پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ارکان اسمبلی کا عدم اعتماد
شیئر کریں
ارکان قومی اسمبلی نے گزشتہ روزپاکستان کی خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کی خرابی کوخارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی پر بحث کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی کی پیش کردہ تحریک میں کہاگیاہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کہیں بھی کامیاب نظر نہیں آرہی،ایسا محسوس ہورہاہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ بھی کمیشنز کی نذر ہوگیا اور امریکا کے ساتھ بھی تعلقات سرد مہری کاشکار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) ایک اچھا پراجیکٹ ہے، لیکن ہر مسئلے کو اس کے ساتھ جوڑنا کہاں کی عقلمندی ہے؟
ارکان اسمبلی کا پاکستان کی خارجہ پالیسی میں موجود خامیوں اور نقائص پر اظہار تشویش بیجا نہیں ہے، موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے کسی بھی ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں نہ صرف یہ کہ کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی ہے بلکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں دراڑیں زیادہ واضح ہوتی نظر آرہی ہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مختلف ممالک خاص طورپر پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں موجود دراڑیں اب خلیج بنتی جارہی ہیں جبکہ پڑوسی ملک عالمی سطح پر ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے ہر حربہ اختیار کررہا ہے جس کا اندازہ عرب ممالک اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات میں گزشتہ برسوں کے دوران آنے والی بہتری سے لگایاجاسکتاہے۔ ایک طرف بھارت ،چین اورعرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کر رہا ہے اوردوسری جانب ہم کہاں کھڑے ہیں؟عالمی سطح پر ہماری خارجہ پالیسی کاوجود ہی نظر نہیں آتا۔ اس صورت حال کا ایک بڑا سبب شایدیہ بھی ہے کہ پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاںدفترخارجہ تو موجود ہے لیکن کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے اور دیگر بہت سے محکموں کی طرح یہ اہم محکمہ بھی ایڈہاک بنیادوں اور ایک مشیر خارجہ کے ذریعہ چلایا جارہاہے ۔اس صورت حال میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور کا یہ سوال اپنی جگہ درست ہے کہ ہمیں کم از کم یہ تو معلوم ہونا چاہئے کہ ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے اور یہ پالیسی کون بناتا ہے؟
کیا وزارت خارجہ کے ارکان پاکستان کے عوام کو یہ بتانے کی زحمت گوراا کریں گے کہ آج ہمای ا سب سے زیادہ محفوظ پاک افغان سرحد بھی کیوں غیر محفوظ ہے؟ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے پاک فوج کی جانب سے آپریشن رد الفساد بلاشبہ ایک اچھا قدم ہے لیکن عوام یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ جن پالیسیوں کی وجہ سے یہ خطہ دارالفساد بنا وہ اسباب ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں۔دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پاک افغان سرحد عارضی طورپربند کرنے کا فیصلہ ہوسکتاہے ،یہ اپنی جگہ درست ہو لیکن اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کا یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ سرحد بند کرنے سے دہشت گردی نہیں روکی جا سکتی کیونکہ دہشت گرد اور انتہاپسند کبھی ملک میں داخلے کے لیے روایتی راستے استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی سرگرمیوں کے لیے ایسے غیر روایتی اور دشوار گزار راستوں کا انتخاب کرتے ہیں جنھیں بند کرنا یا جہاں باڑھ لگانا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیںہوتا۔
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ بدقسمتی سے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی ٹھیک نہیں رہے، افغانستان کی پالیسیاں ہمیشہ بھارت نواز رہی ہیں اور بھارت کے ساتھ پاکستان کی دونوں جنگوں کے دوران میں افغانستان نے بھارت کی حمایت کی۔اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت نے افغانستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، اورپاکستان آج بھی 30لاکھ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہاہے۔ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان میں کوئی جز وقتی اور بااختیار وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سفارتکاری کے میدان میں مسلسل بھارت سے مات کھارہاہے اور پاکستان کے کڑے وقتوں پر کام آنے والے اور پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے ممالک بھی آج پاکستان سے شاکی نظر آتے ہیں۔اگرحکومت کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ افغانستان اور بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی جماعت الاحرار کی سرپرستی کر رہی ہیں تو پاکستان کو یہ ثبوت عالمی برادری اور خاص طورپر امریکا اور برطانیہ کے سامنے پیش کرنے چاہئیں تاکہ بھارت اور افغانستان دونوں پر عالمی سطح پر اس طرح کی اوچھی حرکتیں ترک کرنے کیلئے موثر دباﺅ ڈالا جاسکے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے وزیر اعظم نواز شریف کو جنھوں نے امور خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ لیا ہے، اس صورت حال پر توجہ دینی چاہئے اور وقت ضائع کیے بغیر کسی ایسے شخص کو وزارت خارجہ کی ذمہ داریاں سونپنی چاہئیں جو عالمی اموراور پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کے پس منظر سے اچھی طرح واقف ہو اور مختلف ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت اور اہمیت کو بھی اچھی طرح سمجھتاہو،کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کو جس قسم کی صورت حال کا سامناہے اور دہشت گردی کے خلاف دنیا میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے کے باوجود پاکستان کو دہشت گرد ملک کی صف میں کھڑا کرنے کی جس طرح منظم کوششیں کی جارہی ہےں ان کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان کو ایک انتہائی زیرک اورعالمی سیاست کی اچھی طرح سوجھ بوجھ رکھنے والے فعال انسان ہی کی ضرورت ہے ۔ یہ کام محض ہدایات کے سہارے احسن طورپر انجام نہیں دیاجاسکتا۔
اب جبکہ پاکستان کی خارجہ پالیسیوں میں مبینہ خامیوں یا وزارت خزانہ کے حکام کی مبینہ خامیوں کی بازگشت قومی اسمبلی میں بھی سنائی دینے لگی ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف موجودہ مشکل اور پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری طوررپر ایک کل وقتی وزیر خارجہ کے تقرر کااعلان کریں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ پاکستان کو بیرونی محاذ پر درپیش خطرات او ر ممکنہ مشکلات سے موثر طورپر نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرکے اس پر عملدرآمد کراسکے۔