سے فائلیں مانگ لیں تو یہ راز بآسانی کھل جائے گا کہ کتنی فائلیں غائب ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس حوالے سے جو خفیہ تحقیقات جاری ہیں اس میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کے خلاف دستاویزی شواہد حاصل کرنے کے بعد افسران کے نام منظر عام پر لائے جائیں گے اور سسٹم سے فیضیاب ہونے والے بلڈرز کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
جرأت ذرائع نے خاص طور پر آصف رضوی کے معاملات کی چھان بین شروع کی ہے جسے اگلی اشاعتوں میں خصوصی طور پر موضوع بنایا جائے گا۔ تاہم زیر بحث معاملات میں سسٹم کے”سہولت کار“ آصف رضوی ایک طرف تو سسٹم کے پھنسے ہوئے کام نکلوا رہے ہیں تو دوسری طرف سسٹم کے کاموں کو انہدامی کارروائی سے بھی بچا رہے ہیں۔یہ کھیل وہ نہایت مکاری سے برت رہے ہیں۔ مگر اس کھیل کی تمام تفصیلات نام بہ نام اور مقام بہ مقام شائع کردی جائیں گی۔ اسی طرح شہزاد آرائیں کے دیرینہ ساتھی جو کل تک حیدر آباد کا سسٹم چلا رہے تھے، اب وہ سسٹم کی غیر قانونی تعمیرات کو بھرپور تحفظ دے رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ریحان عرف الائچی پرانے پاپی ہیں۔ ان کے خلاف علیحدہ سے خفیہ تحقیقات جاری ہیں جس کے جلد نتائج سامنے آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کرپٹ سسٹم میں 43 سے زائد افسران شامل ہیں جن میں ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر، سینئر بلڈنگ انسپکٹر اور بلڈنگ انسپکٹر شامل تھے جن میں شامل ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سید اویس مفرور ہے اور سسٹم کے نام پر بھتہ خوری کے الزام میں گرفتار ہونے والوں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمیر کریم، ایس بی آئی سید امین اور ایس ایم ظفر شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کرپٹ سسٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ایسٹ کے علاقے پی ای سی ایچ سوسائٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر سہیل سیال اور بلڈنگ انسپکٹر عبدالسلام بہادرآباد میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر وقار ہاشمی ایس بی آئی شہریار بلڈنگ انسپکٹر ماجد منگی، راؤ نثار محمودآباد کے علاقے میں سمیع شیخ، سہیل سیال، بلڈنگ انسپکٹر جاوید کیہر اور عبدالسلام جمشید روڈ اور گارڈن کے علاقے میں ڈپٹی ڈائریکٹر حسب اللہ شیخ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیاز مندی، عبدالحق اور ایس بی آئی نبی بخش زرداری اور رضا حسین خشک ڈسٹرکٹ سینٹرل میں ڈپٹی ڈائریکٹر شہزاد کھوکھر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر مرتضی تونیو، قمر قائم خانی، عمران رضوی، زبیر مرتضی، انیس الرحمن ایس بی آئی غلام حسین اور بلڈنگ انسپکٹر اورنگزیب سسٹم کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں ڈپٹی ڈائریکٹر سید اویس(مفرور) اسسٹنٹ ڈائریکٹر راشد نارینو(معطل) شکیل جلالی، فاروق زرداری، آفتاب زرداری، عمیر کریم(گرفتار) ایس بی آئی سید امین اور ایس ایم ظفر (دونوں گرفتار) بلڈنگ انسپکٹر اللہ ڈینو مگسی، سید نعمان، سلطان سومرو، احتشام اور بدنام زمانہ عمیر دائیو شامل ہیں۔ ان میں سے مفرور، گرفتار اور معطل کے علاوہ باقی سب تاحال کام کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ افراد میں سے مزید متعدد سرکاری اہلکاروں کو معطل کیا جانا ہے لیکن الیکشن کمیشن کے ایک حکم کی آڑ لے کر سسٹم کے وفادار مگر عیار افسران نے معطلی کا حکم رکوا کر فہرست منظوری کے لیے الیکشن کمیشن کو بھجوا دی ہے۔ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اسلام آباد کے جاری کردہ حکم کے مطابق صرف 20 گریڈ کے افسران کے تبادلے و تعیناتی کے لیے الیکشن کمیشن سے اجازت لینا ضروری ہے۔ باقی تمام نچلے گریڈ کے افسران و ملازمین کو ڈائریکٹر جنرل نہ صرف معطل بلکہ ملازمت تک سے نکال پھینک سکتے ہیں۔ نئے ڈی جی ایس بی سے اسحق کھوڑو عرصہئ امتحان میں ہے، وہ جس سسٹم کے حوالے سے ماضی میں اپنی نیک نامی گنوا چکے ہیں اُسی سسٹم کو نشانے پر لے کر اپنی نیک نامی بحال بھی کراسکتے ہیں۔ دیکھنا ہے زور کتنا ”حالیہ دعوؤں“ میں ہے!!!!

آصف رضوی، منافق جس میں بستے ہوں وہ گھر باقی نہیں رہتا


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں