روزے کابدلہ
شیئر کریں
روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ افطار کے وقت مؤ من کا ’’جسم‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمت سے سیراب ہوتا ہے اور قیامت کے دن مومن کی ’’روح‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات سے سیراب ہوگی
مولانا ندیم الرشید
تمام مہینے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ لیکن رمضان کی نسبت خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے، باقی کسی مہینے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف نہیں کی۔اس کا مطلب باقی مہینوں کے بہ نسبت ’’رمضان‘‘ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی نہ کوئی خاص تعلق ضرور ہے۔ حدیث شریف میں رمضان المبارک کو ’’شہر اللہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذاتی مہینہ کہا گیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کو ’’کلام اللہ‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ کلام اللہ کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔
روزے کی جزا:
کْلّْ عَمَلِ ابنِ آدَمَ لَہْ اِلاَّالصِّیَامَ فَاِنَّہْ لِی وَاَنَا اَجزِی بِہِ (صحیح البخاری، 26/3 )اللہ رب العزت فرماتے ہیں:’’روزے کا اجر میں خوددوں گا ‘‘۔ روزے کے اجر میں خاص بات یہ ہے کہ روزے کے بدلے میں روزے دار کو اجر نہیں ملے گا بلکہ خود اللہ تعالی کی ذات ملے گی۔
مشائخ حضرات یہ دعا کرتے ہیں: کہ اے اللہ ہمیں اپنا قرب نصیب فرما، اپنی ذات نصیب فرما، تو قیامت کے دن روزے دار کو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا قرب، اپنی ذات اور اپنی ملاقات نصیب فرمائیں گے۔ ’’لِلصَّائِمِ فَر حَتَانِ یَفرَحْھْمَا اِذَا اَفطَرَ فَرِحَ وَ اِذَا لَقِیَ رَبَّہْ فَرِحَ بِصَومِہ‘‘(صحیح البخاری3/26)
جیسا کہ اس حدیث مبارکہ میں پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جب وہ روزے کا بدلہ پا کر خوش ہوگا، ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی پروردگار سے ملاقات کے وقت۔ افطار کے وقت مو من کا ’’جسم‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمت سے سیراب ہوتا ہے اور قیامت کی ملاقات کے وقت مو من کی ’’روح‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات سے سیراب ہوگی۔ یہ روزے دار کا اجر ہے۔ کیونکہ اس حدیث مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا:’’فَاِنَّہ‘ لِی‘‘ کہ روزہ محض میرے ہی لیے ہے، یعنی دیگر عبادات میں ریاکاری کا شبہ ہوسکتا ہے لیکن روزے میں ایسا نہیں ہوسکتا، آدمی تہجد پڑھے، اگرچہ گھر کے اندر چھپ کر پڑھے لیکن بیوی کو پتا چل ہی جائے گا ایسے ہی نماز، زکوٰۃ، جہاد،حج اور عمرہ وغیرہ کا بھی کسی نہ کسی درجے میں علم ہوجاتا ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے۔ فرض کریں ایک آدمی نے سب سے چھپ کر روزہ توڑ دیا، اب سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس شخص کا روزہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کو علم ہے کہ اس کا روزہ نہیں۔ اسی طرح یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کا روزہ ہو اور کسی کو پتا نہ چلے، لیکن اللہ تعالیٰ تو جانتے ہیں کہ اس بندے کا روزہ ہے۔
دیگر عبادات میں کسی نہ کسی واسطے سے مخلوق کو پتا چل جا تا ہے، عبادت ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس میں ریا کاری کا شبہ ہوسکتا ہے۔ لیکن روزے کا حال صرف خالق کو معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا حدیث شریف کے مطابق جب روزہ اللہ کی ذات کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہو سکتا تو اس کا اجر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
روزے دار کے لیے پانچ انعامات:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’ قَالَ رَسْو لْ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اْعطِیَت اْمَّتِی خَمسَ خِصَالٍ فِی رَمَضَانَ لَم یْعطَھَا اَحَد قَبلَھْم (شرح مشکل الآثار 12/8) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئی ہیں، جو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں۔
پہلا انعام:
( وَالَّذِی نَفسِی مْحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَخْلْو فْ فَمِ الصَّائِمِ اَطیَبْ عِندَ اللّٰہِ مِن رِیحِ المِسکِ ? (صحیح البخاری، 3/26) ترجمہ:’’ قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے پہلی چیز یہ ہے کہ روزے دار کے منہ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے‘‘ منہ کی بدبو ایسی ناگوار چیز ہے جسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسے آدمی کو لوگ اپنے ساتھ بھی نہیں بیٹھنے دیتے لیکن بندے سے اللہ تعالیٰ کی مدد کا عالم دیکھیے جو روزے دار کے منہ کی بو کو اس قدر پسند کرتا ہے تو وہ خود روزے دار کو کتنا محبوب رکھتا ہوگا۔
وہ لذتِ آشوب نہیں بحر عرب میں
اِس راز کو اب فاش کر اے روح محمد
پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
دوسرا انعام:
(وَتَستَغفِرْ لَھْم المَلائِکَۃ حتیٰ یفطروا) (مجمع الزوائد و منبع الفوائد 3/140) روزے دار کی مغفرت کے لیے فرشتے افطار کے وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں۔(وَتَستَغفِرْ لَھْم الحِیَتَانِ حتیٰ یْفطِروا) (مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 140/3) اسی طرح دریا کی مچھلیاں دعا کرتی رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گناہ سے پاک اور معصوم مخلوق اللہ تعالیٰ سے روزے دار کی بخشش کے لیے دعا مانگ رہی ہو تو کیا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو رد فرمادیں گے؟
تیسرا انعام:
(ویزیّن اللہ کلّ یومٍ جنتہ ویقول یْوشِک عبادی الصّالحون ان یَلقَوا عنھم المو نۃ والاَذی ویصیروا الیک) (شرح مشکل الآثار 8/12) روزے دار کے لیے ہرروز جنت آراستہ کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ روزے دار کو پروٹوکول دیتے ہیں جس طرح ملک کا سربراہ کسی علاقے کا دورہ کرے تو اس جگہ کو خوب سنوارا جاتاہے، صفائی ستھرائی کی جاتی ہے، راستوں کو پھول پتیوں اور جھنڈوں سے مزین کیا جاتا ہے اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ روزے دار کے لیے جنت میں تزئین و آرائش کے خصوصی انتظامات کرتے ہیں۔
چوتھا انعام:
(وَ تْصَفَّدْ فِیہِ مَرَدَۃْ الشیاطین ولا یصلون فیہ الی ما یصلون فی غیرہِ)(شرح مشکل الآثار 8/12) رمضان میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔ یہ بھی روزے داروں کا اعزاز ہے،جیسے اہم شخصیت کے دورہ کے موقع پر اس علاقے کا پولیس افسر اس جگہ کے وہ تمام بدمعاش جن سے نقصِ امن کاخطرہ ہوتا ہے، انہیں اٹھاکر جیل میں ڈال دیتاہے… ایسے اللہ تعالیٰ تمام سرکش شیطانوں کو اٹھا کر قید میںڈال دیتے ہیں۔(مسنداحمد۔الرسالۃ،295/13) فلا یخلصوا الیٰ ما کانوا یخلصون الیہ فی غیرہ
پانچواں انعام:
(ویغفر لھم فی اٰخرِ لیلۃٍ قیل یا رسول اللہ اَ ھِیَ لیلۃ القدرِ قال لا وَلٰکنَّ العَاملَ انما یوَفی اَجرہْ عند انقضاء عملہ)(شرح مشکل الآثار 8/12) رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے یعنی رمضان کے اختتام پر اللہ تعالیٰ روزے دار کو انعام عطا فرماتے ہیں۔
رمضان کریم کی مبارک ساعتیں زندگی کی وہ سہانی گھڑیاں ہیں جب اللہ کی محبت موسلادھار بارش کی طرح چھما چھم برستی رہتی ہے۔ رمضان میں نیکیوں کا اجر ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے اور روزے دار کو اللہ تعالیٰ مغفرت اور اپنی ملاقات جیسی عظیم دولت اور انعام سے نوازتے ہیں۔ ایسے میں بندے کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا جواب محبت سے دے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اللہ کے مہمان کی بے اکرامی ہو،کیونکہ جہاں فضائل ہیں وہاں یہ بات بھی ہے:عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ :’’ربّْ صائمٍ لیس لہ من صیامہ اِلّا الجوع، وربّ قائم لیس لہ من قیامہ اِلّا السھر(سنن ابن ماجہ،539/1)’’بہت سارے روزے دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزے سے سوائے بھوک کے اور کچھ نہیں ملتا اور بہت سارے قیام کرنے والے ایسے ہیں جنہیں اپنے قیام سے سوائے کھڑے رہنے کے اور کچھ نہیں ملتا۔‘‘ دعا ہے رب کریم ہمیں رمضان کا صحیح اکرام کرکے تمام اعزازات خداوندی سے مستفید فرمائے۔