میگاسٹی کے قبرستان صفائی ستھرائی سے محروم‘حکام کی بے حسی سے عوام پریشان
شیئر کریں
ڈھائی کروڑ کی آبادی میں صرف 193 قبرستان ہیں جن میں سے صرف 52 قبرستان بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام ہیں، اکثر قبرستانوں میں تدفین کی گنجائش باقی نہیں رہی
ان میں صفائی ستھرائی اور روشنی کے انتظامات کی ذمہ داری ضلعی بلدیات کو تفویض کی گئی ہیں تاہم شب برات کے موقع پر بھی کئی قبرستان جنگل کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں
عمران علی شاہ
ماہ شعبان عبادت اور رحمتوں کے نزول کا مہینہ قرار دیا جاتا ہے، اس ماہ خصوصاً 15 ویں شب کو شب برا¿ت کہتے ہیں، اس روز خصوصاً بعد نماز مغرب مساجدو خانقاہوں کے علاوہ نجی محفلوں میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شب برا¿ت کے موقع پر قبرستان جانے کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور ذکر واذکار، تلاوت کلام پاک اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔
کراچی شہر آبادی کے لحاظ سے ایک اندازے کے مطابق ڈھائی کروڑ کی آبادی والا شہر ہے ،بین الاقوامی سطح کے اس شہر میں جہاں آبادی کے رہنے کے لئے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور بغیر منصوبہ بندی کے تمام ترقیاتی کام انجام دیئے جاتے ہیں وہیں اتنی بڑی آبادی میںفوت ہوجانے والے افراد کے لئے بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی میں صرف 193 قبرستان ہیں جن میں سے صرف 52 قبرستان سرکای سطح پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس رجسٹرڈ اور ماتحت ہیں، دیگر قبرستان نجی انجمنوں اور برادریوں کے زیر انتظام ہیں۔ ان 52 قبرستانوں میں سب سے بڑا قبرہ ستان میوہ شاہ قبرستان کہلاتا ہے، دوسرے نمبر پر نیو کراچی کا محمد شاہ قبرستان پھر نیو کراچی قبرستان قابل ذکر ہیں۔ کے ایم سی کے ماتحت اکثر قبرستانوں میں تدفین کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے اور کے ایم سی کا محکمہ قبرستان متعدد مرتبہ قبرستانوں میں تدفین پر پابندی لگاچکا ہے۔ اس کے باوجود بھی گورکنوں کی بدمعاشی کے باعث تدفین کا عمل بھاری معاوضے کے تحت جاری ہے، ان قبرستانوں میں صفائی ستھرائی اور روشنی کے انتظامات کی ذمہ داری ضلعی بلدیات کو تفویض کی گئی ہیں تاہم عام دن تو دور کی بات ہے، شب برا¿ت کے موقع پر بھی کئی قبرستان جنگل کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں، قبرستانوں میں سڑک اور چار دیواری کی تعمیر ومرمت کی ذمہ دار بلدیہ عظمیٰ کراچی ہے مگر اس حوالے سے گزشتہ 15 سال سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جارہا۔ بعض قبرستان جن میں نیو کراچی کا محمد شاہ قبرستان اور پاپوش نگر قبرستان سرفہرست ہے ،ان میں سیوریج کا گندہ بدبودار پانی گزشتہ کئی ماہ سے بہہ رہا ہے مگر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی، اس صورتحال کے باعث قبرستان کے مختلف مقامات پر قبریں گٹر کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دینے کے لئے بھی نہیں جاسکتے،بیشتر قبرستانوں میں جرائم پیشہ عناصر خصوصاً منشیات فروشوں کے اڈے بھی قائم ہیں عام دنوں میں شریف آدمی کا جانا بڑا ہی مشکل ہوتا ہے تاہم شب برا¿ت میں یہ جرائم پیشہ افراد قبرستانوں سے فرار ہوجاتے ہیں جنگلی جھاڑیوں کے باعث قبرستانوں کی گزر گاہیں بند ہوچکی ہیں چند روز قبل بعض قبرستانوں میں ضلعی بلدیات نے جنگلی جھاڑیاں کٹوائی ہیں اور صفائی کے انتظامات بھی کئے ہیں جس کے باعث بڑے قبرستانوں میں کچھ بہتری نظر آرہی ہے کراچی کے دیگر مقامات کی طرح قبرستانوں میں بھی لینڈ مافیا سرگرم نظر آتی ہے اور یہاں پر بھی چائنہ کٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ بااثر قبضہ مافیا نے تاریخی میوہ شاہ قبرستان سمیت کئی قبرستانوں میں قبریں مسمار کرکے یا خالی جگہوں پر پلاٹوں کی کٹنگ کرکے فروخت کئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے کئی قبرستانوں میں دکانیں اور بازار بھی تعمیر کرکے فروخت کردیئے گئے ہیں ذرائع ابلاغ اور م حکمہ قبرستان کی جانب سے بار بار نشاندہی کے بعد سابق کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کی کوششوں سے سرجانی ٹاﺅن سیکٹر 17/A میں ماڈل قبرستان کے لئے قطعہ اراضی مختص کیا گیا اور خط کتابت میں اس جگہ کی نشاندہی کی گئی تاہم یہ جگہ اب تک باقاعدہ طورپر محکمہ قبرستان کے حوالے سندھ حکومت نے نہیں کی نہ کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اور اس ماڈل قبرستان کے لئے مختص جگہ کی 30 فیصد اراضی پر لینڈ مافیا نے قبضہ جمالیا ہے شہر میں منصوبہ بندی کے بغیر ہی صوبائی حکومت بلڈرز کو قطعہ اراضی الاٹ کرتی رہی ہے کبھی قبرستان کے لئے شہری علاقوں یا قرب وجوار میں کوئی قطعہ اراضی مختص نہیں کی گئی قبرستانوں کی کمی کے باعث تدفین کے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں قبرستان دور ہونے کے باعث میت بس سروس کے چارجز بڑھ جاتے ہیں تدفین کے بعد اگر اپنے پیاروں کی قبر پر حاضری دینے کا دل چاہے تو دور افتاد کے باعث یا تو ہمت نہیں ہوتی یا پھر وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں بھی ہوں تو غریب سفری اخراجات سے دل برداشتہ ہوکر اپنے نصیب کو کوسنے لگتا ہے۔۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کو قبرستانوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی قبرستانوں میں چار دیواری سڑکوں کی تعمیر راہداریوں میں سی سی فلورنگ وغیرہ کا اہتمام کرنا ہوگا تاکہ شہریوں کو اور قبرستانوں میں مدفون لوگوں کو چار دیواری نہ ہونے کے باعث شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لوگ جس عقیدت اور احترام سے اپنے پیاروں کی تدفین کرتے ہیں دوسرے روز دیکھتے ہیں کی آوارہ کتے ان کے پیاروں کی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے ہوتے ہیں تدفین شدہ لاشوں کی بے حرمتی پر حکمرانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں گو کہ قبروں میں بلاکوں کی چنائی کی جاتی ہے مگر وہ اتنی تازہ ہوتی ہے کہ آوارہ کتے اپنی جگہ بنالیتے ہیں چار دیواری ہونے سے قبرستان کی اراضی کو بھی تحفظ حاصل ہوگا اور آوارہ کتے بھی ادھر کا رخ کرنے سے گریز کریں گے جبکہ مخصوص ایک یا دو دروازوں کے داخلے سے جرائم پیشہ افراد کا راستہ بھی رک جائے گا اسی طرح ضلعی بلدیات کو بھی اپنی حدود میں موجود قبرستانوں کی کم از کم ماہانہ صفائی اور اسٹریٹ لائٹس کا انتظام اور اس کی مکمل دیکھ بھال کا اہتمام کرنا ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
کراچی کے 193 قبرستانوں میں یومیہ 350 تا 400 افراد کی تدفین عام طورپر اوسطاً ہوتی ہے تدفین کی فیس میں سے کے ایم سی صرف 300 روپے فی تدفین وصول کرتی ہے جس کا چالان جاری ہوتا ہے اور بینک میں جمع کرایا جاتا ہے اوسطاً 400 افراد یومیہ میں ڈھائی تا تین سو یومیہ چالان کے ذریعے رجسٹرڈ تدفین ہوتی ہیں تاہم غیر رجسٹرڈ تدفین بھی تاحال جاری ہیں جن کی تعداد 50 تا 100 افراد یومیہ ہے غیر رجسٹرڈ تدفین کے باعث لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے تاہم یہ سلسلہ جاری ہے نادرا نے بھی کے ایم سی کے چالان کے بغیر اموات سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر پابندی لگادی ہے۔
کراچی کے قبرستان میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے تدفین کی کل فیس 5 ہزار 850 روپے مقرر کی گئی ہے جو قبرستان کے گورکن کو ادا کرنا ہوتے ہیں مگر گورکنوں کی بدمعاشی اور بدترین کرپشن کے باعث گورکن کم سے کم 15 ہزار روپے طلب کرتے ہیں غرییب افراد کے لئے 15 ہزار کیا 5 ہزار روپے ادا کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
کراچی کا مہنگا ترین قبرستان سوسائٹی قبرستان ہے یہ انوکھا قبرستان ہے جہاں تدفین کی گنجائش 20 سال پہلے ختم ہوگئی تھی مگر بااثر گورکن یہاں شریعت کے برخلاف 3 منزلہ فلیٹ نما قبریں تیار کررہے ہیں۔ طارق روڈ پر واقع اس قبرستان میں فی تدفین کم سے کم 25 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں جو تیسری منزل پر مدفون ہوتے ہیں اس کے نیچے دوسری منزل پر 50 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں اور زمین میں گراﺅنڈ فلور کے ایک لاکھ یا اس سے بھی زائد وصول کیے جاتے ہیں یہاں کے گورکنوں کی متعدد شکایات کی گئی ہیں مگر ان بااثر گورکنوں کو ہٹانا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ یہاں مدفون بااثر لوگوں خصوصاً میڈیا ہاﺅسز کے مالکان کے قریبی رشتہ دار ہیں اور جب بھی ان گورکنوں کو ہٹانے کی بات ہوتی ہے، میڈیا ہاﺅسز سے مزاحمت شروع ہوجاتی ہے۔