اکابر ین کے معمولاتِ رمضان
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ خاص کر رمضان المبارک کی راتوں میں شب بیداری کا اہتمام فرماتے تھے،مغرب کے بعد دو حافظ اوابین میں سناتے،عشاء کے بعد تراویح میں نصف شب تک تین حافظ سناتے،اس کے بعد نوافل تہجد میں دو حافظ قرآن پاک سناتے تھے،اسی طرح پوری رات گزرجاتی تھی۔
حجتہ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے رمضان المبارک سفر حجاز کے دوران روزانہ ایک ایک پارہ یاد کر کے حفظ قرآن مکمل فرمایا تھا،پھر بکثرت قرآن پاک کا ورد رکھتے تھے اور تراویح میں بڑی مقدار میں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے۔قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کا رمضان المبارک میں مجاہدہ اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کو رحم آجاتا،۷۰ سال کی عمرمیں بھی عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر کے روزہ کے بعد اوابین کی بیس رکعتوں میں کم از کم دوپارے تلاوت فرماتے،تراویح بھی نہایت اہتمام اور خشوع وخضوع کے ساتھ ادافرماتے،بچے ہوئے وقت میں زبانی تلاوت جاری رہتی،تہجد میں بھی دوڈھائی گھنٹے صرف ہوتے،نماز فجر کے بعد اشراق تک وظائف ودرود میں مشغول رہتے،دن کے اکثر اوقات بھی تلاوت واذکار اور مراقبہ میں گزرتے،اس میں بھی یومیہ کم از کم ۱۵ پارے قرآن کریم پڑھنے کا معمول تھا۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ ا للہ کی رمضان المبارک میں خاص حالت ہوتی اور دن رات عبادت خدا وندی کے سوا کام ہی نہ ہوتا،آپ اگر چہ خود حافظ نہ تھے لیکن نہایت اشتیاق کے ساتھ دیگر حفاظ کرام سے تراویح اور تہجد کے نوافل میں ساری ساری رات کلام پاک سنتے تھے،بعض تراویح میں آپ کا چھ چھ اور دس دس پارے سننے کا معمول بھی نقل کیا گیا ہے، ساری ساری رات آپ متعدد حفاظ سے کلام پاک سننے میں گزار دیتے،تہجد کی جماعت میں دیگر اہل خانہ اور متعلقین بھی شرکت کرتے،مسلسل کھڑے ہونے کی بنا پر آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا تو دل میں خوش ہوتے کہ اس سنت کی ادائیگی کی بھی سعادت حاصل ہوگئی،ایک مرتبہ کم کھانے اور طول قیام سے رمضان المبارک میں نہایت کمزور ہوگئے،پاؤں کا ورم بھی بہت زیادہ ہوگیا،مگر قلبی شوق تھا کہ چین نہ لینے دیتا تھا،کثیر مقدارمیں قرآن مجید سننے کے لئے مستعد تھے،آخر لاچار ہوکر گھر کی عورتوں نے حافظ کفایت اللہ صاحب (جن سے آپ کثر قرآن سنا کرتے تھے)کو کہلا بھیجا کہ آج کسی بہانے سے تھوڑا سا ہی پڑھا کر بس کردیجئے،مولوی صاحب نے تھوڑا سا پڑھا کر اپنی طبیعت ناساز ہونے کا عذر پیش کیا،چونکہ حضر ت کو دوسروں کی راحت کا بہت خیال رہتا تھا،خوشی سے منظور کرلیا، اندر حافظ صاحب لیٹ گئے اور باہر خود حضرت آرام فرمانے لگے،مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص آہستہ آہستہ پاؤں دبا رہا ہے،انہوں نے ہوشیارہوکر جب دیکھا کہ خود حضرت شیخ الہندپاؤں دبا رہے ہیں تو ان کی حیرت اور ندامت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا،حافظ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے تو مولانا نے فرمانے لگے کہ نہیں بھائی کیا حرج ہے،تمہاری طبیعت اچھی نہیں،ذراراحت آجائے گی۔(سوانح شیخ الہند اصغری)
حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری رحمہ اللہ رمضان المبارک شروع ہوئے ہی اپنی تمام مصروفیات (مجالس ومکاتیب وغیرہ)ختم کر کے پورے طور پر خلوت نشیں ہو کر مصروف عبادت وریاضت ہو جاتے،رات دن کے ۲۴ گھنٹے میں صرف ایک گھنٹہ آرام فرماتے،تلاوت قرآن کریم سے نہایت شغف تھا،آپ حافظ قرآن بھی تھے،اس لئے شب کا قریب قریب سارا وقت تلاوت میں صرف ہوتا،جب خود تراویح میں قرآن کریم سناتے تو دو ڈھائی بجے فراغت ہوتی اور اخیر عمر جب خود سنانا موقوف ہو گیا تو تراویح میں پورے مہینہ میں تین چار ختم سن لیا کرتے تھے،عصر ومغرب کے درمیان کا وقت عام دربار اور سب کی ملاقات کیلئے مخصوص ہوتا،اس کے علاوہ بغیر کسی خاص ضرورت کے آپ کسی سے نہ ملتے،اور حجرہ شریف کا دروازہ بند فرما کر خلوت کے مزے لوٹتے اور اپنے مولائے کریم سے رازونیاز میں مشغول رہتے،اس لئے عشاق وزائرین نماز میں آتے جاتے آپ کی زیارت پر اکتفا کرکے طبعی سکون حاصل کرتے تھے،ماہ رمضان میں تو اس قدر مجاہدہ بڑھ جاتا تھا کہ دیکھنے والوں کو ترس آتا تھا،افطار وسحر دونوں کا کھانا بمشکل دوپیالی چائے اور آدھی یا ایک چپاتی ہوتا تھا۔
محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ باوجود کثیر علمی مصروفیات اور تصنیفی مشغولیات کے رمضان المبارک کا نہایت اہتمام فرماتے،جب تک طاقت رہی کبھی تراویح میں قرآن پاک سنانا نہیں چھوڑا،عموماََ تراویح میں قرآن پاک سواپارہ پڑھنے کا معمول رہا،جو انتہاہی ترتیل کے ساتھ پڑھا جاتا،رات میں تہجد کی نوافل میں انہماک بھی رہتی،دن کے اوقات اکثر تلاوت اور علمی انہماک میں گزارتے تھے اور جوں جوں عمر بڑھتی گئی اس اہتمام میں اضافہ ہوتا گیا۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ رمضان المبارک میں کیا لطف حاصل کیاکرتے تھے،رمضان میں اکثر خود قرآن شریف سناتے اور بلامانع کبھی قرآن سنانا نہیں چھوڑتے، نصف قرآن تک سواپارہ،پھر ایک پارہ روزانہ پڑھتے،ستائیسویں شب کو اکثر ختم کرتے،یادداشت اتنا اچھا کہ کہیں متشابہ نہیں لگتا،قرآن شریف سے طبعاََ حضرت والا کو ایسی مناسبت تھی کہ گویا ازاول تاآخر نظر کے سامنے ہے،کوئی آیت پوچھی جائے کہ کہاں آئی ہے تو بغیر کسی دیر جواب حاضر ہوتا،آپ کی تراویح کی جماعت اس قدر مجمع ہوتا کہ کوئی مغرب کے پھرتی سے کھانا کھا کرپہونچ گیا تو جگہ ملی ورنہ محروم ہوتا، اعتکاف میں بھی تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رہتا،آپ کی مشہور کتاب ”قصد السبیل“اعتکاف ہی میں صرف آٹھ دن میں لکھی گئی،اکثر تہجد کی نماز میں ایک پارہ روزانہ پڑھنے کا معمول رہا،بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ،جب حکیم الامت تہجد کی نماز پڑھتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ ایک نور مثل صبح صادق اوپر کو اٹھتا اور سفید رنگ کے شعلے حضرت کے جسم سے باربار اوپر اڑتے(معمولات اشرفی)
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے یہاں رمضان المبارک کا مہینہ باغ وبہار کا زمانہ ہوتا تھا،آپ اپنے تمام دینی وسیاسی اسفار موقوف فرما کر ایک جگہ پورے ماہ قیام فرماتے اور تشنگان معرفت کو اپنے فیوض عالیہ سے پوری طرح سے مستفیض ہونے کا موقع فراہم کرتے تھے،ملک کی تقسیم سے قبل تک سلہٹ(بنگلہ دیش)میں قیام رمضان کا معمول رہا اور تقسیم کے بعد ناقدہ اور بانسکنڈی (آسام)میں قیام فرماتے رہے،دن میں زیادہ تر وقت تلاوت،اصلاح اور ارشاد میں گزارتے،عصر کے بعد قرآن کریم کا دورفرماتے،اس کے بعد افطار تک استغراق کی حالت میں رہتے،مغرب کے بعد ۲رکعت نفل نہایت طویل ادافرماتے،تراویح کی امامت عموماََ خود ہی نہایت اطمینان کے ساتھ فرماتے اور ہر تراویح میں کافی دیر توقف فرماکر ذکرواذکار میں مشغول رہتے،تراویح کے بعد مختصر واعظ ہوتا جس میں بہت بڑا مجمع شریک ہوتا،آپ کے یہاں تہجد کی باجماعت ادائیگی کا معمول تھا،ایک قرآن پاک آپ خود پڑھتے،دوسرا مولانا جلیل صاحب مرحوم پڑھا کرتے تھے،ہر سورۃ کے شروع میں جہرا بسم اللہ پڑھنے کا بھی معمول تھا۔اخیر عمر تک آپ کے مجاہدات میں کوئی فرق نہیں آیا،ٹانڈہ کے قیام کے زمانہ میں گرمی سخت تھی،پھر ضعف اور مرض کی وجہ سے خشکی کی بنا پر آپ کے لئے پڑھنا دشوار ہوتا تھا،لیکن اس حال میں بھی آپ نے پورا کلام پاک اسی شان کے ساتھ سنایاجو آپ کا امتیاز تھا،رمضان میں متوسلین کے جھرمٹ میں رہنے کے باوجود آپ کا انقطاع عن الخلق قابل رشک تھا اور وہ اور وہ کیفیت رہتی تھی جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا،آخری رمضان میں آپ بانسکنڈی(آسا م)میں گزارا،یہاں تراویح میں آپ کے منجھلے صاحب زادے حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی(صدر جمعیۃ العلماء ہند)نے پہلی مرتبہ قرآن پاک سنانے کی سعادت حاصل کی۔
محدث کبیر حضرت علامہ مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ ایک قاری صاحب جو میرے دوست تھے،میری ملاقات کیلئے تشریف لائے،رمضان شریف کے آخری ایام تھے،وہ بڑا نفیس قرآن پڑھتے تھے،میں نے کہا بجائے وقت گزارنے کے چلو نفل پڑھتے ہیں،چنانچہ ان قاری صاحب نے نفل کی نیت باندھ لی اور میں نے اقتدا کی،بس تو پھر کیا پوچھنا وہ تو پڑھتے چلے گئے اور میں لطف اٹھاتا چلا گیا،وہ ایکسپریس گاڑی کی طر سورتوں کے اسٹیشن طے کرتے چلے گئے اور سحری سے پہلے پورے قرآن کریم دورکعتوں میں ختم کر ڈالا۔(بینات،بنوری نمبر ۷۰۶،مضمون قاری رفیق صاحب)۔
خادم القرآن حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی رحمہ اللہ کو بھی تلاوت قرآن سے بے حد شغف تھا،اسفار میں مسلسل تلاوت جاری رہتی اور دسیوں پارے تلاوت فرما لیتے،رمضان المبارک کے مہینے میں یہ اہتمام مزید بڑھ جاتا،آپ کے بعض سوانح نگاروں نے واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک اہل بدعت کے علاقہ میں تراویح سنانے تشریف لے کئے،تو ایک ہی رات تراویح میں ۲۱ پاروں کی تلاوت فرمادی۔(تذکرہ الصدیق ۱/۴۱۷)۔
رہبر ملت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب دامت برکاتہم(امیر شریعت سادس امارت شرعیہ بہار وجنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ) بھی رمضان المبارک مہینے کا خاص اہتمام فرماتے،آپ کوتلاوت قرآن سے بے حد شغف ہے،غیر رمضان میں ایک ایک پارہ روزانہ پڑھنے کا معمول رہتا،رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی اس میں اضافہ ہوجاتااور دو،تین پارہ یومیہ پڑھنے کامعمول ہوتا،عمر کے ۹۰سال میں ضعف ونقاہت کے باوجودپابندی سے روزہ کااہتمام فرماتے، نماز تراویح بھی متعلقین کے سہارے مسجد میں جاکرنہایت ہی خشوع وخضوع کے ساتھ اداکرتے،پہلے تہجد کااہتمام فرماتے لیکن ادھر کمزوری کی وجہ سے تہجد ادا نہیں کرتے،کبھی کبھی صحت میں انشراح ہوتی تو تہجد بھی مزے لے کر پڑھتے،سحر میں چائے اور بسکٹ کاخاص اہتمام فرماتے۔راقم الحروف کو بھی رمضان المبارک میں دودن اور ایک شب حضرت مدظلہ کے ساتھ گزارنے کا شرف حاصل ہوا ہے،میں نے بخوبی حضرت کے معمولات رمضان المبارک کا مشاہدہ کیا ہے،آپ فرماتے ہیں کہ رمضان میں روزے دار کو ان امور کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔(۱)نفس کوقابو میں رکھے(۲)زبان کو جھوٹ، غیبت، چغلخوری اور فحش گوئی سے محفوظ رکھے(۳)حسد وکینا سے ہر ممکن پرہیز کرے(۴)اپنے عضاء کوگناہوں سے پاک رکھے(۵)افطار حلال کمائی سے ہی کرے ورنہ روزہ کامقصد حاصل نہ ہوگا(۶)افطار کے وقت دعاؤں کاخاص اہتمام ہو(۷)لڑائی جھگڑے سے اپنے آپ کومحفوظ رکھے(۸)اپنے معاملات کو چاہئے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم صاف رکھے۔
٭٭٭