قطراور خلیجی ممالک کاتنازع اوآئی سی اپنا کردار ادا کرے
شیئر کریں
قطر کی دیگر ہمسایہ خلیجی ممالک کے ساتھ جاری کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے یہ واضح کیاہے کہ پاکستان امت مسلمہ کے اتحاد پر یقین رکھتا ہے اور کوشش ہے کہ موجودہ صورتحال کا بہتر حل نکل آئے۔ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قطری وفد کے دورہ پاکستان کے بارے میں کوئی علم نہیں۔انہوں نے قطر اور سعودی عرب کشیدگی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امت مسلمہ کے اتحاد پر یقین رکھتا ہے، کوشش ہے کہ موجودہ صورتحال کا بہتر حل نکل آئے۔قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازع اور ایران میں گزشتہ روز ہونے والے دہشت گرد حملوں کی گونج قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی جس کے بعد ایوان نے ایران حملوں اور قطر تنازع پر متفقہ قراردادیں منظور کرلیں۔قطر اور خلیجی ممالک کی صورتحال پر منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا کہ تمام برادر اسلامی ممالک مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کریں کیونکہ مسلم امہ کو اتحاد کی ضرورت ہے۔دوسری جانب اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے اسلامی فوجی اتحاد سے نکلنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل مسلم امہ کے اتحاد کے خلاف ہیں اور قطر پر ڈرامہ کھیلا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور قطر کے تناؤ پر امریکا اور اسرائیل کا ایجنڈا نظر آرہا ہے، پاکستان کو اس صورتحال پر غیر جانبدارانہ مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کایہ خیال اپنی جگہ درست ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔تاریخ میں پہلی مرتبہ خلیجی ممالک آپس میں لڑ پڑے ہیں اور قطر پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو فروغ دے رہا ہے جبکہ قطر نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ آفتاب شیر پائو کی جانب سے امریکی صدر کے ارادوں پر حیرت کا اظہار بھی بلا وجہ نہیں ہے اور یہ واضح ہونا چاہئے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟آفتاب شیرپائو کے اس خیال سے بھی عدم اتفاق نہیں کیاجاسکتا کہ ‘مسلم ممالک کے درمیان حالات خراب ہونے سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے،اس لئے خلیجی ممالک کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے پاکستان کو مصالحتی کردار ادا کرنا چاہیے، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج قطر پر ریاستی دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے کل پاکستان پر بھی یہ لگ سکتا ہے اوربھارت طویل عرصے سے پاکستان پر یہ لیبل لگانے کیلئے مختلف سطحوں پر کوششیں کرتارہاہے۔آفتاب شیرپاؤ نے اس معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ‘خلیجی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات مثالی ہیں،اس لئے پاکستان کی طرف سے تمام خلیجی ممالک کو یہی پیغام جانا چاہیے کہ ہم خلیجی ممالک کے تنازع کا پر امن حل چاہتے ہیں’۔اس حوالے سے پاکستان کو قطر عرب تنازع پر واضح مؤقف اپنانا ہوگا۔
اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ قطر نے سعودی عرب اور مصر سمیت چھ ممالک کی جانب سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے اچانک اعلان کے بعدکسی شدید جوابی ردعمل کا اظہار کرنے کے بجائے اختلافات طے کرنے کیلئے مذاکرات پر زور دیا ہے۔کویت کے امیر بھی اس حوالے سے اپنی مصالحتی کوششیں شروع کرچکے ،جبکہ وائٹ ہائوس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ عرب ممالک میں مصالحت کرانے کیلئے تیار ہیںلیکن سعودی عرب نے اس حوالے سے انتہائی سخت گیر موقف کااظہار کرتے ہوئے امریکا کو ٹکا سا جواب دیاہے کہ ہمیں اپنے مسائل اور اختلافات طے کرنے کیلئے کسی مصالحت کار کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور دیگر 5ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کے اعلان کے بعد قطرشدید دبائو کا شکار ہوگیاہے تین طرف سے سمندر میں گھرے قطر کے ساتھ چوتھی طرف سعودی عرب کی زمینی سرحد ہے۔ اس راستے سے قطر کی خوراک کی 40 فیصد ضروریات درآمد ہوتی ہیں۔ اب یہ راستہ بند ہوچکا ہے۔ قطر کا فضائی مقاطعہ بھی کردیا گیا ہے۔ اس صورتحال سے ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ قطر نے اپنے ’’بائیکاٹ‘‘ کیخلاف کوئی جوابی کارروائی کی نہ کوئی اشتعال انگیز بیان دیا، وہ معاملات مذاکرات کے ذریعے سلجھانے کی بات کررہا ہے۔ ٹرمپ مصالحت کرانا چاہتے ہیں۔ امیر کویت 88سال کی عمر میں مصالحت کیلئے فعال ہوئے ہیں۔ طیب اردوان اس حوالے سے روس کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ یہ دونوں ممالک بھی صورتحال کو نارمل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔لیکن اتحاد امت مسلمہ کے بنیادی اصولوں کے تحت وجود میں آنے والی او آئی سی جو اب تک کسی بھی بحران میں مسلم حکومتوںاو رمسلمانوں کی امداد کے حوالے سے کوئی قابل ذکرکردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے ،اب یہ ادارہ قطر کے مسئلے پر پیداہونے والے سنگین مسئلے پر مصالحتی کردار ادا کرنے کے بجائے جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے، اس کی طرف سے قطر کو وارننگ اور دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ او آئی سی کے ارباب اختیار کو اس پر توجہ دینی چاہئے اور جس طرح عالمی برادری عرب ممالک میں مصالحت کیلئے کوشاں ہے او آئی سی کو بھی اس حوالے اپنا کردار ادا کرنے اور یہ مسئلہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل کراکے امت مسلمہ کی نمائندہ حیثیت منوانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ پاکستان کو بھی اس معاملے کو افہام وتفہیم کے ساتھ حل کرنے تمام خلیجی ممالک کے درمیان اختلافات طے کرانے کیلئے اپنا مصالحتی کردار ادا کرنا چاہئے۔