میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا کے ساتھ دوٹوک موقف اختیار کرنے کی ضرورت

امریکا کے ساتھ دوٹوک موقف اختیار کرنے کی ضرورت

منتظم
بدھ, ۹ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیرخارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہم نے اتحادی بن کر بہت زیادہ نقصان اٹھایا اگر امریکا کو ہم پر یقین نہیں تو افغان مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کرے لیکن اپنی 16 سالہ ناکامی کا ملبہ پاکستان پر نہ ڈالے۔ وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر کے بیان کو یکسر مسترد کیا ہے جب کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر افغانستان کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات اور اس کے بعدافغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کے اشتعال انگیز بیانات کے جواب میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کے اس جواب کو انتہائی مدبرانہ ہی قرار دیاجاسکتاہے،خواجہ آصف کا یہ کہنا اپنی جگہ بہت درست اور پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان نے امریکا کے اتحادی کی حیثیت سے بہت نقصان اٹھایا ہے ، اگر پاکستان افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ نہ دیتا توپاکستان کو دہشت گردی کے عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑتااور پاکستان کو اتنی بھاری قیمت ادا نہ کرناپڑتی۔افغان جنگ میں امریکا کاساتھ دینے کے سبب پاکستان کو کس نازک اور خطرناک صورت حال کاسامنا کرنا پڑاہے اس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ آج پاکستان کے 2 لاکھ فوجی دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں ہمارے ہزاروں فوجی جوانوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے، لاکھوں پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اس جنگ میں پاکستان کی معیشت کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہواہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکی صدر پاکستان کی اس قربانیوں کااعتراف کرتے ہوئے پاکستان کو امریکا کے قریب ترین اور بااعتماد دوستوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے پاکستان کو اس عرصے کے دوران دی جانے والی امداد کو گرانٹ میں تبدیل کرکے معاف کردیتے لیکن اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے ازلی دشمن بھارت کی پیٹھ تھپکتے ہوئے پاکستان پر بے بنیاد الزام عاید کرتے ہوئے پاکستان کی امداد روکنے کی دھمکی بھی دیدی یہی نہیں بلکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے بہانے حملے کرنے کی دھمکیاں بھی دینا شروع کردیں ، ٹرمپ کے اس بیان کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کاالزام عاید کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے اور پاک فوج باقاعدہ اعلان کرچکی ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقے سے دہشت گردی کا صفایا کردیا ہے۔
امریکاگزشتہ 70 سال سے پاکستان کا بااعتماد ساتھی رہا ہے اور ہم نے امریکا کا اتحادی بن کر بہت زیادہ نقصان اٹھایا لیکن امریکی قیادت کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات بلا شبہ افسوسناک ہیں ،ان افسوسناک اوراشتعال انگیز بیانات کے باوجود وزیرخارجہ خواجہ آصف نے انتہائی تحمل کاثبوت دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ہم امریکا سے تعلقات برقرار رکھنااو ر غلط فہمیاں دور کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر امریکا کو پاکستان پر یقین نہیں تووہ افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کا بندوبست کرے اور اپنی 16 سالہ ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر نہ ڈالے۔وزیرخارجہ خواجہ آصف نے بجا طورپر امریکا کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے افغان مہاجرین کی 30،35 سال خدمت کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ صورتحال میں افغانستان میں امن کاقیام پاکستان کی ضرورت ہے، اور اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان کا امن واپس لایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے امریکا کو پاکستان کا ساتھ دینا ہوگا اوراس مسئلے کا دیرپا اورقابل عمل حل تلاش کرنا ہوگا۔امریکی حکام کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ افغانستان کا40 فیصد حصہ اب بھی طالبان کے زیر اثر ہے اور پاکستان پر 90 فیصد سے زائد حملے افغانستان سے ہی ہوتے ہیں افغان فوجی طالبان کو امریکی اسلحہ فراہم کرتے ہیں ،پاکستان نے اپنے طورپر پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے ہیں لیکن افغان حکومت نے نہ صرف یہ کہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا بلکہ اس کام کورکوانے اور دہشت گردوں کے راستے کھلے رکھنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی بھی کوشش کی ، اس مسئلے سے افغان انتظامیہ کے لاتعلقی کے رویے کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ افغانستان نے پاکستان سے ملنے والے اپنی650 کلومیٹر تک سرحد پرکوئی چیک پوسٹ تک نہیں بنائی، اس صورت حال میں امریکا کو چاہئے تھاکہ وہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے میں ہماری مدد کرتا لیکن امریکا نے اس حوالے سے پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی۔
پاکستان نے افغانستان میں امن کویقینی بنانے کے لیے ہمیشہ دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی اور پر امن افغانستان کے لیے تمام عالمی کوششوں کی حمایت کی جب کہ آئندہ بھی افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے عالمی کوششوں کا ساتھ دیتے رہنے کے عزم کااظہار بھی کرتارہاہے لیکن امریکی صدر اور افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن یہ پاکستان کی ان تمام قربانیوں اور کاوشوں کو نظر انداز کرکے الٹا اپنی تمام ناکامیوں کاملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کررہاہے ،اس حوالے سے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے بجاطورپر امریکا کو یہ باور کرایاہے کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر افغانستان کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔اگر امریکا واقع افغانستان میں امن قائم کرنا چاہتاہے تو اسے یہ تسلیم کرنا اور برملا اس کااعتراف کرنا ہوگا کہ پاکستان نے کبھی بھی افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی، یہ ایک واضح اور مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف تشدد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیتا اور دوسرے ممالک سے بھی ایسا ہی تعاون چاہتا ہے لیکن پاکستان کو مشرق اور مغربی سرحد سے غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں جس کے لئے افغانستان میں پاکستان مخالف محفوظ پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں ۔
امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کئے جانے کا اصل سبب یہ نہیں ہے کہ امریکا دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں سے مطمئن نہیں ہے بلکہ امریکی صدر کی پریشانی کابنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے یہ محسوس کرلیاہے کی پاکستان ا ب صرف اپنے معاشی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور یہ منصوبہ بندی پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چین کے تعاون سے ہو رہی ہے جس میں سب سے اہم منصوبہ اقتصادی راہداری کا ہے جو کہ چین کے ساتھ ساتھ اس خطے کے ان ممالک کے لیے بھی سود مند قرار دیا جا رہا ہے جو ماضی میں گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے اپنے طاقت گنوا بیٹھے تھے، دنیا کی واحد سپر پاور امریکا اور اس کے حلیف بھارت کویہ منظور نہیں اس لئے وہ اس راستے کی رکاوٹ بننا چاہتے ہیں کیونکہ روس کو تو وہ پہلے ہی سبق سکھا چکے ہیں لیکن چین جیسا بڑا ملک ان کی دسترس سے باہر ہے اور چین کا دنیا میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ان کو کسی صورت میں منظور نہیں جبکہ چین نے دنیا بھر کی معیشت میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور اپنی مصنوعات کو دنیا بھر کو منڈیوں تک پہنچا کر بیشتر ممالک کی معیشتوں کو ڈانواں ڈول اور دباؤ کا شکار کر دیا ہے۔ امریکا جو کہ دنیا بھر کو کنٹرول کرنے کا دعویدار ہے اس کو یہ صورتحال پسند نہیں آ رہی اور وہ خاص طور پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روک دینا چاہتا ہے۔
دوسری جانب امریکا افغانستان میں ایک ایسی جنگ میں پھنس چکا ہے جس میں 17 سال گزر نے کے بعد بھی ناکامی اس کا مقدر رہی ہے اور افغانوں نے اس کی بالادستی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس ناکامی کا ملبہ وہ اب نئے محاذ کی صورت میں پاکستان میں کاروائیاں کر کے ڈالنا چاہتا ہے،جبکہاس خطے کے بسنے والوں کو اب اس بات کا پوری طرح احساس ہو گیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر تو اپنے آپ کو منوا سکتے ہیں لیکن پاکستان کی مدد کے بغیر ان کی دنیا تک آسان رسائی مشکل ہی نہیں بلکہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ چین ہو یا روس پاکستان اس کی مجبوری ہے اور دیوار چین جیسی طویل نئی شاہراہ کی پاکستان کی بندر گاہ تک تعمیر اس بات کی جانب اشارے کر رہی ہے کہ مستقبل میں اس خطے میں پاکستان کا کر دار کلیدی ہو گا جس سے انکار ممکن نہیں ہو گا۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی صف بندیاں جاری ہیں لیکن یہ صف بندیاں امریکا اور بھارت کو منظور نہیں اور وہ ان میں رکاوٹیں ڈالنے کو تیار ہیں ۔
حکومت پاکستان نے امریکا کے دھمکی آمیز بیان کے جواب میں پہلے روس اور چین کا دورہ کرنے کا اعلان کر کے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ تاریخ کا پہیہ الٹا گھومنے کو تیار ہے اور افغانستان میں جاری امریکا کی جنگ کو پاکستان منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کا جارحانہ رد عمل ہماری سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ پاکستان اس مرحلے پر کسی طرح کی نرمی کامظاہرہ کرنے سے گریز کرے گا اورامریکا کو یہ اچھی طرح باور کرادے گاکہ وہ ا س طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے پاکستان کو جھکا نہیں سکے گااور اگر وہ پاکستان کے ساتھ کسی طرح کاتعاون چاہتاہے تو اسے اس کے لیے برابری کی سطح پر پاکستان سے بات کرناہوگی اور اگر یہ تعاون اسی وقت کیاجائے گا جب یہ پاکستان کے مفاد کے منافی نہیں ہوگا ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں