کالے بلدیاتی قانون کے خلاف صف بندی مکمل ،اپوزیشن کا12جنوری کواحتجاج کااعلان
شیئر کریں
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف 12 جنوری کو ضلع ہیڈکوارٹرز میں احتجاج کا اعلان کردیا، بل کے خاتمے کیلئے اب سڑکوں اور عدالتوں میں فیصلہ ہوگا، مشترکہ پریس کانفرنس، سندھ میں مختلف جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنماؤں نے صوبائی حکومت کی جانب سے بلدیاتی ترمیمی بل کیخلاف 12جنوری کو سندھ بھر کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بل کے خاتمے کیلئے اب سڑکوں اور عدالت میں فیصلہ ہوگا۔حیدرآباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیوایم کے رہنما محمد حسین خان، مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے صوبائی جنرل سیکریٹری سردار عبدالرحیم، پی ٹی آئی کے رہنما کیو محمد حاکم، بلاول غفاراورجی ڈی اے کے رہنماحسنین مرزا نے کہاکہ سندھ حکومت کے نیا بلدیاتی نظام میںجمہوریت میں آمریت ہے،، کیونکہ اس بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں سے وسائل اور اختیار چھین کر ایک سیکشن آفیسر کے ماتحت کر دیے گئے ہیں اور دہرا میعار اختیار کیا گیا ہے جس سے سندھ کے لوگوں میں محبتیں بڑھنے کے بجائے نفرتیں پیدا ہو ں گی، پیپلزپارٹی جوخود کو طاقتور سمجھتی ہے اس نے ایک بار پھر سندھ کے عوام پر کالا قانون مسلط کردیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ میں حکومت مخالف تمام سیاسی او رمذہبی جماعتوں سمیت شراکت داروں کو ساتھ ملا کر بلدیاتی ترمیمی بل کیخلاف کراچی سے کشمور تک بھرپور احتجاج کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کو یکساں اختیارات ہونے چاہئیں لیکن پیپلزپارٹی نے نہ تو کبھی اپنے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کرائے اور اب یہ بلدیاتی وسائل بھی سلب کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ڈیڑھ سال سے سندھ میں ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے بلدیاتی نظام چلایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ میں بلدیاتی بل آئین کے برخلاف ہے، 26 نومبر کو صوبائی حکومت نے مزید بل پاس کرواکر نمائندگی کے اختیارات کو بلڈوز کیا،سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس بل کو کالابل قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی نے جو قانون منظور کرایا ہے وہ شہری اور دیہی علاقوں کی ترقی کا ضامن نہیں، 18ویں ترمیم کے بعد تمام اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں جس کا وہ ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے اور اگر پنجاب،کے پی کے،بلوچستان میں اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہو سکتے ہیں تو پھر سندھ میں کیوں نہیں ہو سکتے لیکن سندھ حکومت اختیارات کی منتقلی نچلی سطح تک نہیں کرنا چاہتی بلکہ یہ لوکل باڈیز کو اپنا ڈپارٹمنٹ بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی نے کبھی عوام کی اْمنگوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ہمیشہ بلدیاتی ا نتخابات آمروں نے ہی کرائے ہیں، 2015ء میں جب سپریم کورٹ نے بہت دباؤ ڈالا تو تو پھر بلدیاتی انتخاب کرائے گئے جس کے بعد سے بلدیاتی نظالم کو مفلوج کردیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد تمام وسائل سندھ حکومت نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، یونین کونسل کا سیکریٹری بھی صوبائی حکومت مسلط کرتی ہے، آئینی طورپر صوبائی حکومت کوئی ایسا قانون نہیں بناسکتی جو آئین پاکستان کے متصادم ہو، وزیراعلیٰ نے عوام کے اختیارات سلب کئے ہوئے ہیں اور پیپلزپارٹی پاکستان کی عوامی اکائیوں کو لڑانے کی کوشش کررہی ہے۔