اقتصادی جائزہ رپورٹ ، بیروزگاری ،مہنگائی ،قرضوں میں اضافہ
شیئر کریں
موجودہ مالی سال 2021-22 کا قومی اقتصادی سروے پیش ،اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال جی ڈی پی گروتھ 5.97 فیصد رہی جبکہ اس سال 77 ارب ڈالر تک کی بلند ترین درآمدات رہیں،فی کس آمدن سمیت متعدد اہداف حاصل کرنیکا دعوی بھی کیا گیا،وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے راستے سے ہٹ گیا ہے اور اب ہم استحکام کے راستے پرچل پڑے ہیں،حکومت پائیدار ترقی کے لیے کوشاں ہے، ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے، آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور بجٹ کے بعد بات چیت مزید آگے بڑھے گی، بجٹ میں جواصلاحات لائیں گے امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کوپسند آئیں ،احسن اقبال نے کہا کہ ہم دوبارہ گاڑی کو موٹر وے پر چڑھا رہے ہیں اور ترقی کے نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں،خرم دستگیر نے اعلان کیا کہ اب ملک میں درآمدی فیول پرچلنے والا کوئی نیا پاور پلانٹ نہیں بنے گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اقتصادی سروے پیش کردیا گیا، جمعرات کے روز وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر توانائی خرم دستگیر اور وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے موجودہ مالی سال 2021-22 کا قومی اقتصادی سروے پیش کیا۔ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ درآمدات میں 41 فیصد برآمدات میں28 فیصد اضافہ ہوا، اس سال 77 ارب ڈالر تک کی بلند ترین درآمدات رہیں جبکہ تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، ہمیں قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، ادائیگی کا توازن بگڑگیا، مارچ سے اب تک 5.8 ارب ڈالرز کے زخائر کم ہوچکے ہیں تاہم چین سے 2.4 ارب ڈالردو تین روز میں مل جائیں گے اور زرمبادلہ ذخائر 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے، ہمارے دور میں 1650 ارب روپے اور اس سال 5000 ارب روپے کا مالی خسارہ ہوگا، عمران خان نے 19 حکمرانوں کے مقابلے 80 فیصد قرضہ لیا، اس سال 3100 ارب روپے اور اگلے سال ادائیگی 3900 ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔ تیل کی قیمت سے متعلق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہونے سے پیٹرول اور ڈیزل دو سے تین بار تیس روپے مہنگا کرنا پڑا،اس سے قبل عمران خان نے عالمی قیمتوں کے برعکس پیٹرول سستا کردیا تھا، خان صاب نے جانے سے پہلے پیٹرول ڈیزل سستا کرکے عوام کو ایسا چیک لکھ کر دیا جس کے لیے کیش تھا ہی نہیں، بارودی سرنگیں صرف حکومت کے لیے نہیں ملک کے لیے تھیں، لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، معیشت خراب ہو رہی ہے تو ملک کی ہو رہی ہے، خان صاحب نے ملک کو نقصان پہنچایا، گندم اور چینی جو 18-2017 میں ایکسپورٹ کر رہے تھے اب امپورٹ کریں گے، پاکستان کئی چیزوں میں پیچھے چلا گیا، اِس وقت بڑا چیلنج مستحکم گروتھ لانا ہے۔ جب بھی تھوڑی سی گروتھ ہوتی ہے ہم کرنٹ اکانٹ خسارے میں پھنس جاتے ہیں،حکومت کورونا کے دوران سودے کر لیتی تو شاید مہنگائی نہ آتی، بجلی کے پلانٹس چلانے کیلئے ہمیں ایندھن لینا پڑ رہا ہے، سی پیک کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیا گیا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ شیخ رشید خود کہہ چکے ہیں، خان صاحب بارودی سرنگیں بچھا کر گئے، بارودی سرنگیں ریاست پاکستان کے لیے تھیں، پچھلی حکومت کو کورونا کے دنوں میں تیل کے لمبی مدت کے سودے کرنے چاہیے تھے، کورونا کے بعد تیل اور گیس سستی ہوئی اور پچھلی حکومت نے اس کو مس کیا، کورونا کے دوران جی 20 ممالک نے چار ارب ڈالر کی سہولت دی، گندم بھی آج امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے، موجودہ حکومت نے روس سے گندم خرید کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سال 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کر رہے ہیں، روس سے حکومتی سطح پر بات ہو گی۔ انھوں نے بتایا کہ حکومتی کوششوں سے پاکستان دیوالیہ ہونے کے راستے سے ہٹ گیا ہے اور اب ہم استحکام کے راستے پرچل پڑے ہیں،ملک میں اب معاشی ترقی پائیدار ہوگی اور اس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے،ہمیں جامع نمو چاہیے، ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ سرمایہ کار طبقے کو تجارت آگے بڑھانے کے لیے مراعات دیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ امرا جب صنعتیں لگاتے ہیں، مراعات پاتے ہیں تو درآمدات بہت بڑھ جاتی ہیں، اگر جامع نمو ہوگی، غریب اور متوسط طبقے کی قوت خرید بڑھا کر نمو کی جائے تو اس سے مقامی اور زرعی پیداوار بڑھے لیکن درآمدی بل نہیں بڑھے گا کیوں کہ امرا جب خرچ کرتے ہیں تو اس میں درآمدی اشیا زیادہ ہوتی ہیں جبکہ غریب شخص آٹے دال وغیرہ جیسی چیزوں پر خرچ کرتا ہے،80 فیصد انڈسٹری مقامی مارکیٹ کیلئے ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ برآمدات میں اضافہ ہو۔آئی ایم ایف سے متعلق مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور بجٹ کے بعد بات چیت مزید آگے بڑھے گی، بجٹ میں جواصلاحات لائیں گے امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کوپسند آئیں گی۔