رائٹ سائزنگ کے دعوے اور حقائق
شیئر کریں
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرنے جا رہے ہیں، وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ایسی خالی اسامیاں جن پر ابھی بھرتیاں نہیں ہوئی تھیں، ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا گیا، جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے، اب ان اسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی جائیں گی۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ رائٹ سائزنگ آئی ایم ایف کا اسٹرکچرل بینچ مارک ہے، ہماری کوشش ہے معیشت کو پائیدار ترقی کی جانب لے کر جائیں، ٹیکس نظام میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات دسمبر سے جاری ہیں، معاشی ترقی کے لے نجی شعبے کو کردار نبھانا ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی وزارتوں کے 80 اداروں کی تعداد کم کرکے 40 کردی گئی، یعنی نصف ادارے ختم ہوگئے، ان میں سے کچھ اداروں کو ضم کیا گیا ہے، 2 وزارتوں کو ضم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، کامرس ڈویژن، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور نیشنل فوڈ سیکورٹی کے 60 ذیلی اداروں میں سے 25 کو ختم، 20 میں کمی اور 9 کو ضم کیا جائے گا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ خدمات سے متعلق اسامیوں کو آؤٹ سورس کر رہے ہیں، حکومت رائٹ سائزنگ کرکے سرکاری اداروں کی استعداد کار بڑھانا چاہ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام پالیسیاں بنانا ہے، روزگار دینا نجی شعبے کا کام ہے، نجی شعبے کو ملکی معیشت کو سنبھالنا ہوگا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ الحمد للہ معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، اہداف درست سمت میں جارہے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ ہم سے بہت ٹیکس لے رہے ہیں، تو پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے، آپ اپنے اخراجات کیوں کم نہیں کرتے؟ یہ بہت اچھا سوال ہے، اسی سلسلے میں وزیراعظم نے میری سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی میں حکومت، اتحادی جماعتوں، سرکاری افسران اور بزنس کمیونٹی کے نمائندے شامل ہیں، کمیٹی کے ٹی او آرز طے کرلیے گئے تھے، جن کے مطابق بنیادی مقصد حکومتی اخراجات میں کمی لانا تھا، یہ عوام کا پیسہ ہے اور حکومت کے اخراجات میں کمی ضرور ہونی چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس دوران یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا یہ اقدام وفاقی حکومت کو کرنا چاہیے یا اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبوں کو دی جائے یا پھر اسے نجی شعبے کے حوالے کیا جائے؟انہوں نے کہا کہ وفاق کے پاس 43 وزارتیں، ان کے 400 ذیلی ادارے ہیں، ان سب کے لیے 900 ارب روپے کا خرچہ کیا جاتا ہے، ابھی اس پر کام جاری ہے کہ اس خرچے کو کیسے کم کرنا ہے، عوام کا پیسہ بچانے کے لیے ہم قدم اٹھا چکے ہیں۔ہمارے ان فیصلوں کے اثرات آئندہ مالی سال میں دکھائی دیں گے، اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ان وزارتوں اور اداروں کے اخراجات کس طرح مزید کم کیے جائیں، اخراجات کم رکھنا اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا حکومت کے لیے اہم ہے۔ نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہو گی اور سب اکانومی کلاس میں سفر کریں گے۔وزارت خزانہ کے سابق ترجمان ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق یہ بچت ترقیاتی بجٹ کی صورت میں ہو گی یعنی ان وزارتوں اور محکموں کو ختم کر دیا گیا تو پھر ان کے لیے ترقیاتی بجٹ نہیں مختص کرنا پڑے گا۔
سرکاری اخراجات میں کمی کیلئے وفاقی وزارتوں اور اداروں کو ختم کرنے کے فیصلے کو ایک اچھا فیصلہ کہاجاسکتاہے ،لیکن حکومت نے اخراجات میں کمی کیلئے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اسے دیکھ کر کوئی اوسط سوجھ بوجھ رکھنے والا فرد بھی یہ کہہ سکتاہے کہ اخراجات میں کمی کی یہ کوششیں عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں ہیں ،اگر حکومت واقعی سرکاری اخراجات میں کمی کرنے میں مخلص ہوتی تو اسے نہ تو 18 ویں ترمیم کے پیچھے چھپنے کی ضرورت پڑتی نہ ہی کسی متوقع طورپر متاثر ہونے والے وزیر سے کوئی رائے لینے کی ضرورت ہوتی ،تمام وزارتوں کی کارکردگی کھلی کتاب کی طرح حکومت کے سامنے ہے ان وزارتوں کی کارکردگی دیکھ کر ہی ان کی ضرورت اور افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،کمیٹی میں متعلقہ وزرا اور ان کے اہلکاروں کو بلاکر ان کی رائے لینے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی،اخراجات میں کٹوتی نہ کرنے کے حوالے سے حکومت کی نیت کا اندازہ حال ہی میں ارکان اسمبلی ،جج حضرات اور دیگر شعبوں کے سربراہوں کی تنخواہوں اور اجرتو ں میں ہوشربا اضافے سے ہی اچھی طرح لگایاجاسکتاہے،اگر حکومت عوام کے خون پسینے کی کمائی بیدردی سے لٹانے کے بجائے عوام کی خدمت پر ہی لگانے میں مخلص ہوتی تو کم ازم ارکان اسمبلی اور سینیٹ کی تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافے کی کبھی منظوری نہ دیتی ،حکومت کی ان کارروائیوں سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت ارکان اسمبلی،سینیٹ اور جج صاحبان کو تنخواہوں میں بے پناہ اضافے کی صورت میں ان کو رشوت دے رہی ہے تاکہ انھیں اس حکومت کے خلاف بولنے اور ارباب اختیار کی کسی بات سے انحراف کا حوصلہ نہ ہو۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ موجودہ نظام کے تحت کسی کو بھی اسمبلی یا سینیٹ رکن بننے کیلئے دونوں ہاتھوں سے پیسہ لٹانا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ عام بے وسیلہ فرد اسمبلی کا امیدوار بننے کو سوچ بھی نہیں سکتا۔عام اور کم وسیلہ لوگوں کی اجرتوں میں اضافہ کرنے سے گریز اور ارکان اسمبلی کے مشاہرے میں یکمشت لاکھوں روپے کے اضافے کی منظوری سے یہ ظاہرہوتاہے کہ ارباب اختیار کو یہ یقین ہوگیاہے کہ ان کی جبر کی یہ حکومت پائیدار نہیں ہے اس لئے وہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کی کوشش میں ہیں ،ایک ایسے وقت جبکہ پاکستان طرف آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پارٹنرز ممالک سے قرضوں میں نرمی اور مزید قرضوں کی درخواست کر رہا ہے تو ایسے میں کہیں زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آگے ملک کو معاشی استحکام کے رستے پر ڈالا جا سکے نہ کہ اپنی تنخواہوں او ر مراعات میں اضافہ کرکے اور نت نئی گاڑیاں خرید کر قرض کی رقم ملنے سے پہلے ہی اسے غتربود کرنے کوشش کی جائے۔پاکستان چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اپنے قرضوں میں مزید مہلت کی درخواست کر رہا ہے تاکہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر کے7 ارب ڈالر حاصل کر سکے،لیکن ارباب اختیار اپنی مراعات میں کوئی کمی کرنے کو تیار نہیں ہے ،کہنے کو مسلم لیگ ن،متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی میں اختلافات موجود ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک سے زیادہ مرتبہ حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکیاں دے چکے ہیں لیکن سرکاری خزانے کی لوٹ میں سب برابر کے شریک ہیں اور کسی بھی سیاستداں نے اپنے معاوضے میں ہوشربا اضافے کی مخالفت نہیں کی اور انتہائی خاموشی کے ساتھ اضافی رقم کی وصولی شروع کردی ، وزیرخزانہ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ اخراجات میں کٹوٹی کا فیصلہ سیاسی اتفاق رائے کے بعد وفاقی کابینہ کی منظوری سے ہی ممکن ہو سکے گا لیکن اگر ارکان اسمبلی اور وزرا کی تنخواہوں میں اضافہ کا فیصلہ اتنی آسانی کے ساتھ ایک ہی نشست میں ہوسکتاہے تو پھر اخراجات میں کٹوتی کے فیصلے کی منظوری کی راہ میں یہ رکاوٹیں کیوں؟وزیرخزانہ کے مطابق سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے متعدد بار اصلاحات کا یہ ایجنڈا آگے نہیں بڑھ سکا۔حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی اصلاحاتی کمیٹی کے رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور نے گذشتہ برس اگست میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ پیپلز پارٹی نے حکومت سے یہ کہا ہے کہ مزید وزارتوں اور محکموں میں چھیڑ چھاڑ سے قبل ان 17 وزارتوں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے جنھیں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کیا جانا تھا۔ان کے مطابق حکومت نے اب جو پلان دیا ہے اس کے تحت تو تمام وزارتوں اور ان کے متعدد محکموں کو مرحلہ وار ختم کرنا ہوگا۔ ہائی پاور کمیٹی فار رائٹ سائزنگ کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ اس میں پیپلز پارٹی اور نجی شعبے سے صرف ایک ایک رکن ہیں جبکہ باقی سب ن لیگ کے نمائندے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن جو چاہے گی وہی ہوگا ۔ وزیر اعظم شہباز شریف اوروزیر خزانہ محمد اورنگزیب سول سروس ایکٹ میں تبدیلی بھی چاہتے ہیں اور متعدد ملازمین کو گھر بھیجنے کے بھی خواہاں ہیں،جبکہ وزرا اور ارکان اسمبلی کو دی جانے والی بھاری تنخواہیں اور مراعت کم کردی جائیں یا خود کو عوامی نمائندہ کہتے نہ تھکنے والے ارکان اسمبلی بلا معاوضہ خدمات انجام دینے پر تیار ہوجائیں اور بیوروکریسی کو دی جانے والی تمام مراعات ختم کرکے ان کی تنخواہوں میں 50 فیصد بھی کٹوتی کردی جائے تو کسی کم تنخواہ کے ملازم کے گھر کا چولھا ٹھنڈا کرنے کیلئے اسے گھر بھیجنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ حکومت رائٹ سائزنگ کے نام پر آج جس منصوبے پر عمل کرنا چاہتی ہے یہ اصلاحات 14 برس قبل اس وقت ہو جانی چاہیے تھیں جب ملک کی پارلیمنٹ نے آئین میں 18ویں ترمیم کی منظوری دی تھی۔دراصل منصوبہ بندی کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق کا یہ کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ موجودہ حکمرانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ باتیں کرنے کے بعد بھول جاتے ہیں اور اب بھی رائٹ سائزنگ کے بارے جس طرح کی تاویلیں پیش کی جارہی ہیں ان سے ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت یہ اصلاحات نہیں کر سکے گی۔ حکمرانوں کیلئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ انتہائی بودی بیساکھیوں پر کھڑی ہے جس کی وجہ سے اس حکومت کو کھڑا رہنے میں مدد دینے کیلئے پارلیمنٹ تک پہنچنے والے سب وزارتیں بھی چاہتے ہیں اور پھر سیاسی بنیادوں پر نوکریاں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ رائٹ سائزنگ کی صورت میں لوگوں کو ملازمتیں دینے کے بجائے ان کو فارغ کرنا پڑے گا ،جس کے واضح معنی یہ ہوں گے کہ کوئی بھی رکن پارلیمنٹ اپنے حلقے کے نوجوانوں کو ملازمتوں کا جھانسہ دے کر ان کا استحصال نہیں کرسکے گا ،وزیرخزانہ محمد اورنگزیب برملا یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ جب تک غیر ضروری طور پر بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین کو گھر نہیں بھیجا جاتا تو ان اصلاحات کا زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔جبکہ وزیر خزانہ کی اس رائے کے مطابق جہاں وزارتیں ختم کرنا انتہائی ضروری ہے وہاں وزارتیں ختم کرنے کے بجائے چہیتوں کو نوکریوں سے نوازنے کی راہ نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق کسی بھی سرکاری ادارے کے ایک چپڑاسی پر کم وبیش ڈھائی کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں اور اس کے اوپر والے ملازمین کا خرچہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اس وقت ‘اسلام آباد میں 150 ٹریننگ اکیڈمیاں ہیں، جن کی اپنی عمارتیں اور ملازمین کی رہائش گاہیں ہیں جبکہ یہ کام یونیورسٹیاں بہت احسن طریقے سے انجام دے سکتی ہے جو کام آسانی سے یونیورسٹیوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اس کے لیے اس قدر اخراجات بڑھا دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے اداروں کا قیام نوکریاں بانٹنے کا بہانہ ہوتا ہے۔ایک عام آدمی بھی جانتاہے کہ حکومت بہت زیادہ رقم الاؤنسز کی شکل میں دیتی ہے۔لیکن ارباب حکومت اس میں کسی طرح کی کٹوتی کرتے ہوئے اس لئے گھبراتے ہیں کہ وہ خود بودی بیساکھیوں پر کھڑے ہیں اور کسی بھی رکن اسمبلی کی ناراضگی کاخطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔