میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسلمانوں سے نفرت،ہالینڈ انتخابات بھی امریکا کی راہ پر گامزن

مسلمانوں سے نفرت،ہالینڈ انتخابات بھی امریکا کی راہ پر گامزن

منتظم
هفته, ۱۰ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

مسلمانوں کا داخلہ مکمل طور سے بند کر دیا جائے کیونکہ ہالینڈ میں جو اسلام موجود ہے وہ بہت کافی ہے،ڈچ فریڈم پارٹی
عدالت نے اسلام مخالف تقریر کرنے پر ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ گریٹ وائلڈرز کو مجرم قرار دیا،ملزم کی غیر موجودگی
شہلا حیات
ہالینڈمیں ووٹرز جلد ہی نئی حکومت کا انتخاب کریں گے۔ انتخابی مہم میں مہاجرینکے مسئلے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی ڈچ فریڈم پارٹی جو تارکین اور خاص طورپر مسلمانوں کی مخالف تصور کی جاتی ہے چوٹی کی 3 پارٹیوں میں شامل ہو گی۔یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح، یہاں بھی تارکین وطن خاص طور سے مسلمانوں کے خلاف مہم چلی ہوئی ہے۔ ڈچ فریڈم پارٹی کے لیڈر گریٹ وائلڈرز کہتے ہیں کہ ”ہماری تجویز ہے کہ مسلمان ملکوں سے لوگوں کا داخلہ مکمل طور سے بند کر دیا جائے کیونکہ ہالینڈ میں جو اسلام موجود ہے وہ بہت کافی ہے۔ ہم یورپ اور نیدرلینڈز کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور اسی لیے ہم نے یہ تجویز دی ہے“۔ صرف انتہائی دائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ پورے مغربی یورپ میں سیاسی پارٹیوں نے اسی انداز فکر کو اپنا لیا ہے۔فرانس اور بیلجیم میں ایسا قانون بنایا جا رہا ہے جس کے تحت مسلمان عورتوں کو برقع پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سوئٹزر لینڈ میں مسجدوں میں نئے مینار تعمیر کرنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
صادق ہارڈویچی ایک ریسرچ گروپ فورم انسٹیٹیوٹ فار ملٹی کلچرل افیئرز کے چیئرمین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان دشمن جذبات کی جڑیں حالیہ تاریخ میں پیوست ہیں ”گلوبلائیزیشن کے اس دور میں تیزی سے آنے و الی تبدیلیوں نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آپ اس اقتصادی بحران کے اثرات ،جو امریکا میں مکانوں کے قرضوں سے شروع ہوا ،بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ یہاں روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہر کوئی اپنی بقا کے لیے کوئی نہ کوئی سہارا تلاش کر رہا ہے۔ یہ وہ غیر یقینی حالات اور وہ خوف ہے جسے مسٹر گریٹ وائلڈرز نے یورپ میں اسلام کے غلبے کا نام دیا ہے“۔
2008میں وائلڈرز نے ایک فلم ریلیز کی جس میں مغرب کو اسلام کے غلبے کے خطرے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اس فلم کا نام ہے ”فتنہ “اوراس میں قرآن سے اقتباسات لے کر انہیں دہشت گردی کے مناظر کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ اس فلم پر کئی ملکوں میں پابندی لگا دی گئی ہے۔ نیدرلینڈمیں وائلڈرزکے خلاف نفرت پھیلانے اورامتیازی سلوک کا پرچار کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں“ ۔ذولی کے قصبے میں جہاں وائلڈرز حال ہی میں اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں گئے تھے وہاں حکام نے بے گھر افراد کے لیے، جن میں سے بیشتر مسلمان ہیں، فٹ بال میچ کا انتظام کیا ۔ وائس آف امریکا کے نمائندے نے اس موقع پر ایک بے گھر فرد سے مسلمانوں کے خلاف جذبات کی لہر کے بار ے میں دریافت کیا تو جواب ملا کہ ”یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ یہ آزاد ملک ہے اور آپ یہاں اپنی پوری زندگی گزار سکتے ہیں۔ جہاں تک وائلڈرز کا تعلق ہے تو وہ ایک کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس قسم کی چیز یہاں نیدرلینڈز میں چل نہیں سکتی“۔وائلڈرز کی مقبولیت باقی رہی تو بھی ان کے بارے میں لوگوں کے جذبات ملے جلے رہیں گے۔ مثلاً ایک شہری نے اس طرح اظہارِ خیال کیا ”وہ لوگوں کے اندیشوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میرے خیال میں وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ خاصا احمقانہ ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہالینڈ میں بہت لوگ آ چکے ہیں۔ میری رائے بھی یہی ہے کہ جو لوگ آ چکے ہیں، وہ کافی ہیں“۔اگرچہ بہت سے لوگ وائلڈرز کے خیالات کو انتہا پسندی کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں، لیکن ان کی پارٹی کو بہت سے ووٹروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور یوں مسلمانوں کے خلاف احساسات بیلٹ باکس تک پہنچ رہے ہیں۔لیکن وائلڈرز کے اسلام دشمن جذبات کو گزشتہ دنوں خود ہالینڈ کی ایک عدالت کے فیصلے نے بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، عدالت نے اسلام مخالف تقریر کرنے پر ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ کو مجرم قرار دیا اگر چہ عدالت نے وائلڈرز کو کوئی سزا نہیں دی لیکن اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک قانون ساز اور منتخب رکن پارلیمنٹ کو مجرم قرار دینابھی اس کیلئے ایک بڑی سزا ہے۔وائلڈرز کے خلاف مقدمے کے دوران شیئرپراسیکیوٹرز نے یہ موقف اختیار کیاتھا کہ وائلڈرز نے خصوصی طور پر مراکش کے باشندوں کو نشانہ بنا کر تقریر کی آزادی کی حدود عبور کی ہیں۔
نیدر لینڈز کی عدالت کے جج نے اسلام مخالف قانون ساز گریٹ وائلڈرز کو نفرت پر مبنی تقریر کرنے پر مجرم ٹہراتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ قانون ساز رکن پارلیمنٹ کی تقریر سیاسی چھاپ پر مبنی لفظوں کا گورکھ دھندہ اور اظہار کی آزادی کے لیے ایک بڑا نقصان تھی۔ججوں کے پینل کے سربراہ ہینڈرک اسٹین ہوئز نے جمعے کے روز اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت انہیں کوئی سزا نہیں دے گی کیونکہ انہیں مجرم ٹھہرانا ہی جمہوری طورپر منتخب ایک قانون ساز کے لیے کا فی سزا ہے۔پراسیکیوٹرز نے جج سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو 5300 ڈالر جرمانہ کیا جائے تاکہ دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ انتخابات جیتنے کیلئے اس طرح کی دلآزار تقریریں اورباتیں کرنے کی جرات نہ ہو۔
اپنے خلاف عدالت کے اس فیصلے پر ایک ٹویٹ میں وائلڈرز نے کہا ہے کہ تعصب اور مراکش کے باشندوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کا مجرم قرار دینا غیر دانش مندانہ ہے اور یہ کہ جن 3 ججوں نے یہ فیصلہ لکھا ہے وہ ان کی انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کی مقبولیت کو ناپسند کرتے ہیں۔انہوں نے خود پر عائد کیے جانے والے الزامات مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ نیدرلینڈز کے ایک معاشرتی مسئلے کی نشاندہی کرکے ایک سیاسی رہنما کے طور پر اپنا فرض نبھا رہے تھے۔
وائلڈرز کو مجرم ٹہرائے جانے سے پہلے ججوں کے پینل کی سربراہی کرنے والے جج اسٹین ہوئز نے کہا کہ” آزادی اظہار کی سماعت نہیں کی جا رہی جیسا کہ وائلڈرز نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران دعویٰ کیا ہے“۔وائلڈرز سماعت کے وقت عدالت میں موجود نہیں تھے۔ یہ سماعت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب قومی انتخابات میں تین مہینے باقی رہ گئے ہیں۔رائے عامہ کے جائزوں میں فریڈم پارٹی کو انتخابات کے حوالے سے معمولی برتری حاصل ہے اور اس مقدمے کی سماعت کے دوران اس کی مقبولیت بڑھی ہے۔وائلڈر کے خلاف اسی طرح نفرت آمیز تقریر کرنے کے خلاف ایک مقدمہ اس سے قبل 2011 میں دائر کیاگیاتھا لیکن اس مقدمے میں عدالت نے اسلام کے خلاف نفرت پر مبنی ایک تقریرکے الزام سے انہیں بری کر دیا تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں