افغانستان سے آئے سینکڑوں ٹرک واپس کابل چلے گئے
شیئر کریں
اشیا کی درآمدی
ڈیوٹی میں اضافہ
ٹماٹراورپیازکے بعد افغانستان سے پھلوں اورخشک میوہ جات سے لدے دوسوسے زائدٹرک پاکستان پہنچے تھے
اگر ریگولیٹری ڈیوٹی کو فوری طور پر واپس یا کم نہیں کیا گیا تو مقامی مارکیٹ سے اشیا غائب ہوجائیں گی، در آمد کنند گان کا خدشہ
پشاور (نیوز:ایجنسیاں)پاکستان کی جانب سے درآمد کی جانے والی کھانے پینے کی اشیا پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کیے جانے کے بعد طورخم بارڈر سے تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات سے لدے سینکڑوں ٹرک واپس کابل جانا شروع ہوگئے ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق طورخم بارڈر پر درآمد کنندگان نے بتایا کہ درآمد ہونے والی کھانے پینے کی اشیا پر 49 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کیے جانے کے بعد افغانستان سے تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی آمد میں تقریبا 70 فیصد کمی آئی ہے۔انہوںنے کہاکہ اضافی ٹیکسز کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں افغانی انگور اور سیب کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔درآمد کنندگان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ریگولیٹری ڈیوٹی کو فوری طور پر واپس یا کم نہیں کیا گیا تو مقامی مارکیٹ سے یہ اشیا غائب ہوجائیں گی۔مقامی درآمد کنندہ شاہ جہاں نے بتایاکہ اس اقدام کے بعد ایک ٹن انگور کی درآمدی ڈیوٹی 14 ہزار روپے سے بڑھ کر 56 ہزار 811 روپے جبکہ سیب پر درآمدی ڈیوٹی 56 ہزار روپے سے بڑھ کر ایک لاکھ 14 ہزار 959 روپے ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ سے قبل پھلوں اور خشک میوہ جات کے 200سے زائد ٹرک اور کنٹینر طورخم بارڈر کے راستے سے روزانہ پاکستان پہنچتے تھے تاہم یہ تعداد اب 50 سے بھی کم ہوگئی ہے، کسٹم سے متعلقہ ٹیکس میں اچانک اضافے اور پھلوں کے خراب ہونے کے خوف سے زیادہ تر ٹرک ڈرائیورز واپس کابل جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔سرحد چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زاہد اللہ شنواری نے تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات پر یکطرفہ طور پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کیے جانے پر نارضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے پہلے ہی خوراک کی قلت کا سامنا ہے اور اس صورتحال میں یہ اقدام انتہائی حیران کن ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے زرعی زمینوں کا بڑا حصہ تباہ ہونے کے بعد افغانستان ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے ہمیں ڈیوٹی فری پیاز اور ٹماٹر بھیجنا شروع کیے تھے، ہم نے اس کا جواب ڈیوٹی میں اضافہ کرکے دیا ہے۔زاہداللہ شنواری نے بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر اور سیلاب کے بعد مقامی سطح پر ہر قسم کی خوردنی اشیا کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر افغانستان سے درآمد کی جانے والی اشیائے خورونوش پر کسٹم ڈیوٹیوں کو کم سے کم ممکنہ سطح پر لایا جائے۔انہوں خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ریگولیٹری ڈیوٹی کو فوری طور پر واپس نہ لیا گیا تو آنے والے موسم سرما میں افغانستان بھی پاکستان کی متعدد برآمدی اشیا بالخصوص پھلوں پر اضافہ ڈیوٹی عائد کردیگا۔پھلوں کے درآمد کنندہ شاہ جہاں نے کہا کہ اگر افغانستان بھی جواب میں پاکستانی پھلوں پر اضافی ڈیوٹی عائد کرتا ہے تو ہم تازہ پھلوں کی اپنی سب سے بڑی مارکیٹ کھو دیں گے۔انہوںنے کہاکہ کینو اور امرود کی بر آمد نومبر کے اوائل میں شروع ہوجائے گی اور ہمیں خدشہ ہے اگر اس وقت تک افغان پھلوں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی واپس نہ لی گئی تو ہمیں افغانستان کی جانب سے بھی ایسے ہی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے ہمیں بھاری مالی نقصان ہوگا اور ممکنہ طور پر موسم سرما میں ہمارے لیے افغان مارکیٹ بند ہوجائی گی۔