میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے پانچویں ایٹمی بجلی گھر چشمہ-4 کا افتتاح

پاکستان کے پانچویں ایٹمی بجلی گھر چشمہ-4 کا افتتاح

منتظم
اتوار, ۱۰ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز چشمہ میں 340 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کے حامل پاکستان کے پانچویں ایٹمی بجلی گھر چشمہ-4 کا افتتاح کیا۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے 28 دسمبر 2016 کو چشمہ-3 کے آغاز کے تقریباً 8 ماہ بعد چشمہ یونٹ 4 کے افتتاح کو اپنے لیے باعث افتخارقرار دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ چشمہ-4 سے پہلے شروع ہونے والے تینوں یونٹس بہترین کام کر رہے ہیں اور جوہری توانائی پلانٹس سے سستی بجلی پیدا ہورہی ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ چشمہ اور مظفرگڑھ میں جوہری توانائی کے مزید منصوبے لگائے جارہے ہیں ، جو مکمل ہوکر ملک کو روشن اور ماحول کو صاف رکھیں گے۔ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ پاکستان میں توانائی کے منصوبے چین کے تعاون سے مکمل کیے جارہے ہیں ، چین کی حکومت اور عوام کی مدد کے بغیر یہ منصوبے مکمل نہیں ہوسکتے تھے۔ چشمہ ایٹمی بجلی منصوبے کے چشمہ-1، چشمہ-2 اور چشمہ-3 یونٹ بالترتیب 2000، 2011 اور 2013 سے کامیابی سے قومی گرڈ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔2 بڑے ایٹمی بجلی گھر کے ٹو اور کے تھری کراچی کے قریب زیر تعمیر ہیں جو 2020 اور 2021 میں کام شروع کردیں گے، ان بجلی گھروں سے قومی گرڈ میں 2 ہزار200میگاواٹ بجلی شامل کی جائے گی۔
پاکستان نے 1972 میں ہی جوہری توانائی سے بجلی کی پیداوار شروع کر دی تھی، جبکہ کراچی میں 125 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا پلانٹ کینپ-ون اسی زمانے میں قائم کیا گیا تھا، تاہم ابھی اس پلانٹ کی استعداد کار اسی طرح برقرار نہیں ہے، اور اس سے 100 میگاواٹ سے کم بجلی پیدا ہو رہی ہے۔چشمہ نیوکلیئر پاور کمپلیکس میں چشمہ-3 اور چشمہ-4 ری-ایکٹرز کے معاہدے پر 2009 میں چینی کمپنی کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت ان منصوبوں نے بالترتیب 2016 اور 2017 تک کام کا آغاز کرنا تھا۔340 میگا واٹ کے حامل چشمہ-3 اور چشمہ-4 پانی کے دباؤ سے چلنے والے ری ایکٹرز ہیں ، 300 میگا واٹ کے حامل چشمہ-1 اور چشمہ-2 بھی چین نے فراہم کیے تھے۔چشمہ نیوکلیئر پاور کمپلیکس میں چشمہ- تھری اور چشمہ-فور ری-ایکٹرز کے معاہدے پر 2009 میں چینی کمپنی کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے جبکہ انہوں نے یہ بالترتیب 2016 اور 2017 تک کام کرنا شروع کرنا طے پایا تھا۔340 میگا واٹ کے حامل چشمہ-تھری اور چشمہ-فور پانی کے دباؤ سے چلنے والے ری ایکٹرز ہیں ، 300 میگا واٹ کے حامل چشمہ 1 اور 2 بھی چین نے فراہم کیے تھے۔پاکستان کے مختلف مقامات پرلگائے جانے والے یہ ایٹمی بجلی گھر پاکستان کی صنعتوں کاپہیہ چلتے رکھنے،کاشتکاروں کو ٹیوب ویل چلانے کے لیے بلا تعطل بجلی کی فراہمی جاری رکھنے اور عوام کو ان کی ضرورت کے مطابق سستی بجلی فراہم کرنے کے ایک وسیع تر منصوبے کاحصہ ہیں ،پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے حکام کے مطابق اس منصوبے کے تحت حکومت نے 2050 تک 40 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔جس پر مرحلہ وار عملدرآمد کیاجارہاہے۔ اگرچہ ایٹمی بجلی کے یہ منصوبے تاخیر سے شروع کئے گئے ہیں لیکن اگر منصوبے کے مطابق ان منصوبوں کو بروقت تکمیل تک پہنچادیاجاتاہے تو ملک کو تیل اور گیس سے تیار کی جانے والی بجلی پر اپنا انحصار کم کرنے اور بتدریج اس کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
جہاں تک ایٹمی بجلی کا تعلق ہے تو پوری دنیا میں اسے آلودگی سے پاک اور مسلسل بجلی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ تسلیم کیاجاتاہے جس کا اندازہ امریکا ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس میں قائم ایٹمی بجلی گھروں سے لگایاجاسکتاہے، یہ درست ہے کہ ایٹمی بجلی گھروں کو چلانے کے لیے بڑی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ماحول کو آلودگی سے محفوظ رکھنے خاص طورپر کسی غیر متوقع صورت حال میں قریبی آبادی کو تابکاری سے محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ماہرین متعدد مرتبہ پاکستانی کی ایٹمی تنصیبات کامعائنہ کرکے اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بالکل محفوظ ہے اور پاکستان کے تمام جوہری بجلی گھروں میں پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹر اتھارٹی کے طے کردہ حفاظتی اصولوں اور دیگر معاملات کا خیال رکھا جاتا ہے، یہ تمام اصول ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے طریقہ کار کے مطابق ہیں ۔
ایٹمی بجلی گھروں میں حفاظتی اصولوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا خود پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے اس لیے اس پر کسی طرح کی کمی بیشی کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،تاہم اس حقیقت کے باوجود حکومت اورپاکستان کے ایٹمی توانائی کو کنٹرول کرنے والے اداروں کے ارباب اختیار کو متعلقہ نیو کلیئر پروگرام کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات پر بھر پور نظر رکھنا ہوگی، یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ایٹمی توانائی کی ریگولیٹری اتھارٹی حفاظتی اقدامات کی بھر پور نگرانی کر رہی ہے، جس کا مقصد ان پلانٹس کی عالمی معیار کو برقرار رکھنا ہے۔
ملک میں نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تنصیب کے ساتھ ہی حکومت کو بجلی کی تقسیم اور ترسیل کے فرسودہ طریقہ کار اور نظام کو بھی تبدیل کرنے پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ اب تک کے حقائق اور اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت کی جانب سے اب تک جتنے بھی بجلی گھر قائم کئے گئے ہیں ان سے عوام اور ملکی صنعتوں کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ سکا ہے ،اور اس کاسبب بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے موثر نظام کا فقدان ہے ، جب تک ملک میں بجلی کی تقسیم اور ترسیل کا قابل اعتبار اور محفوظ نظام اور نیٹ ورک قائم نہیں کیاجاسکتا محض بجلی کی اضافی پیداوار سے نہ تو اس ملک کے صنعتکاروں اور تاجروں کو کوئی فائدہ پہنچے گا اور نہ ہی عوام کو ان کی ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کرنے کاوعدہ پورا کیاجاسکے گا۔
ملک میں ایٹمی توانائی کے منصوبوں کو وسعت دینے کے ساتھ ہی اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ان منصوبوں سے بھرپور استفادہ کرنے اور عوام کی امنگوں کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیئے قوم کی شرح خواندگی میں اضافہ کرنے پر بھی توجہ دی جائے تاکہ ایٹمی توانائی کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے پھیلائی جانے بدگمانیوں کابروقت سدباب ہوسکے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ناخواندگی، ملکی ترقی کو درپیش رکاوٹوں میں سے ایک ہے، لہٰذا ہر لڑکی اور لڑکے کو تعلیم کے یکساں مواقع میسر ملنے چاہئیں ۔ حکومت کو ملک میں بجلی کی ضروریات کی تکمیل کیلیے ایٹمی بجلی گھروں کی تنصیب کے ساتھ ہی ان اسباب پر بھی غور کرنا چاہئے جن کی باعث خواندگی میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوسکا اور خواندگی کی شرح میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لیئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ غربت، امن و امان، عدم برداشت اور بیروزگاری جیسے تمام دیرینہ مسائل کی جڑیں ناخواندگی میں ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں