میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تیل کی قیمتوں میں کمی نہ کرنے کا فیصلہ

تیل کی قیمتوں میں کمی نہ کرنے کا فیصلہ

جرات ڈیسک
اتوار, ۱۸ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے 16جو ن سے 30جون تک پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، انھوں نے اخباری ان خبروں کے برعکس جن میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کمی کاانکشاف کیاگیاتھا کہا کہ عالمی منڈی میں گیس اور تیل کی قیمتوں میں تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے انھوں نے تیل کی قیمتوں میں کمی سے متعلق اخبارات کی خبروں پر حیرانگی کا بھی اظہار کیا اور سستا روسی تیل پاکستان آنے کے باوجود قیمتوں میں کمی کے ثمرات عام آدمی تک منتقل کرنے سے انکار کرتے ہوئے قیمتیں اگلے 15 دن تک برقرار رکھنے کا اعلان کیا،جبکہ کئی اخبارات نے رپورٹ کیا تھا کہ پیٹرول کی قیمت میں کچھ کمی ہو گی۔
روس سے 45 ہزار ٹن سستا خام تیل لے کر تیل بردار جہاز کے پاکستان پہنچنے پر وزیراعظم شہباز شریف نے وعدہ کیاتھا کہ قیمتوں میں اس کمی کے ثمرات عوام تک منتقل کئے جائیں گے لیکن ان کے عزیز از جان وزیرخارجہ نے اس کے اس بیان کی لاج رکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی،جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ،روس سے آنے والا تیل عالمی مارکیٹ سے کم وبیش 30 ڈالر فی بیرل سستا ہے۔روس سے تیل کی خریداری کا معاہدہ کرنے میں کی جانے والی تمامتر تاخیر کے باوجود بالآخر حکومت کو عمران خان کی جانب سے سستے تیل کی خریداری کیلئے کی جانے والی کوششوں کو آگے بڑھانے پر مجبور ہونا پڑا اور تیل کا ایک جہاز ملک میں پہنچ چکا ہے جبکہ دوسرا جہاز بھی اگلے چند روز میں کراچی پہنچ جانے کی امید ہے، یہ صورت حال پاکستانی عوام کے لیے یہ انتہائی خوش آئند ہے،کیونکہ وہ ایک ڈیڑھ برس سے انتہائی مہنگا تیل خرید کر اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔روسی تیل کی آمد پر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے سستے تیل کی خریداری کے ثمرات عوام تک منتقل کرنے کے وعدے کے بعد عوام کو یہ امید ہوچلی تھی کہ اب حکومت تیل کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کرے گی،ماہرین کے اندازوں کے مطابق روسی تیل کی آمد کے بعد عوام کو وہی ماضی والی قیمت یعنی ڈیڑھ سو روپے فی لیٹر پٹرول ملنا چاہیے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت میں عوام کو جس ریٹ پر تیل دیا جا رہا تھا، آج عالمی مارکیٹ میں تیل اس سے بھی زیادہسستا ہو چکا ہے جبکہ پاکستان نے روس سے جو تیل خریدا ہے،وہ مزید 30ڈالر سستا ہے،اس لحاظ سے عوام کو 130روپے فی لیٹر کے حساب سے تیل ملناچاہیے۔ پاکستان اور روس کے درمیان ابتدائی طور پر 1 لاکھ بیرل تیل کا معاہدہ طے ہوا ہے، پہلی کھیپ کے نتائج کے بعد 7 لاکھ بیرل تیل پاکستان آئے گا لیکن وزیر اعظم پاکستان نے عوام کو سستے تیل کی خوش خبری تو سنائی ہے لیکن ابھی تک تیل سستا کرنے کا اعلان نہیں کیا، جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک پٹرولیم مصنوعات سستی نہیں ہو ں گی تب تک دیگر اشیاضروریہ کی قیمتوں میں ریلیف بھی نہیں ملے گا۔حکومت کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں کمی نہ کئے جانے سے یہ اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ موجودہ حکومت کو عوام کی مشکلات سے کوئی غرض نہیں بلکہ وہ آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینے کا تیار ہے،خواہ اس کی وجہ سے ملک میں کتنی ہی غیر یقینی کا ماحول کیون پیدا نہ ہوجائے،جبکہ وزیر اعظم خود اعتراف کر رہے ہیں کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا تب تک معاشی استحکام بھی نہیں آسکتا،اس سے قبل یہی بات آئی ایم ایف نے کی تھی تو حکومت پاکستان نے اسے اندرونی معاملات میں دخل اندازی قرار دیا تھا۔اس وقت سیاسی عدم استحکام کا یہ عالم ہے کہ اس کے باعث معروف اور دنیا بھر میں پیٹرول کی تجارت کرنے والی مستحکم ترین کمپنی تصور کی جانے والی بین لاقوامی پٹرولیم مارکیٹنگ کمپنی شیل نے پاکستان میں اپنے تمام حصص فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کمپنی پاکستان میں گزشتہ 75 سال سے موجود ہے اور اسے نمایاں ریٹیل فٹ پرنٹ اور ایک مضبوط لبریکینٹس کاروبار حاصل ہے۔لیکن اس کمپنی کوپہلی سہ ماہی میں ساڑھے4 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ جب ملک میں سیاسی افراتفری ہو گی تو نئے کاروبار کی بجائے پہلے سے موجود کاروبار کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی دینا کی ایک بڑی کمپنی نے پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹنے کا اعلان کر دیا ہے۔ملک کے یہ حالات پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان کے حالات اور ٹیکس درٹیکس کی پالیسیوں کے سبب پاکستان سے کاروبار سمیٹنے میں شیل واحد کمپنی نہیں ہے بلک آل پاکستان ٹیکسٹائل ملزایسوسی ایشن (اپٹما)نے بھی گزشتہ دنوں حکومت کو خبردارکیاہے کہ اگر یکم جولائی سے بجلی اور گیس پر سبسڈیزکو بحال نہ کیاگیاتووہ اپنے یونٹس کی چابیاں وزارت خزانہ کے حوالے کردیں گے۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بجلی اور گیس پر ملنے والی سبسڈی کو آئندہ مالی سال سے ختم کردیاہے۔اس وقت ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے بجلی کانرخ 8 سینٹ اور گیس کا ساڑھے 6سینٹ ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ قیمت بالترتیب 10اورساڑھے 7 سینٹ ہے‘سبسڈیزکے خاتمے کے بعد پاکستان میں گیس اوربجلی کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ جائیں گی جو ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے تباہ کن ثابت ہوں گی۔ لاگت میں زیادتی کے باعث جب چیزوں کے دام زیادہ رکھے جائیں گے تو پھر کسٹمر لازمی طور پر بھارت اور بنگلہ دیش کا رخ کرے گا،اور اگر ایسا ہوتاہے تو پاکستان کی برآمدات جو پہلے ہی پڑوسی ممالک کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں مزید زمین پر آجانے کے خدشات کی تردید نہیں کی جاسکتی۔ یہ صحیح ہے کہ سبسڈی کی فراہمی کی راہ آئی ایم ایف کی شرائط حائل ہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط نے ہمارے وزیر خزانہ کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کے تحفظات ہمیشہ ہوتے ہیں انہیں ڈیل کیا جاتا ہے،یہ صحیح ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے،عمران خان نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کو گھاس نہ ڈالنے کی حماقت کی تھی جس کی انھیں بھاری قیمت ادا کرناپڑئی تھی،ا ور بعد از خرابی بسیار انھیں بھی آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا،اب وزیر خزانہ کا شکوہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو بظاہر بلیک میل کررہا ہے‘ اورہمارے خلاف جیو پولیٹکس (عالمی سیاست)ہو رہی ہے تاکہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے‘پاکستان مخالف بیرونی قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان سری لنکا بن جائے اور پھر عالمی مالیاتی فنڈکے ساتھ بیل آؤٹ کیلئے مذاکرات کرے لیکن ان کا کہناہے کہ ہم سری لنکا نہیں ہیں‘ہم آئی ایم ایف کی ہر بات نہیں مان سکتے ہم ایک خود مختار ملک ہیں، ہمیں اتنا حق توہوناچاہئے کہ ہم اپنے فیصلے خود کریں۔ اسحاق ڈار کا کہناہے کہ ہمیں پتا ہے کہاں سے کتنا ٹیکس اکٹھا کرنا ہے‘ اگر آئی ٹی میں روزگار نہیں بڑھائیں گے تو کیا 0.29 فیصد شرح نمو پر رہیں‘ریونیو نہیں آئے گا تو ملک کیسے چلے گا۔لیکن یہ ڈینگ ہانکتے ہوئے وہ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں یا جان بوجھ کر اس کاا ظہار نہیں کرتے کہ الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے وہ آئی ایم ایف کی ہر بات تسلیم نہیں کرسکتے لیکن وہ یقینا اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں گے کہ اگر آج انھوں نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کیں تو کل اس سے بھی کڑی شرائط پر اسے لے کر آئیں گے، کیونکہ کم وبیش ڈیڑھ سال کے دوران ملک کی معیشت کو جس نہج پر پہنچا دیاگیا ہے اس کی وجہ سے اب آئی ایم ایف کے بغیر ہماری بقا نہیں ہے اسے ڈیل کرنا ہی وزارت خزانہ کی دانشمندی ہے کیونکہ اگر خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہوا تو ہمارے لیے بہت مشکل ہوجائے گی.۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے بجٹ پر اعتراض اٹھادیا ہے، وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے اعتراض پر اعتراض اٹھادیا ہے، اس سب نے آئی ایم ایف کا نواں ریویو مزید مشکل بنادیا ہے،جہاں تک اسحاق ڈار کی اس بات کا تعلق ہے کہ.پاکستان کے ساتھ جیو پالیٹکس ہورہی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں پاکستان کے ساتھ جیو پالیٹکس ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے،وزیرخزانہ یہ کہہ کر دامن نہیں بچاسکتے کہ بال سوئنگ ہورہی ہے اچھا بیٹسمین سوئنگ بال کھیلتا ہے، یہ کہنا کافی نہیں کہ جیوپالیٹکس ہورہی ہے،وزیر خزانہ کی مہارت اسی میں ہے کہ جیوپالیٹکس ہوتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کیلئے اس کی شرائط اس طرح پوری کریں کہ اس ملک کے غریب عوام کو مزید بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں