میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ حکومت میں نئی ملازمتوں کی دیگ پکنے لگی!

سندھ حکومت میں نئی ملازمتوں کی دیگ پکنے لگی!

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭فارمولے کے مطابق40فیصد نوکریاں بلاول ہاﺅس 30فیصد نوکریاں فریال تالپر
اور بقیہ30فیصد نوکریاں پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی کو دی جائیں گی
تحریر: عقیل احمد راجپوت
حکومت سندھ کا یہ المیہ رہا ہے کہ اس نے جب بھی نئی ملازمتیں دی ہیں، اس میں میرٹ کی دھجیاں اڑادی ہیں اور اب یہ بات طے ہوگئی ہے کہ پیپلزپارٹی اور میرٹ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ پی پی کے دور میں نئی ملازمتوں کی دیگ پکتی ہے اور پھر اس دیگ کے نرخ لگتے ہیں اور جو زیادہ نرخ دیتا ہے اس کو دیگ سے اتنا ہی حصہ ملتا ہے۔ یہی نہیں مسلم لیگ کی حکومت آتی ہے وہ بھی پی پی سے دو ہاتھ آگے نکل جاتی ہے۔
رواں مالی سال کے دوران حکومت سندھ نے اعلان کیا تھا کہ وہ93ہزار810نئی ملازمتیں دے گی جس کا واضح مطلب تھا کہ اربوں روپے کمانے کا منصوبہ تیار ہے۔ سب سے پہلے جب پولیس کی بھرتیاں ہوئیں تو پولیس کا گاڈفادر کہلانے والے انور مجید نے پہلے مرحلے میں 12ہزار پولیس اہلکاروں کے لیے ایک فہرست آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو دی۔ آئی جی سندھ پولیس براہ راست انکار بھی نہیں کرسکتے تھے، انہوں نے اپیکس کمیٹی کو موقع غنیمت جان کر تجویز پیش کردی کہ جناب کراچی سمیت صوبہ بھر میں امن وامان بہتر ہے پہلے جب امن ومان کی صورتحال خراب ہوتی تھی تو اس میں ایک عنصر یہ بھی تھا کہ پولیس کو سیاسی بنادیاگیا‘ سیاسی لوگوں نے پولیس اہلکار بھرتی کرالیے پھر وہی پولیس اہلکار اپنے بھرتی کرانے والے سیاسی رہنماﺅں کے غلام بن کر رہ گئے۔ اس لئے نئی مثال قائم کی جائے اور پولیس کی بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ ہر ضلع میں ایک ایس ایس پی اور ایک فوج کا میجر مل کر پولیس کی بھرتیاں کریں تاکہ صاف شفاف بھرتیاں ہوسکیں، اس تجویز کی سب نے واہ واہ کی۔ مگر جب بھرتیاں شروع ہوئیں تو انور مجید سیخ پا ہوگئے انہوں نے دیکھا کہ فی اہلکار 5لاکھ روپے رشوت دے تو بارہ ہزار اہلکاروں کی بھرتی پر6ارب روپے مل سکتے تھے لیکن یہ چھ ارب روپے آئی جی سندھ پولیس کے ایک فیصلے سے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اس بات سے انور مجید نے آئی جی سندھ سے دل میں بغض رکھا اور پھر یہ معاملہ اس حد تک چلاگیا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مجبوراً آئی جی سندھ پولیس کو جبری چھٹی پر بھیج دیا اور ان کی واپسی سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی پر ہوئی جو تاحال برقرار ہے۔
دوسرا چونکا دینے والا واقعہ یہ ہے کہ شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس آغا رفیق کی سابق صدر آصف علی زرداری سے40سال پرانی دوستی تھی ۔ اُن کے بطور جج مقدمات میں آصف زرداری سے تعلق نبھانے کے حوالے سے بہت سے کہانیاں زیرگردش رہی ہیں۔ ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین بھرتی کیاگیا توپولیس میں اے ایس آئی کی دو ہزار پوسٹیں آئیں۔ آغا رفیق نے تمام ممبران کو ایک کمرے میں بٹھاکر حلف لیا کہ اب ہم ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ۔یہ نوکری تو بونس کی ہے اب ہمیں اللہ تعالیٰ کی جانب جانا ہے اس لیے آخرت کو سنوارتے ہوئے میرٹ پر بھرتیاں کی جائے۔ آغا رفیق کو وزیراعلیٰ ہاﺅس‘ بلاول ہاﺅس‘ فریال تالپر سے فہرستیں ملیں اور اُنہوں نے ان فہرستوں کو ایک طرف رکھ کر میرٹ پر دو ہزار اے ایس آئی بھرتی کرلیے تو بھونچال آگیا۔ عمررسیدہ قائم علی شاہ بھی مشتعل ہوگئے اور آغا رفیق کو دھمکیاں دینے لگے کہ انہوں نے یہ فضول کی رٹ لگائی رکھی ہے کہ میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں۔ میرٹ کو چھوڑو جو فہرست بلاول ہاﺅس اور فریال تالپر نے دی ہے اس پر فوری عمل کرو اور نئی فہرست بناﺅ۔ آغا رفیق بھی غصہ میں آگئے اور وزیراعلیٰ ہاﺅس میں قائم علی شاہ کو کھری کھری سنادیں۔ آغا رفیق جیب سے استعفیٰ نکال کر قائم علی شاہ کو دے کر گھر چلے گئے حالانکہ ان کی پوسٹ چار سال کے لیے طے تھی اس عرصہ میں ان کو کوئی نہیں ہٹا سکتا تھا۔ لیکن آغا رفیق نے دیکھا کہ پی پی میرٹ کی کھلی دشمن بن گئی ہے کب تک وہ لڑتے رہیں گے، اس وقت آصف زرداری سے سارے تعلقات ایک طرف کرکے میرٹ والی لسٹ جاری کرکے ویب سائٹ پر رکھ دی اور پبلک سروس کمیشن کے دفتر کے باہر آویزاں کردی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے ایک سال تک اس فہرست پردستخط نہیں کیے بالآخر عدالتی حکم پر قائم علی شاہ کو زہر کا گھونٹ پینا پڑا اور اے ایس آئیزکو نوکری دینا پڑی۔
اب موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے نئی بھرتیوں کے لیے دیگ پکنے کے لیے رکھ دی ہے۔ اب بلاول ہاو¿س اور فریال تالپر کو گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنی فہرستیں بناکر دیں تاکہ نئی بھرتیوں میں پہلے ان کی فہرستوں کو ترجیح دی جاسکے۔ اب جو فارمولا طے ہوا ہے اس کے مطابق40فیصد نوکریاں بلاول ہاﺅس کو30فیصد نوکریاں فریال تالپر کو اور بقیہ30فیصد نوکریاں پی پی سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز کو دی جائیں گی اور یہ سب کام نہایت چابک دستی سے وزیراعلیٰ ہاﺅس میں شروع کردیا گیا ہے۔ انٹرویو کے لیے جو کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں ان کو محض ایک ڈراما سمجھادیاگیا ہے کہ وہ صرف خانہ پُری کے لیے انٹرویو کریں گے۔ اصل فہرست ان کو وزیراعلیٰ ہاﺅس سے دی جائے گی جس پر دستخط کریں گے تو حکومت سندھ ان سے راضی ہوجائے گی اور ان کو اس کام کے عوض انعام بھی دیا جائے گا۔ یوں میرٹ کو دفن کرکے نوکریاں دینے کی دیگ تیار کرلی گئی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں