میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سی آئی اے کا صدرٹرمپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بے نقاب

سی آئی اے کا صدرٹرمپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بے نقاب

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭ امریکی صدر ٹرمپ کو تقریب ِ حلف برداری سے قبل ہی 20جنوری کو قتل کرنے کی تیاریاں کی گئی تھیں
٭برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک سابق افسر سے ٹرمپ کے روسی ایجنٹ ہونے کی جعلی خبر تیار کرائی گئی
تحریر: ایڈمنڈو بر
سی آئی اے نے صدر ٹرمپ کو جنوری میں حلف برداری سے قبل ہی قتل کردینے کامنصوبہ بنایاتھا،اس منصوبے کے تحت یہ پروگرام بنا یا گیاتھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں میڈیا میں خبریں پھیلتے ہی ایک گھنٹے کے اندر اندر ہزاروں امریکی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں یورپ پہنچانا شروع کردی جائیں گی اور صدر اوباما کو مارشل لا کے تحت ملک پر حکمرانی کرتے رہنے کا جواز فراہم کردیاجائے گا۔سی آئی اے کی اس سازش کاانکشاف برطانیہ میں ایم آئی 6 کے ایک سابق افسر کی زیر ملکیت ایک سیکورٹی کمپنی نے کیا جس کے مطابق سی آئی اے کا خیال تھا کہ صدر ٹرمپ اپنی جنسی بے راہ روی کے واقعات کی وجہ سے روس کے ڈبل ایجنٹ کے ہاتھوں بلیک میل ہورہے ہیں ۔
خبر کے مطابق جب روس کی انٹیلی جنس نے سی آئی اے کی اس سازش کی اطلاع صدر پوٹن کو پہنچائی اور روس کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس ایس وی آر نے انھیں انتہائی سنگین صورت حال کے بارے میں متنبہ کیا تو روس کے محکمہ دفاع نے فوری طورپر فضائی دفاع کے سیکڑوں ایس400 سسٹمز کو اچانک فعال کردیاگیا جن کو بس ایک اشارے پر کام میں لایاجاسکتاتھا اور متعلقہ عملے کو حملے کے لیے بالکل تیار رہنے کا حکم دیدیاگیاتھا۔
اطلاعات کے مطابق روس کے صدر پوٹن کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے آگاہ کیاتھا کہ امریکا میں انتظامیہ کے بااثر حلقے نے 20 جنوری کو صدر پوٹن کے حلف اٹھانے سے قبل ہی ان کو قتل کرنے کی سازش تیار کی ہے اس سازش کے تحت قتل کی اس واردات کے بعد امریکی سی آئی اے اس قتل کا الزام روس پر عاید کرنے کی تیاری کررہی ہے ۔ جرمنی کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے ولی ویمر نے بھی اس کی یہ کہہ کر تصدیق کی کہ امریکا میں صدر ٹرمپ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے ایک مزاحمتی جدوجہد جاری ہے ،ولی ویمر کا کہناتھا کہ امریکا میں جو کچھ ہورہاہے وہ بالکل خانہ جنگی جیسی صورتحال کانقشہ پیش کررہاہے۔ اس صورت حال میں پوٹن کو فوری طورپر جنگی صورتحال کے احکام دینا پڑے اور روسی وزارت دفاع میں سنگین صورتحال پیداہوگئی۔ان احکامات کے ساتھ ہی ماسکو کی فضائی حدود میں واقع فورسز اور ایس اے ایم کمباٹ اسکواڈ کوفضائی دفاع کے جدید ترین ایس400 ٹرائمپ میزائل ڈیفنس سسٹم حوالے کردیے گئے اور انھیں ماسکو اور روس کے وسطی صنعتی علاقوں میں چوکس کردیاگیا۔
جرمنی کی وزارت دفاع کے ترجمان ویمر کی جانب سے دیے گئے بیان اور روس کی انٹیلی جنس ایجنسی ایس وی آر دونوں کی رپورٹوں سے امریکا میں پیداہونے والی متوقع سنگین صورتحال کی عکاسی ہوتی تھی۔یہ رپورٹ یہیں محدود نہیں رہی بلکہ عالمی پلٹزر انعام حاصل کرنے دفاعی تجزیہ کار گلین گرین ووڈ نے اس کے چند گھنٹے بعد ہی اپنے ایک مضمون” امریکا کی اعلیٰ انتظامیہ ٹرمپ کے ساتھ برسرپیکار “میں لکھاتھا کہ بعض غیر مصدقہ خبروں سے معلوم ہوتاہے کہ امریکا کی اعلیٰ انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مزاحمت کی منصوبہ بندی کررہی ہے جس کی وجہ سے ڈیموکریٹ حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔گلین گرین نے اپنے مضمون میں کھل کرلکھاتھا کہ امریکا کی اعلیٰ انتظامیہ اب کھل کر منتخب لیکن انتہائی غیر مقبول صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف آمادہ پیکار ہے ۔اس سے قبل جرمنی کے معروف صحافی ڈاکٹر اوڈو اولف کوٹ نے اپنے ایک مضمون میں متنبہ کیاتھاتھاکہ امریکا کا پورا معروف میڈیا سی آئی اے کے دباﺅ کے تحت کام کررہاہے۔ اس مضمون میں امریکا کی اعلیٰ انٹیلی جنس کے بارے میں بھی تفصیلی رپورٹ شامل تھی جس میں کہاگیاتھا کہ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش پر عمل شروع کردیاہے اور یہ کام ایک جعلی خبر کی بنیاد پر کیاجارہاہے جس میں یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ امریکا کا اگلا صدر روس کاپٹھو ہوگاجو روس کے صدر پوٹن کے اشارے پر کام کرے گا۔خیال کیاجاتاہے کہ یہ خبر برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی کے ایک سابق افسر کرسٹوفر اسٹیل نے تیار کی تھی اور اسے مکمل طورپر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تیار کی گئی تھی اور اسے خفیہ کانام دیاگیاتھا لیکن برطانیہ نے اسے کبھی بھی اپنے سرکاری طورپر خفیہ کاغذات اور دستاویزات میں شامل نہیں کیاتھا۔
وزارت دفاع کے ماہرین کاکہناہے کہ اس خبر کے وہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے سی آئی اے جس کی خواہاں تھی تاہم لاکھوں امریکی عوام نے اس جھوٹ کو سچ تصور کرلیاتھا۔امریکا کی انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدیداروں نے 2016 میں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ان کی جاسوسی کی اجازت بھی حاصل کرلی تھی ۔ اس رپورٹ میں کہاگیاتھا کہ ٹرمپ کے مخالفین امریکا کے وہ بائیں بازو کے عناصر نہیں ہیں جو ان کے خلاف اوباما اور کلنٹن انتظامیہ کی حمایت کررہے ہیں بلکہ خود ان کی ری پبلکن پارٹی میں بھی ان کے جارج سوروز جیسے کٹر مخالفین بھی موجود ہیں جنھیں امریکی سینیٹر جان مک کین فنڈز فراہم کرتے ہیں اور جنھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش تیار کیے جانے کے حوالے سے جھوٹی خبر گڑھنے اور اسے پھیلانے میں مدد دی تھی۔
وزارت دفاع کے ماہرین نے اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاتھا کہ امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر چک شومر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو سی آئی اے سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیاتھا۔ ان کاکہناتھا کہ سی آئی اے ان پر دوبارہ وار کرسکتی ہے۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے اس انتباہ کو یہ کہہ کر نظر انداز کردیاکہ یہ اندرونی سازشی سی آئی اے میں موجود جرمن نازیوں جیسے ہیںاور انھوں نے الیکشن میں بھی مداخلت اور اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
وزارت دفاع کے ماہرین کاکہناہے کہ اگرچہ سی آئی اے کے پاس بظاہر یہ صلاحیت موجودنہیں ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کراسکے اور اس کے بعد اس کاالزام روس پر عاید کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہے لیکن سی آئی اے کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے اور اس کاالزام روس پر عاید کرنے اور اس کے بعد مارشل لا کے تحت اوباما کو اقتدار پر فائز رہنے کاموقع فراہم کرنے کے حوالے سے اس رپورٹ کو قطعی غلط بھی قرار نہیں دیاجاسکتا۔
اپنی رپورٹ میں امریکی وزارت دفاع نے واضح طورپر ان فسادی عناصر کو متنبہ کیاہے کہ ہم اس طرح کی سازشوں کو امریکا کے لئے خطرہ اور ایسی کارروائی تصور کرتے ہیں جس سے ہماری ملکی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی واضح کیاگیاتھا کہ اگر انتظامیہ میں چھپ کر گھسے ہوئے یہ عناصر ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرانے کی سازش کو کامیاب بنانے میں کامیاب ہوجاتے تو روس کے پاس امریکا کو جہنم کانمونہ بنادینے کا اس سے بہتر کوئی موقع نہ ہوتا۔ان عالمی شیطان صفت مغربی عناصر کو ہمارے اس پورے ملک کو تباہ کرنے سے روکنے کیلئے فوری اور سخت اقدامات ضروری ہیں۔
اس مضمون کے مصنف کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ امریکی قانون کے تحت ملک کے کسی صدر یا منتخب صدر کو قتل کرنے کی سخت سزا مقررہے لیکن ہماری ریسرچ کے مطابق صدر ٹرمپ کو منتخب ہونے کے بعد ٹوئٹر پرقتل کی 1800 دھمکیاں دی گئیں لیکن اس پر کسی ایک فرو کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، مصنف سوال کرتاہے کہ کیا کوئی بتاسکتاہے کہ ایسا کیوں ہوا اور منتخب صدر کو قتل کی دھمکیاں دینے والا کوئی ایک شخص بھی گرفت میں کیوں نہیں لایاجاسکا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں