رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے ........آرائش کردار کر
شیئر کریں
محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
مفتی غلام مصطفی رفیق
اگرہم تاریخ کے وسیع دائرے پر نظر ڈالیں ، اوراق ماضی پلٹ کردیکھیںتواس دنیامیں ہمیں طرح طرح کے مصلحین دکھائی دیتے ہیں،شیریں مقال واعظ اورآتش بیاںخطیب سامنے آتے ہیں ، بہت سے فلسفی ہردورمیں ملتے ہیں،وہ بادشاہ اور حکمران جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں اور وہ جنگجو جنہوں نے ان گنت ممالک فتح کئے ان کی داستانیں ہم پڑھتے ہیں۔انقلابی طاقتیں ہماری نگاہوں میں آتی ہیں جنہوں نے نقش حیات کو بار بار زیروزبرکیااورکتنے ہی مقنن تھے جوایوان تہذیب میںکارنامے دکھا چکے ۔ لیکن جب ہم ان سب کی فتوحات ، تعلیمات ، کارناموں اوران کے پیداکردہ مجموعی نتائج کودیکھتے ہیںتواگرکہیں خیرو فلاح اور لوگوں کی بھلائی دکھائی دیتی ہے تووہ جزوی قسم کی ہے،پھرخیروفلاح کے ساتھ طرح طرح کے مفاسد پائے جاتے ہیں۔لہذاان کااس کائنات اوراس کے باسیوں پرکوئی احسان نہیں ہے۔
انبیاءکے سوا اس کائنات میں کوئی عنصر ایسا دکھائی نہیں دیتاجوپورے کے پورے انسان اور اجتماعی انسانیت کواندرسے بدل سکاہو۔ سرکار دو عالم ، فخرامت، محسن کائنات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ اوراحسان یہ ہے کہ آپ نے اپنی دعوت ،اخلاق،محنت سے پورے کے پورے اجتماعی انسان کواندرسے بدل دیا۔اورآپ کاظہوربھی ایسے حالات میں ہواجب پوری انسانیت عرب وعجم تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی،چھٹی صدی عیسوی بلاشبہ جہالت کے غلبے کی صدی تھی۔جب دنیامیں دوروحشت چل رہاتھا،شرک وبت پرستی نے مذہب کاستیاناس کردیاتھا،مذہب یہودیت میں چندبے جارسموں کے سواکچھ باقی نہ تھا ، عیسائیت شرک میں رچ بس چکی تھی ، مصر ، ہند ، بابل ، یونان میں تہذیبیں اپنی شمع گل کرچکی تھیں،رومی اور ایرانی تمدنوں کی ظاہری چمک دھمک تھی مگران کے شیش محل بدترین عقوبت خانوں کامنظرپیش کررہے تھے۔ عرب کے ماحول کے تصورسے ہی انسانی دل دہل جاتاہے وہاں اگرماضی میں کسی تہذیب کی روشنی نموداربھی ہوئی تھی تواسے گل ہوئے مدتیں گزرچکی تھیں،انبیاءکی تعلیمات تحریف وتاویل کے غبارمیں گم ہوچکی تھیں،دوروحشت کی رات چھائی ہوئی تھی،انسانوں کے درمیان تصادم تھا،جنگ وجدل اورلوٹ مار کا دوردورہ تھا،جاہلی ثقافت اوراخلاقی پستی زوروں پر تھی،کعبہ کے مجاوروں نے اللہ کے اس مقدس گھر کو تین سوساٹھ بتوں سے آبادکیاہواتھا۔الحاصل دنیا کے اکثرحصوں میں طوائف الملوکی کادورتھابغاوتیں ہوتیں،کشت وخون ہوتے اوران ہنگاموں کے درمیان انسان بری طرح پامال ہورہا تھا۔ان مایوسی کے چھائے ہوئے بادلوںاورناامیدی کی گھٹاو¿ں کے درمیان بالآخرعام الفیل ماہ ربیع الاول میں اپریل۰۷۵ءبروزپیرکواس عظیم ہستی کودنیامیں بھیجا گیاجوکائنات کے لئے ابررحمت اورانسانیت کے لئے محسن اعظم بنے۔آپ کی ۳۲سالہ انتھک محنت سے لوگ سارے مصنوعی رنگوں سے آزادہوکرایک ہی رنگ میں رنگے گئے،مسجدسے بازارتک،مدرسہ سے عدالت تک اورگھرسے میدان جنگ تک ایک ہی رنگ چھاجاتاہے۔اس محنت کے نتیجے میں لوگوںکے ذہن بدل گئے،خیالات کی روبدل گئی،نگاہ کازاویہ بدل گیا،حقوق وفرائض کی تقسیمیں بدل گئیں ، خیر و شر کے معیارات اورحلال وحرام کے پیمانے بدل گئے ، معیشت اورازدواج کے اطواربدل گئے،سابقہ تہذیب وتمدن کے ایک ایک ادارے اورایک ایک شعبے کی کایاپلٹ گئی،انسانیت نے سکھ کاسانس لیااوراپنے مقام ورفعت کوپہچانا۔اس ہمہ گیرانقلاب اورتبدیلی میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیروفلاح اورانسانیت کی بہبودکے سواکچھ نہیں ملتا،کسی گوشے میں شرنہیں،کسی کونے میں فسادنہیں،کسی جانب بگاڑنہیں،ہرطرف بناو¿ہی بناو¿،تعمیرہی تعمیراورارتقاءہی ارتقاءہے۔بنی نو ع انسانی بلکہ اس پوری کائنات چرندوپرند،شجروحجر،سماءوارض حتّٰی کہ حیوانات پربھی محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شماراحسانات ہیں جن کی تفصیل اورشمارممکن نہیںہے۔آپ علیہ الصلوة والسلام ہی کی بدولت دنیاکوعقیدہ¿ توحیدکی نعمت ملی،آپ نے وحدت انسانی کاتصوردیااورانسانیت کے احترام اورانسان کی قدرقیمت کاسبق دیا،انسان پرچھائی ہوئی مایوسی کی کیفیت کودورکردیا،آپہی کے ذریعے دین ودنیاکی وحدت کاتصورملااورآپ نے منزل مقصودسے بے خبرانسان کواس کی منزل سے آگاہ کردیا۔درحقیقت حضورمحسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوںانسانی زندگی کونشا¿ة ثانیہ حاصل ہوئی اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظام حق سے صبح درخشاںسے مطلع تہذیب کوروشن کرکے بین الاقوامی دورتاریخ کاافتتاح فرمایایہ اتنابڑاکارنامہ ہے کہ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۳۲سالہ انقلابی دعوت تھی جوبے انتہاءقربانیوں سے تکمیل کوپہنچی یہ اس کام کااجمالی نقشہ تھاجسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیادت میں سرانجام دیااسی لئے انسانیت اوراس کائنات کے سب سے بڑے بلکہ یکتامحسن اعظم ہونے کاشرف صرف اورصرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحاصل ہے اوربس!!!!!