علما دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویرپیش کرنے پر توجہ دیں
شیئر کریں
امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم آل طالب نے گزشتہ روز نوشہرہ میںجے یو آئی ف کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر دوٹوک الفاظ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ دین اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے اور اس کا کسی دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن کچھ عناصر اسلام کی غلط تشریح کر کے دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تمام علمادہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں لیکن کچھ لوگ اسلام کی غلط تشریح پیش کر کے دنیا میں دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی تعلیمات پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہوجاتاہے کہ اسلامی تعلیمات کا سب سے بڑا مقصد امت مسلمہ کو امت واحد بنانا ہے، دین اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے اور اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اسلام دہشت گردی سے دور رہنے کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں دہشت گردی کی بیخ کنی کی تلقین کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کسی بھی ملک اورمعاشرے کی معیشت کو تباہ کر دیتی ہے ۔
جہاں تک اسلام کی ترویج واشاعت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے امام کعبہ کا یہ کہنابالکل درست ہے کہ دنیا بھرمیں پھیلے مدارس لوگوں تک دین پہنچا رہے ہیں ،یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی مدارس دین کی روشنی کو پوری دنیا میں پھیلانے میں اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، اسلامی مدارس نہ ہوں تو علما کی تیاری کاسلسلہ رک جائے گا اور پھر دنیا میں اسلام کی تشریح کرنے والے لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملیں گے ،اگر مدارس نہ ہوتے تو آج اسلام کا شمار دنیا کے مقبول ترین مذاہب میں نہ ہوتا اور دیگر مذاہب کو یہ خطرہ لاحق نہ ہوتاکہ چند سال کے اندر اسلام دنیا کاسب سے بڑا مذہب بن جائے گا یعنی مسلمانوں کی تعداد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں سے تجاوز کرجائے گی،مدرسوں کایہی وہ کردار ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ جس سے لرزہ براندام ہیں اور وہ مدارس ہی کوختم کرنے کے لیے انھیں دہشت گرد ڈھالنے کی فیکٹری قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔جبکہ جیسا کہ امام کعبہ نے کہاہے کہ اسلام امن وآشتی کامذہب ہے جو ہر طرح کی دہشت گردی اورانتہا پسندی کامخالف ہے اور امت مسلمہ دراصل امت رحمت ہے،اس حوالے سے ہمارے علمائے کرام کو بھی اپنا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے قول وعمل میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے ایسے کسی بھی عمل سے گریز کرنا چاہئے جس سے دوسرے مذاہب والوں کو مدرسوں اوراسلام کی تعلیمات پر انگشت نمائی کا موقع مل سکے۔
امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم نے نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے بجاطورپر یہ واضح کردیا ہے کہ امت مسلمہ اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کرنا جانتی ہے، آج پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہیں ۔ علما کرام کو اس کااحساس کرنا چاہئے اور کسی بھی ایسے عمل سے مکمل گریز کرناچاہئے بلکہ ایسے عمل کی روک تھام کی کوشش کرنی چاہئے جس سے امت مسلمہ میں انتشار پیدا ہونے کاخدشہ ہو،علما اور مذہبی رہنماﺅں کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ محض سیاست چمکانے کے لیے دین کو غلط طورپر استعمال کرنے اور دین کی غلط تشریح کرنے کی صورت میں ہوسکتاہے کہ انھیں کچھ دنیاوی فوائد حاصل ہوجائیں اور وہ اپنی مخالف پارٹیوں یا رہنماﺅں کو نیچا دکھانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن دین کی غلط تشریح کے ذریعہ دین میں فرقہ واریت پیدا کرنے کاسبب بننے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔اس لیے انھیں امت میں کبھی انتشار نہیں پیداکرناچاہیے، قرآن کہتاہے کبھی فرقہ واریت میں نہ پڑو، دین میں فرقہ واریت پیدا کرنے والے کبھی فلاح نہیں پائیں گے،اسلام امن و محبت کا دین ہے، قرآنی تعلیمات اور رسول اللہ کی اسوہ حسنہ میں ہی فلاح ہے۔امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم نے بالکل صحیح تلقین کی ہے کہ قرآنی تعلیم یہی ہے، اللہ کی رسی کومضبوطی سے پکڑو اور تفرقے میں نہ پڑو، تمام مسلمان فرد واحد ہیں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہترین قوم بنایا، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فروعی اختلافات میں نہ پڑیں۔
جہاںتک پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کامعاملہ ہے تو جیسا کہ اس سے قبل بھی ہم نے ان ہی کالموں میں لکھاتھا کہ پاکستان اور سعودی عرب بھائیوں کی طرح ہیں، پاکستانی قوم کی ارض حرمین الشریفین سے محبت لازوال ہے، پاکستانی اور سعودی قوم اسلام اور حرمین کی حفاظت کرنے کے لیے ایک ہیں۔ سعودی عوام بھی یقینا پاکستان کے لیے ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں اور پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت نے ہر مرحلے پر پاکستان کی مدد کی ہے اورکسی مرحلے پر پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔جہاں تک پاک سعودی اتحاد کا تعلق ہے تو اس حوالے سے سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور نے وضاحت کی ہے کہ یہ اتحاد دشمنوں کے خاتمے کے لیے ہے اوراس کابنیادی مقصد اسلام کی فتح اور فکراسلام ہے، اس لیے جو بھی دشمن سامنے آئے گا سعودی اتحاد اس کا مقابلہ کرے گا۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں آج مملکت سعودی عرب دشمنوں کے نشانے پر ہے لیکن حرمین الشریفین کی حفاظت تمام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور پوری دنیا کے مسلمان حرمین شریفین کے دفاع کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کر نے سے کبھی دریغ نہیں کریں گے۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے اور انسانیت کی رہنمائی کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اسلام نے امن کو تقویت دینے اور امن قائم رکھنے کے لیے امن کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کو تباہ وبرباد کرنے کی بھی تلقین کی ہے اور اسلام نے مقامات مقدسہ کے تحفظ کے لیے کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا درس دیاہے ۔دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنے کی منظم سازشوں کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں اسلام ہی مقبول ترین دین ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اسلام دہشتگردی کا نہیں امن کا نمائندہ ہے اوراسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کو بھی نہ صرف یہ کہ سب سے زیادہ تسلیم کیاگیا ہے بلکہ اس کانبی رحمت نے اپنے قول وعمل کے ذریعے اس کامظاہرہ بھی کیاہے اور یہی امن کی بنیاد بھی ہے۔
عالم اسلام کی بدقسمتی ہے کہ آج پوری دنیا میں امن کاپرچار کرنے والے مسلمانوں پر پوری دنیا میں زمین تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، آج دنیا بھرمیں انسانیت کا خون بہایا جارہا ہے، کشمیری ایک زمانے سے کرب سے گزر رہے ہیں، عراق و شام میں خون آلود سیاست کھیلی جا رہی ہے، امریکا اور روس شام کو فتح کی آماجگاہ بنانا چاہتے ہیں، امریکا نے افغانستان پر حملہ کر کے فوجی طاقت کے ذریعے وہاں موجود ایک جائزحکومت کا خاتمہ کیا ،لیکن افغانستان میں امن قائم کرنے کابنیادی مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے آج بھی افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔ عالمی طاقتوں کو اب یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ قوموں کے حقوق تسلیم کیے جائیں، احساس محرومی ختم کیا جائے ،صرف اسی طرح امن کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
عالمی طاقتوں کو اب یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ آج کوئی بھی کسی کی غلامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، اس لیے انھیں فرسودہ نوآبادیاتی سوچ کوخیر باد کہہ کر برابری کی بنیاد پر دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر توجہ دینی چاہئے ۔ جب تک عالمی طاقتیں اپنی سوچ تبدیل نہیں کریں گی محض بمباری اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردی کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔