میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آرمی چیف کی افغانستان کے ساتھ اعتماد پر مبنی تعاون کی خواہش کااظہار

آرمی چیف کی افغانستان کے ساتھ اعتماد پر مبنی تعاون کی خواہش کااظہار

ویب ڈیسک
بدھ, ۹ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز کورکمانڈرز کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیرپا قیام امن کے لیے ہم افغانستان کے ساتھ اعتماد پر مبنی تعاون کے خواہاں ہیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کے دوران اندرونی اور بیرونی سیکورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران خطے اور بالخصوص افغانستان کی سیکورٹی کی صورتحال بھی زیر غور آئی اور علاقائی امن اور سیکورٹی کے حوالے سے عزم کا اظہار کیا گیا۔بیان کے مطابق اجلاس کو کنٹرول لائن کی صورتحال پر بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔اس موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی سلامتی اور سیکورٹی کے حوالے سے پاک فوج کی خدمات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آرمی چیف نے دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے مشترکہ کوششوں کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔آرمی چیف نے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ کوششوں سے ہی آئین اور قانون کی عملداری قائم ہوگی۔آرمی چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں جنوبی و مشرقی ایشیا امور کی قائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری اور امریکا کی قائم مقام نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان ایمب ایلس ویلز نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی گزشتہ روز یہ واضح کیاہے کہ پاکستان ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہش مند ہے، خاص طور پر بھارت اور افغانستان سے، جو پاکستان کی جانب سے دیرپا امن کیلئے کیے جانے والے اقدامات کا مثبت جواب نہیں دے رہے۔حال ہی میں وزارت خارجہ کا منصب سنبھالنے والے خواجہ آصف نے سیالکوٹ میں مسلم لیگ (ن) ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ پاکستان کی امن اور ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کی خواہش کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔انہوں نے کہا کہ ’یہ بھارت اور افغانستان کے لیے اہم وقت ہے کہ وہ اچھے ہمسایوں کی طرح پیش رفت کرتے ہوئے پاکستان کی امن کوششوں کے آغاز کا مثبت جواب دیں اور الزامات لگانا بند کریں‘۔ وزیر خارجہ نے اس موقع پر بجاطورپر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بھارت نہ صرف یہ کہ مستقل کنٹرو ل لائن (ایل او سی) پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کررہا ہے اور شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے،بلکہ بھارت، افغانستان میں موجود اپنے سفارتی عملے کے ذریعے پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں میں مدد کررہا ہے جس کا واحد مقصدپاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنا ہے۔خواجہ محمد آصف نے یہ بات واضح کی کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، اورپاک فوج اپنے مادر وطن کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرسکتی ہیں، انہوں نے نئی دہلی اور کابل کوتلقین کی کہ وہ انتہا پسندی اور جنگجوئی ترک کرکے اسلام آباد کی جانب سے امن کیلئے کیے جانے والے اقدامات کی حمایت کریںاور اس میں پاکستان کاساتھ دیں
گزشتہ ہفتے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیل وال سے ملاقات میں بھی دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی کی وجہ بننے والے عوامل کو دور کرنے کیلئے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر زور دیا تھا۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں امن کے قیام کیلئے پاکستان سے تعاون کا خواہاں ہے اور مستقبل میں اس کے قدم سے قدم ملاکر چلنے کی خواہش رکھتا ہے۔وہ یہاں اسلام آباد میں وزیر خارجہ خواجہ آصف،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقاتوں میں اپنے خیالات کا اظہار کررہی تھیں۔اس موقع پر انہوں نے کہاکہ پاکستانی سرزمین دہشت گردی کی خاطر پڑوسیوں کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔اس تناظر میں امریکی نائب وزارت خارجہ کے علم میں یہ حقیقت بہر طور ہونی چاہئے کہ افغانستان نے متعدد بار پاکستان پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک میں دہشت گردی ڈیورنڈ لائن کے اس پار سے ہورہی ہے جسے پاکستان نے ہر بار رد کیا اور کہا کہ یہ الزامات حقائق کے منافی اور سوفیصد لغو ہیں۔افغانستان میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئیں ان سب کے اندرون خانہ حقائق کو دیکھیں تو قطعاً یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ کوئی بھی دہشت گردی پاکستانی علاقہ سے ہوئی ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘کے اثرات اور بعض دیگر ایجنسیوں کا بھی اس مبینہ دہشت گردی میں ہاتھ رہا ہے۔نیز پاکستان کیخلاف الزام تراشی میں بھی بھارتی اثر و نفوذ کو بہت دخل رہا ہے اس لئے امریکی نائب وزیرخارجہ کو اس ضمن میں مذکورہ بالا حقائق کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔تاہم ان کا یہ کہنا محض ایک لالی پاپ ہے کہ امریکا نئے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ دوطرفہ مفادات کی پالیسی کو آگے بڑھائے گا۔اس ضمن میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاک امریکا تعلقات میں کافی حد تک سردمہری آئی ہے جس کی بنیادی وجہ خود امریکا کے مخصوص مفادات ہیں۔امریکی انتظامیہ کا بھارت کی جانب جھکائو اور پاک چین تعلقات کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھنا بھی اس کی اہم کڑیاں ہیں۔اس تناظر میں پاکستان کی حکومت اور عوام سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی روش کے باعث فی الوقت پاکستان کیلئے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں رہی۔یہ امر واقع ہے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کیخلاف بلاامتیاز اور موثر کارروائی کررہی ہیں جس کی تعریف دنیا کا ہر جمہوری اور عوامی ملک کررہا ہے۔لٰہذا اب یہ بات و ثوق کو پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی اداروں کو کسی قسم کی امریکی ڈکٹیشن کی قطعاً ضرورت نہیں اور جہاں تک پاک امریکا تعلقات کی بہتری کا معاملہ ہے،یہ ہدف صرف اور صرف امریکا کی جانب سے پاکستانی مفادات کی پاسداری کرنے سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔یہ ایک واضح امر ہے کہ پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہا ہے اور بین الاقوامی طور پر بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہا گیا ہے۔اس لئے اب نہ توپاکستان کو کسی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کسی سے کوئی سرٹیفکٹ لینے کی ضرورت ہے او ر نہ ہی کسی ملک کو یہ حق پہنچتاہے کہ وہ دہشت گردی کی اس جنگ سے سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اتھانے والے ملک پاکستان پر انگشت زنی کرے۔اگر امریکی حکام نے بوجوہ بھارت کوعلاقے کاتھانیدار بنانے کافیصلہ کرلیاہے تو وہ بخوشی اپنے اس منصوبے پر عمل کرے پاکستان امریکا کی باربار بے وفائیوں کی وجہ سے اب امریکی امداد کے بغٖیر بھی جینا سیکھ چکاہے، اور اب پاکستان پہلے کی طرح بالکل بے یارومددگار بھی نہیں ہے اور چین جیسا مخلص دوست اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے جبکہ اب روس بھی پاکستان کی امداد کرنے کو تیار ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ ہمارے نئے وزیر خارجہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کی ضروریات اورملک کے وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے قابل عمل حکمت عملی تیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں