میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مداواضروری ہے!

مداواضروری ہے!

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
جب سے متعصب مودی نے اقتدارسنبھالاہے،بھارت میں آرایس ایس اوربی جے پی کے غنڈوں نے تمام اقلیتوں کاجینادوبھراور انڈیاکوقبرستان بناکررکھ دیاہے اوربالخصوص مسلمانوں پربہیمانہ ظلم وستم کی انتہاہوگئی ہے۔یہ متعصب غنڈے جب جی چاہے کسی مسلمان کو پکڑ کرکسی بھی جگہ لے جاتے ہیں،ایک غنڈہ موبائل پرفلم بناتاہے،دوسرامسلمان کوحکم دیتاہے،جے شری کاکانعرہ لگا۔حکم عدولی پربے پناہ تشددکیاجاتاہے اوراگرمضروب مجبوری میں ان کے حکم کی تعمیل کرے تو اسے بارباریہ نعرہ لگانے پرمجبورکیاجاتاہے،اس پرجب دل نہیں بھرتاتوپاکستان اوراسلام کوغلیظ گالیاں دینے پرمجبورکیاجاتاہے جس کے بعدسرعام ہاتھ میں پکڑے ہوئے گنڈاسے یاتلوارسے خوفناک وارکرکے اس کوموت کے گھاٹ اتاردیاجاتاہے اورمجبورومقہورجان بخشی کیلئے گڑگڑاتاہواشہیدہوجاتاہے جس کے بعدآرایس ایس کادوسراغنڈہ اس کی لاش پرتیل چھڑک کرآگ لگادیتاہے اورپاکستان کودہمکی دیتا ہے کہ بھارت کے خلاف جہادبندکرو،ورنہ یہاں مسلمانوں کایہی حشر کریں گے۔یہی سلسلہ مقبوضہ کشمیرمیں قابض بھارتی فوج نے بھی شروع کررکھاہے۔وہ کشمیری نوجوانوں کوپکڑکران پربہیمانہ ظلم وستم اورمارپیٹ کے دوران انہیں بھی پاکستان اوراسلام کوگالیاں دینے پرمجبورکرتے ہیں اورڈھٹائی کایہ عالم ہے کہ بعدازاں سوشل میڈیاپریہ ویڈیو وائرل کی جاتی ہے تاکہ کشمیری مسلمانوں دلبرداشتہ ہوکرجدوجہد آزادی میں حصہ نہ لیں۔
مجھے ایک پاکستانی دوست نے بتایا:میں نے ایک ایساہی ویڈیوکلپ جوآرایس ایس نے وائرل کیاتھا،اپنی فیس بک پرچندروزکیلئے لگایاتومیری فیس بک اورپیج دودن کیلئے بندکر دیئے گئے۔حیرت تواس بات پرہے کہ وہی ویڈیوکلپ جس بھارتی پیج سے میں نے لیاتھا،وہ کئی ماہ سے ایسے ویڈیو کلپ چلارہاہے اوراب بھی کئی ایسے خوفناک ویڈیوکلپ اس کی فیس بک پرچل رہے ہیں لیکن اس پرکوئی پابندی نہیں۔میں نے تویہ کلپ ان پاکستانیوں بقراطیوں کیلئے وائرل کیاتھاجو دن رات اس متعصب بھارت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اورانہیں اس وقت نیندنہیں آتی جب تک وہ کسی بھارتی فلم کودیکھ نہ لیں اوربے شرمی کی حد تویہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کراچی کے تاجروں سے ملکی ترقی کیلئے آگے بڑھنے کی جب دعوت دے رہے تھے توپاکستانی تاجرجس نے اسی ملک کے باسیوں سے اربوں روپے کمائے،وہ میڈیاکے سامنے وزیراعظم کوبھارت سے تعلقات بہتربناے کی دعوت دے رہاتھا جبکہ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ مودی اوراس کے چیلے پاکستان کے بارے میں کیاکیابیانات دے رہے ہیں اوربالخصوص ان دنوں انتخابی مہم میں پاکستان اورمسلمانوں کے بارے میں جوزبان استعمال ہورہی ہے،کیاکوئی غیرت مندپاکستانی ان افرادکے ساتھ ہاتھ ملانے کاسوچ بھی سکتاہے؟
بھارتی دہشت گردی اوربھارتی دہشتگردوں کے کرتوت ہمارے اپنے ایسے ہی مہربان قوم کے سامنے نہیں لانے دیتے،یہی وجہ ہے کہ ہم آج پوری دنیا میں انتہائی نچلے درجے کوپہنچ چکے ہیں۔جہاں تک بھارت کی دہشتگردحکومت کاتعلق ہے تواس نے ”وندے ماترم ،سوریہ نمسکاراوریوگا”کے نام پرمسلمانوں کے مذہبی استحصال کے ساتھ ساتھ ہرزہ سرائی کاسلسلہ بھی شروع کررکھاہے حتی کہ یہاں تک کہاگیاکہ جو”سوریہ نمسکار”نہیں کرتااسے ہندوستان چھوڑکرچلاجانا چاہئے۔بعض فرقہ پرست لیڈروں کے مطابق یوگاکرنے سے اسلام منع نہیں کرتا کیونکہ یوگاتوایک قسم کی ورزش ہے جوصحت کیلئے سودمندہے۔ان کایہ بھی کہناہے کہ کئی مسلمانوں ملکوں میں یوگاکیاجاتاہے توپھربھارتی مسلمانوں کویوگاپرکیوں اعتراض ہے لیکن یوگاکی حمائت میں بات کرنے والے فرقہ پسندمسلم دشمنوں کویہ معلوم ہوناچاہئے کہ کچھ مسلمان ملکوں میں یوگاکیاجاتاہے لیکن وہاں یوگاکے دوران منتروں کاجاپ اور سوریہ نمسکارنہیں کیاجاتامگربھارت میں یوگاکے نام پرمسلمانوں کومجبورکیاجاتاہے کہ وہ سوریہ نمسکارکریں۔اوم کاجاپ کریں۔اس مذموم پروگرام میں بلا تفریق سارے ہندوستانیوں بشمول مسلم اقلیت کی شرکت پرحکومتی اصرارغیرجمہوری،غیر اخلاقی اوراسلام مخالف طرزِعمل ہے۔
چندسال قبل ”سب وکاس” کانعرہ لگاتے ہوئے مودی حکومت نے مسندِ اقتدارپرتسلط جمایامگراب تومودی کے دورِحکومت میں فرقہ پرستی انتہاکوپہنچ چکی ہے جبکہ یوگامیں شامل سوریہ نمسکاراوراشلوکوں پرمبنی منترپڑھنے کاعمل بھارتی سیکولرآئین کی روشنی میں ملنے والے بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔مودی حکومت کے نمائندے غیر جمہوری بیانات دینے اورمسلمانوں کی مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پالیسی پرعمل پیراہیں اورگائے کاگوشت کھانے والوں کوپاکستان بھیجنے کی دہمکی دینا،گھرواپسی اورچارشادیوں کا تمسخراڑاناان کامعمول بن چکاہے۔یوگااصل میں گیان اوردھیان کاایک طریقہ ہے جس کا مقصد بھگوان کے آگے خودسپردگی ہے۔سوریہ نمسکاریعنی سورج کی پوجایوگاکااہم عنصر ہے۔ یوگابنیادی طورپریوگ سے نکلا ایک لفظ ہے جس کے معنی جوڑکے ہیں۔یوگ کی تاریخ اورپس منظرسے یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ درحقیقت ہندوؤں میں عبادت کا ایک طریقہ ہے۔بنیادی طورپرہندوازم کابنیادی فلسفہ ہے جس میں آتما(روح)پرماتما(بھگوان)اورشریر(جسم)کومراقبے کے ذریعے ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
یوگ کاپہلاطریقہ ہندوؤں کے مطابق ان کے بھگوان شنکرنے ایجادکیاتھااوردوسراطریقہ پنانچلی نام کے یوگ گرونے شروع کیاتھا ۔لوگ ہندوں کے علاوہ بدھ مت کے ماننے والوں میں بھی رائج ہے۔یہ محض ایک ورزش نہیں کیونکہ اس کی ایک مذہبی حیثیت رہی ہے۔یوگ کے دوران مذہبی اشلوک کی ادائیگی بھی اس کاحصہ ہے۔ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہزاروں آشرم قائم ہیں اور حکومت کی طرف سے انہیں سرکاری امدادبھی دی جاتی ہے جبکہ مودی کی حکومت کی تشکیل میں اہم کرداراداکرنے والے بابا رام دیویوگاکے سب سے بڑے پیروکارہیں اورانہی کی کوششوں سے اقوام متحدہ میں یوگاکاعالمی دن منانے کااعلان کیاگیاتھاجس میں بھارتی فرقہ پرست وزیراعظم اورآرایس ایس کے پرچارک مودی نے اہم کرداراداکیا۔مودی حکومت بھارت کوہندوراشٹربنانے کے ایجنڈے پرعمل پیراہے اوریوگاکا عالمی دن منانے کے پیچھے بھی حکومت کامقصدکارفرماتھا۔
مودی نے اپنے اقتدارکے پہلے سال میں27ستمبر2014کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے69ویں سیشن میں خطاب میں بین الاقوامی برادری سے یوگاکے انعقاد کی اپیل کی تھی۔11دسمبرکوجنرل اسمبلی نے اس تجویزکو21جون کوعالمی یوگاڈے منانے کی تجویزکواتفاق رائے سے منظورکرلیا۔مودی سرکارچانکیہ کے نقش قدم پرچل رہی ہے۔اس کی دو واضح پالیسیاں ہیں،اول ان تمام جھوٹے وعدوں کوبھارتی عوام کے دماغ سے صاف کردیاجائے جومودی نے الیکشن کے دوران کیے تھے تاکہ ہندوستانی عوام سمجھنے کے اہل ہی نہ رہیں کہ ان کے ساتھ کوئی دھوکہ یاٹھگی ہوئی ہے اورناراض ہونے کی بجائے مودی کی مالاجپتے رہیں۔ دوم ،ہندواکثریتی طبقے کے دماغوں میں ہندتواکے مفروضے کااس طرح پرچار کیاجائے کہ انہیں یوں لگے کہ اب وہ ایک ہندودیش کے شہری ہیں اورہندوسنسکرتی دنیامیں سب سے اعلیٰ ہے اورہندوعوام کویہ فضیلت سنگھ پریواراورمودی کے طفیل ہی مل سکی ہے ۔ ان دونوں پالیسیوں کوہندوستانیوں کے دل ودماغ میں متواترپختہ کیاجارہاہے۔ویدک کال میں جنگی جہازوں کااستعمال اس قدیم دورمیں جدیدمیڈیکل سائنس کی کرشماتی سرجری سے بھی زیادہ پیچیدہ آپریشن اوراب یوگاکی اچانک اس قدرتبلیغ الیکشن کے دوران مودی باقاعدہ اعلان کرتے تھے کہ انہیں خودبھگوان نے بھیجاہے تاکہ اس دیش کاکلیان کر سکیں۔
آج سے پچاس سال قبل امریکااوریورپ سے سیاح کثیرتعداد میں بھارت آناشروع ہوئے،اس زمانے میں ہندوعوام سادھوؤں اور سنتوں کوکسی اوردنیاکی مخلوق سمجھتے تھے اوران کو سمجھنے کیلئے ان کے آشرموں میں قیام کرتے تھے۔ان سادھوں،سنتوں کی سیوا کرتے اوربدلے میں تین چیزیں(بھنگ،گانجااوریوگا)ساتھ لے جاتے۔ان سیاحوں کیلئے رشی کیش ،ہری دوارکے آشرم ہی ٹھکانے تھے جہاں ہندویوگی اورسادھوچلم کے کش کے ساتھ دیگربیہودہ اعمال کی تعلیم دیتے تھے۔ان لوگوں نے امریکااور یورپ میں بھی آشرم قائم کیے اورلوگوں کویوگاکی تعلیم دینے لگے جس سے کروڑوں ڈالرکماتے۔ہندودھرم میں تمام علوم کاسرچشمہ وید ہیں اورویدوں کے عالم اورتخلیق کاروں نے یہ سسٹم ایجادکیا،اس لئے مختلف آسنوں کے دوران مختلف دیوتاؤں سے شکتی اور صحت پرارتھناکی جاتی ہے،ان کی تعریف کی جاتی ہے۔سوریہ(سورج)آسن میں سورج کے سامنے ڈنڈوت کیاجاتاہے۔ منتراور اشلوک پڑھ کران سے مددکی درخواست کی جاتی ہے۔ظاہرہے کہ مسلمان یوگاتوکرسکتے ہیں لیکن اشلوکوں کے وردسمیت یہ تمام اعمال انجام نہیں دے سکتے جوغیراللہ کی پرستش پرمحمول ہیں مگرسب کے سب مسلمان ہرمذہبی رسم کی تہ تک پہنچتے کی حاجت محسوس نہیں کرتے اوران کی آزاداورغیرجانبدارطبیعت بے حدمضررساں بھی ثابت ہورہی ہے، دوسری طرف مسلمانوں اوردیگر غیرہندوں کومرتدکرنے کی مہم سونے پرسہاگے کاکام دے رہی ہے۔
جس مذہب میں ہرطاقتورکوخدامان کراس کوسجدے کرناشروع کردیئے جائیں،سواارب کی آبادی کے کروڑوں بھگوانوں کی پرستش کی جاتی ہو،جس مذہب کی اساس گائے کی تقدیس ہواورجوبے شماراوہام اورلایعنی رسوم کامجموعہ ہو،اسے کوئی غیرہندوکس طرح قبول کرے۔یہ وہ لاینحل مسئلہ ہے جوآج کل مودی سرکارمیں ہندوستان کے ان تمام باشندوں کیلئے سوہانِ روح بن گیا ہے جو ہندودھرم پرایمان نہیں رکھتے،اس صورتحال سے بھارت کے عیسائی،پارسی،بدھ مت کے ماننے والے،کیمونسٹ حتی کہ دہریے بھی پریشان ہیں۔اس صورتحال کامحرک ہندوں کاروحانی گرومدھویوسداشیوگولواکرہے۔اس نے مودی سرکارکی شہہ پاکراپنانعرہ ہندوراشٹرابڑی تیزی سے بلندکیاہے۔وہ ڈنکے کی چوٹ پراعلان کررہاہے کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام غیرہندواپنی جان کی امان چاہتے ہیں توہندودھرم اورہندوبودوباش اختیارکرلیں بصورت دیگران کی زندگی ہلاکت کی زد میں رہے گی۔مدھویوسراشیومدت سے ہندودھرم کاپرچارکررہاہے۔وہ تمام مسلمانوں،عیسائیوں،بدھوں،پارسیوں حتی دہریوں کوبھی تاکید کررہاہے کہ ہندوراشٹرکا فلسفہ قبول کرلو کیونکہ ہندوفلسفہ قومیت کی بنیادہے۔
بھارت کے کمیونسٹ ہندوتراشٹراکے فلسفے پرتعجب کااظہارکررہے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں کہ اگرمذہب ہی قومیت کی بنیادمان لیا جائے توپھربھارت اورنیپال دونوں ملک ایک ہی دھرم کوماننے والے ہیں،یہ دونوں آپس میں ضم ہوکرایک قوم کیوں نہیں بن جاتے ۔برمااورسری لنکایکساں نوعیت کاایک ہی دستوراختیار کیوں نہیں کرتے؟ اکثرپڑھے لکھے تعصب سے ماورا لوگ ہندودھرم کے تضادات پرحیرت کااظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پروفیسرڈی این جھا،پروفیسرآرایس شرما،رومیلاتھاپراورڈی سی کوسمبی نے مستندتاریخی حوالوں سے لکھاہے کہ ہندوستان کے قدیم برہمن گائے کاگوشت کھایاکرتے تھے جبکہ نیپال کے ہندوتوآج بھی ہرقسم کی خوشی کی تقاریب میں بیل کے گوشت کاپکوان پکاتے ہیں۔ اس صورتحال میں گاؤکشی کے نام پرمسلمانوں کوکیوں قتل کردیاجاتا ہے؟
ہندودھرم کاایک اہم اثاثہ ویدہیں لیکن اس کے متن میں یکسانیت نہیں ہے۔گاندھی اپنی روزانہ کی دعائیہ مجلس میں قرآن کریم،انجیل اورگیتاکے اسباق پڑھاکرتے تھے۔ہرچند ان کایہ عمل مذہبی سے زیادہ سیاسی تھاکیونکہ وہ ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کو ایک قوم بناناچاہتے تھے۔جسٹس دیپک دوااورمودی بھی گیتاپڑھتے ہیں۔احمدآبادکا شاعر احسان جعفری عالمگیرانسانیت پریقین رکھتا تھا،جواہر لال نہروکاپیروکارتھا۔اس نے زندگی بھرپیرا،گوتم بدھ اورگورونانک جیسے شخصیات کے محاسن پرنضمیں لکھیں لیکن گجرات میں مسلم کش فسادات کے ذمہ دار مودی کے چیلوں نے انہیں بھی نہیں بخشا۔اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اوراس کے گھرکے سارے اثاثہ کو جلاکرخاکسترکردیا۔اسی طرح احمدآبادہی کی ایک مغنیہ رسولاں بائی کاگھربھی جلادیا حالانکہ وہ ہرنغمے کی دھن سے پہلے رام اورکرشن کے نام کاپاٹھ پڑھاکرتی تھی۔
یہ آج کے بھارت کی وہ سرگرمیاں ہیں جنہوں نے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔شدھی یعنی مسلمانوں کوہندوبنانے،مسلمانوں کی بستیاں جلانے اوران کاخون بہانے کی تحریک ہندوستان میں بہت پہلے سے موجودتھی لیکن اب مودی حکومت میں یہ تحریک ایک وبااوربلائے بے اماں کی شکل اختیارکرچکی ہے۔آج خودبھارت میں ہر صاحبِ ضمیرشخص یہ سوال کر رہا ہے کہ کیااب بھارت کاسیکولرآئین اندھااورانسانی حقوق کاکاعالمی منشوراپاہج ہو گیاہے؟کیااب بھارت میں کسی مہذب انسان کواپنے افکارکے مطابق زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں؟
مودی سرکارکی منافقت کایہ عالم ہے کہ سادھوکے بھیس میں جب بھی کبھی امن کے اشلوک دہراتاہے توکوئی بھی یقین کرنے کو تیارنہیں ہوتا۔جنگی جنون میں مبتلامودی کئی مرتبہ یہ ایسے اکھنڈبھارت کانعرہ لگا چکاہے کہ بحرہندکے ساحل پربسنے والاہرملک اکھنڈبھارت کاحصہ ہے اوردوسری طرف ان کے سرپرست یہودی گریٹراسرائیل کے مبینہ نقشے کی سرحدیں بحرہندسے منسلک دکھائی گئی ہیں۔یہودوہنودکی درپردہ دوستی اب کھل کرسامنے آچکی ہے اورابھی حال ہی میں بھارتی ائیرفورس نے اسرائیل سے ہارڈ ویئر حاصل کرنے کے بعد”راکس”نامی نیم بیلسٹک میزائل کاتجربہ کیاہے۔ اسرائیل کی طرف سے تیار کردہ راکس سسٹم کی رینج250کلومیٹرہے اوراسے”ایس یو30ایم کے جیٹ”کے ذریعے لانچ کیاگیا ہے تاکہ پاکستان کے جوہری مقامات کونشانہ بنایاجا سکے۔
بھارتی خبررساں ادارے ”پرنٹ”کے ذریعے اس کی کامیابی کا اعلان کیاہے،جس کے بعدیقیناخطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا
آغاز ہوگیاہے۔اطلاعات کے مطابق یہ فضا سے زمین تک مارکرنے والاایٹمی میزائل ہے جس کواسرائیلی دفاعی ٹیک کمپنی رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹم نے ڈیزائن اوربنایاہے اوراس میزائل کی ٹیکنالوجی بھی ہندوستان کومنتقل کرنے کامعاہدہ ہواہے تاکہ ہندوستان اب اپنے ملک میں مزیدمیزائل بناسکے۔نئے میزائل نے بھارت کے پاکستان کے اہم انفراسٹرکچربشمول اس کی جوہری تنصیبات پرحملہ کرنے کے قابل ہونے کا خدشہ بڑھادیا ہے۔
یونیورسٹی آف البانی، یوایس اے سے ماہر تعلیم کرسٹوفر کلیری اورایم آئی ٹی سے وپن نارنگ نے2018میں خبردارکیاتھاکہ پاکستان کے پاس ٹیکٹیکل نیوکلیئرہتھیارہیں لیکن اس مفروضہ کاکوئی ثبوت آج تک مہیانہیں کیاجاسکا-یہ چھوٹے جوہری ہتھیار جوعین اہداف پراستعمال کیے جاسکتے ہیں،ہندوستان کو”سٹریٹجک فالج”میں ڈال سکتے ہیں۔پاکستان اوربھارت کے مابین” پہلے استعمال نہ کرنے”کی جوہری پالیسی توموجودہے لیکن بصورت جنگ میں پاکستان کے پاس ان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کی بنا پریہ صلاحیت موجودہے جو بڑے جوہری ہتھیاروں کی نسبت کہیں زیادہ تباہ کن ہیں جبکہ اب بھارت کو اسرائیلی میزائل”راکس”کے حصول کے بعدیہ صلاحیت حاصل ہوگئی ہے۔
کرسٹوفرکلیری اوروپن نارنگ کے اس بے بنیادمفروضے پرکیسے یقین کیاجائے جس کاآج تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا۔ ایسے ہی مفروضے پرعمل کرتے ہوئے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اوروہاں ڈیڑھ ملین افرادکواب تک موت کے گھاٹ اتاردیاگیاجبکہ اقوام متحدہ میں خودامریکی وزیرخارجہ کولن پاؤل نے شرمندگی کے ساتھ عراق پرناجائز حملے کی اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا لیکن ہزاروں سال پرمحیط تہذیب سے مالامال ملک کوتباہ کرکے اس کوصدیوں پیچھے دھکیل دیاگیا،اس عظیم نقصان کوکون پوراکرے گا؟
مارچ 2013میں،براؤن یونیورسٹی میں واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیزکے ذریعہ آج تک کی عراق جنگ کی کل لاگت کا تخمینہ1.77ٹریلین ڈالرلگایاگیاتھا۔دفاعی اور معاشی ماہرین کاکہناہے کہ امریکی معیشت پرجنگ کی کل لاگت2053تک سودکی شرح سمیت3ٹریلین ڈالرسے6ٹریلین ڈالرتک ہوگی،جیساکہ واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں بیان کیاگیاہے کہ” ستم ظریفی تویہ ہے کہ امریکی اوراتحادی افواج کی تسلیم شدہ غلطی کاتاوان نجانے کب تک عراقی تیل کی صورت میں وصول کیاجاتارہے گا”۔
غزہ فلسطین میں حالیہ اسرائیلی ظلم وستم ابھی ختم نہیں ہوئے کہ اسرائیل نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پرحملہ کرکے درجن سے زائدافراد کو شہیدکردیاجس کامقصدغزہ پرہونے والے جرائم پرپردہ ڈالنے اوراپنے مغویوں کی بازیابی پرناکامی اورشکست سے توجہ ہٹاتے ہوئے ایران کے جواب پرامریکااوراس کے اتحادیوں کوایک بڑی جنگ میں ملوث کرنامقصودتھا۔اس واقعے کے فوری بعدایرانی صدرکاپہلی اسلامی ایٹمی قوت کا تین دن دورے کوناکام بنانے کیلئے امریکاکاکھلی دہمکیاں دینا بھی اس سازش کاپتہ دیتاہے کہ ایسے موقع پرمودی کااسرائیل کے اشتراک سے میزائل کاتجربہ کرنایقینا شکوک شبہات بڑھادیتاہے کہ کہیں عراقی جنگ شروع کرنے کے بے بنیاد بہانے کواس خطے میں دہرانے کی سازش تونہیں بنائی گئی جس کے بعدیہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ”پہلے استعمال نہ کرنے”کی پالیسی کوہوامیں اڑاتے ہوئے یہ خوفناک کھیل شروع کر دیاجائے جس کیلئے اس خطے میں مودی جیسے مکارکواستعمال کرتے ہوئے کہیں عالمی جنگ کاطبل نہ بجادیاجائے۔ان خدشات کی بناپریقینامودی جیساجنونی اب دنیا کیلئے ایک ایساخطرہ بن گیاہے کہ دنیاکے امن کیلئے اس کامداواازحدضروری ہوگیاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں