میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تخریب کاری کے واقعات اور انتخابات

تخریب کاری کے واقعات اور انتخابات

جرات ڈیسک
جمعرات, ۹ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان میں ایک دفعہ پھر پرتشدد واقعات شروع ہوگئے ہیں، گزشتہ 72 سے بھی کم گھنٹوں میں خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں 4 تباہ کن حملے ہوئے۔ ان المناک واقعات میں تقریباً 50 افراد زندگی کی بازی ہار گئے، جن میں زیادہ تر سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بلوچستان کے علاقے گوادر میں سیکورٹی فورسز کی 2 گاڑیوں پر بے رحمانہ گھات لگا کر حملے کیے گئے، جس کے نتیجے میں 14 فوجی جوان شہید ہوئے، جو کہ فوج پر اس سال کا سب سے مہلک حملہ ہے۔اس کے ساتھ ہی لکی مروت میں فوجی آپریشن کے دوران 2 فوجی اہلکار شہید ہوگئے، جب ملک ان تکلیف دہ واقعات سے دوچار تھا، میانوالی میں فضائیہ کے تربیتی اڈے پر فجر سے پہلے حملہ کیا گیا، خوش قسمتی سے پاک فوج نے دراندازی کو کامیابی سے پسپا کرتے ہوئے، 9 دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا،اس بظاہر منظم حملے کے نتیجے میں خوش قسمتی سے تخریب کار کوئی بڑا نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے صرف ایک ایندھن کے ٹینکر اور 3 گراؤنڈ کئے گئے طیاروں کو نقصان پہنچا۔ ان واقعات میں مجموعی طور پر 17 فوجیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔میانوالی ایئربیس پر حملے کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نامی ایک غیرمعروف تنظیم نے قبول کرنے کا دعویٰ کیاہے، البتہ مخمصے کا باعث بننے والی بات یہ ہے کہ ملک بھرمیں یکے بعد دیگرے شروع ہونے والے ان واقعات کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول نہیں کی بلکہ ایک غیرمرئی تنظیم جس کے وجود اور قیام تک کاکوئی ایک بھی ثبوت نہیں ان کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔ قبل ازیں بھی تحریک جہاد پاکستان دہشت گردی کے مختلف واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے جس کے بارے میں مبصرین کا خیال ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان سے ہی جڑے لوگ ہوسکتے ہیں اور اسی تنظیم کا دوسرا نام ہو سکتا ہے۔ طالبان جن حملوں کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے وہ اس تنظیم کے نام سے قبول کرا لیتے ہیں کیونکہ نہ صرف اس خطے میں بلکہ ارد گرد کے کسی دوسرے ملک میں اس طرح کی کسی دوسری تنظیم کے وجود کے آثار نظر نہیں آتے اور ان علاقوں میں جس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہ طریقہ بھی ٹی ٹی پی سے ہی ملتا جلتا ہے۔ خیال کیاجاتاہے کہ یہ تنظیم ٹی ٹی پی سے منسلک یا ٹی ٹی پی سے اختلاف کی بنیاد رپر اس سے الگ ہونے والی تنظیم ہے یا پھر ٹی ٹی پی ہی نے بعض واقعات کی ذمہ داری خود قبول کرنے کے بجائے اس پر ڈالنے کیلئے اس نام کی تنظیم بنادی ہے جبکہ تخریب کاری کی منصوبہ بندی ٹی ٹی پی ہی کرتی ہے۔اس تنظیم کے حملوں کی ذمہ داری سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کا کوئی ہمدرد گروپ ہے یا اس کا کوئی خفیہ منصوبہ ہے۔مثلا اس نے اب تک صوبہ خیبر پختوانخوا کے ضلع لکی مروت اور بلوچستان کے ژوب ڈویژن میں دو بڑے حملوں کا دعوی کیا جہاں پر تحریک طالبان کا آپریشنل نیٹ ورک موجود ہے مگر تحریک طالبان نے اس تنظیم یا اس کی کارروائیوں پر کسی تشویش یا ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ بہرحال مستبقل قریب میں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ تحریک جہاد پاکستان کی حقیقت کیا ہے منظم دہشت گردی انہی عناصر ہی کی کارستانی ہے جو ایک عرصے سے برسرپیکار ہیں اور بدقسمتی سے ہمسایہ ملک افغانستان سے ان کی ڈور ہلائی جاتی ہیں اور ہدایات دی جاتی ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی رجحان ہے،لیکن الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی پے درپے اس طرح کی وارداتیں معنی خیز ہیں کا لعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی)کی جانب سے گزشتہ برس نومبر میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان میں خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں اور اوباڑہ اور پسنی میں دہشتگردی کے بعد میانوالی ٹریننگ ایئر بیس پرو دہشت گردوں کے حملے سے اس امر کاواضح اظہار ہوتا ہے کہ دشمن ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کھل کر سامنے آیا ہے جس کا مقصد وطن عزیز میں خوف کی فضاپیدا کرنا اور خدانخواستہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے ملک میں جاری صورتحال اور کابل سے تندو تیز بیانات کی روشنی میں صورتحال کو دیکھنے کی طرف متوجہ ہونا فطری امر ہے۔ سوشل میڈیاایکس(سابقہ ٹوئیٹر)پراس ناکام حملے کے بعدجواشارے سامنے آرہے ہیں ان کے حوالے سے کہاجارہاہے کہ اس حملے کے بارے میں ”ایکس”پر اس حملے سے پہلے ہی اس قسم کے اشارے دیئے جارہے تھے کہ ”پاکستان میں کچھ بڑاہونے والاہے”،حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ناکام حملے کے بعدہی دہشتگردوں کے حملوں کی نئی لہرکیساتھ سوشل میڈیاپاکستان مخالف مہم بھی شروع ہوگئی ہے، 3 نومبر کو پسنی میں فورسزکے قافلے پرحملہ میں 14فوجی جوان شہیدہوئے،4نومبرکومیانوالی ائربیس پردہشتگردوں کے ناکام حملے کیساتھ ہی سوشل میڈیا پرپاکستان مخالف مہم پوسٹوں کاسیلاب امڈآیا،بھارتی خفیہ ایجنسی ”را”سے جڑے ایکس اکاؤنٹس نے میانوالی حملے سے پہلے ہی اشارہ دے دیاتھاکہ ”کچھ بڑاہونے والاہے”ماہرین کاکہناہے کہ سوشل میڈیاپرپیشگی آنے والی پوسٹس اشارہ کرتی ہیں کہ دہشتگردوں اور ”را“کا کوئی نہ کوئی گٹھ جوڑہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کومل بیٹھ کرامن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کوقابومیں لانے اوردہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک جامع پالیسی مرتب کرنی چاہیئے،قطع نظر اس بحث کے صورتحال سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر دہشت گردوں کی جانب سے منظم طریقے سے دہشت گردی کے منصوبے بنائے گئے ہیں جن میں سے کچھ پر عملدرآمد بھی سامنے آیا ہے جس کے تناظر میں ان خدشات کا اظہار بے جا نہیں کہ اس لہر میں ممکنہ طور پر کچھ دیگر وارداتوں کی بھی کوشش ہوسکتی ہے جس کیلئے پوری طرح تیار رہنے اور ملک بھر میں ایک بار پھر حفاظتی اقدامات کو دہشت گردی کی بدترین لہر کے دوران اختیار کئے گئے حفاظتی اقدامات کی سطح تک لے جانے کی ضرورت ہے انتخابی عمل ک لئے پولنگ کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے 3 صوبوں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ کچھ طاقتیں پاکستان میں جمہوری عمل کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے یہ خدشات ظاہر کئے جارہے تھے کہ جونہی ملک میں عام انتخابات کے لئے حتمی تاریخ کا اعلان ہوگا دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ بعض تجزیہ نگار طویل عرصہ سے کالعدم ٹی ٹی پی کے اس اعلامیہ کی طرف متوجہ کرتے آرہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں شرعی نظام کے نفاذ کیلئے ضروری ہے کہ شریعت سے متصادم جمہوری عمل اور نظام کے خلاف کھلی جنگ کی جائے۔ گو کہ رواں برس جولائی میں ہی کالعدم ٹی ٹی پی نے اس اعلامیہ کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد عام لوگوں کو نشانہ بنانا نہیں لیکن عملی طور پر یہ ثابت ہوا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر مسلح تنظیمیں سیکورٹی فورسز، دفاعی تنصیبات، حساس مقامات اور شہریوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھے
ہوئے ہیں وضاحتی بیان صرف عوام کو گمراہ کرنے کیلئے جاری کیا گیا۔ یہ امر بجا طور پر غور طلب ہے کہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے اگلے 24سے 48 گھنٹوں کے دوران دہشت گردی کی سنگین وارداتوں کو انتخابی عمل کے خلاف جنگ کا آغاز کیسے نہ سمجھا جائے؟ بظاہر ان خدشات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی کالعدم عسکری تنظیموں کے دہشت گرد ملک میں بدامنی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔
اس صورت حال میں یہ بہت ضروری ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کا تجزیہ اور تحقیقات کے عمل میں تمام پہلوؤں کو بطور خاص مدنظر رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد شروع ہونے والی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے پائے۔ اس امر پر دو آراۂرگز نہیں کہ مختلف الخیال دہشت گرد گروپس میں کم از کم اس امر پر اتفاق ہے کہ ملک میں بدامنی کو بطور خاص بڑھاوا دیا جائے تاکہ ایک طرف امن و امان متاثر ہو دوسری جانب تعمیروترقی کے اہداف کے حصول کی رفتار سست رہے اور یہ بھی کہ عوام اور ریاست کے درمیان بداعتمادی کی خلیج وسیع ہو تاکہ ان دہشت گردوں کے ہم خیال عناصر اس بڑھتی ہوئی بداعتمادی سے فائدہ اٹھاسکیں۔ گزشتہ 60 گھنٹوں میں دہشت گردی کے جو4 واقعات رونماء ہوئے ان کی سنگینی اور رونما ہونے کے وقت ہر دو کو بہرصورت مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے خیال میں اس خدشے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ دہشت گردوں کے مختلف گروپ ملک میں بدامنی کو ہوا دے کر اپنے بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے کو ااگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ دہشت گرد اور ان کے بیرونی آقا پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام کو اپنے مذموم عزائم میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس خدشے کا بھی کئی ماہ سے اظہار کیا جارہا تھا کہ جونہی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا دہشت گرد ملکی سلامتی امن اور سکیورٹی فورسز و عوام پر حملہ آور ہوں گے۔ حالیہ چار واقعات نے نہ صرف ان خدشات کے درست ہونے کی تصدیق کر دی ہے،اس صورت حال میں یہ انتہائی ضروری ہوگیاہے کہ ان حالات میں حکومت سیکورٹی فورسز دوسرے اداروں اور سیاسی جماعتوں سب کو متحد ہوکر امن و جمہوریت اور پاکستان کے خلاف سرگرم عمل بداطوار دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کی سازشوں کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھنی چاہیے۔ وفاقی او صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ حساس مقامات کی حفاظت کیلئے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائیں۔جس کی بنیادی وجوہات اور مظاہر کو حل کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔مذہبی انتہا پسندی کے مشترکہ گروہ کے خلاف ٹھوس کارروائی کے بغیر ملک دہشت گرد حملوں کا شکار رہے گا۔ریاست کے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی اور آئی ایس کے پی جیسے گروپ ان افراد کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں جن کا شدت پسندانہ رجحان ہے۔ یہ نظریاتی کھنچاؤ لوگوں کو اپنے ارد گرد کی دنیا کی ترجمانی کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ اس لیے حکمت عملی میں نہ صرف طاقت کا استعمال شامل ہونا چاہیے بلکہ بات چیت، ترقی، جمہوریت کو بھی فروغ دینا چاہیے۔متنوع مذہبی عقائد، فرقوں اور نظریات کے درمیان سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ایسا کرنے میں ناکامی ٹی ٹی پی کو، جو کہ بنیادی طور پر مختلف انتہا پسند گروپوں کے لیے ایک چھتری کے طور پر کام کرتی ہے، مستقبل میں مختلف ناموں اور علامتوں کے تحت دوبارہ
سر اٹھانے کی اجازت دے سکتی ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد اور اہداف کے حصول کیلئے ان کی کارروائیوں کی روک تھام کیلئے موثر حکمت عملی وضع کی جائے یہی نہیں بلکہ ملک کے اندر ان کالعدم تنظیموں کے ہم خیالوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے تاکہ آنے والے دنوں میں ایسے افسوسناک واقعات نہ ہونے پائیں۔ اب جبکہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگیاہے تو حکومت اور معاون ماتحت محکموں و اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انتخابات کے التواکیلئے کی جانے والی ہر سازش ناکام بنادی جائے انتخابات ممکنہ حد تک صاف شفاف اور منصفانہ انداز میں کرائے جائیں انتخابی مہم کے دوران کسی بھی سیاسی جماعت پر کوئی غیر ضروری قدغن نہ لگائی جائے اور کسی بھی جماعت کو غیر ضروری سہولتیں اورمراعات دینے سے گریز کیاجائے تاکہ عوام مقررہ وقت پرپوری آزادی کے ساتھ اپنی قیادت کا آزادانہ طور پر انتخاب کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں