شامی مہاجر کاواقعہ سن کر کینیڈین وزیر اعظم آبدیدہ
شیئر کریں
کینیڈا میں شامی مہاجرین کی آمد کا ایک سال مکمل ، مقامی چینل پر شامی پناہ گزینوں کی کینیڈیئن وزیراعظم کے ساتھ ملاقات پر مبنی پروگرام پیش
کرشماتی شخصیت کے مالک کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو دنیا بھر میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے دلوں کی دھڑکن سمجھے جاتے ہیں۔ وجیہ شکل وصورت کے باعث وہ سیاسی سے زیادہ رومانوی شخصیت نظر آتے ہیں۔ دیگر متعدد امور کی طرح انہوں نے مہاجرین کے حوالے سے بھی اپنے انسان دوست موقف کی وجہ سے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔
کینیڈا میں شامی مہاجرین کی آمد کا ایک سال مکمل ہونے پر مقامی چینل CBC نے اپنے صبح کے پروگرام "میٹرو مارننگ” میں شامی پناہ گزینوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کی کینیڈیئن وزیراعظم کے ساتھ ملاقات رکھی۔ پروگرام کے دوران ایک شامی پناہ گزین نے کینیڈا میں اپنی زندگی کے تجربے کے بارے میں بتایا تو جسٹن ٹروڈو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بے ساختہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ یہ شامی شہری اپنے ملک میں موت سے فرار ہو کر پہلے لبنان گیا اور پھر وہاں سے کینیڈا پہنچا تھا۔ طیارے کے ذریعے کینیڈا پہنچنے والے پناہ گزینوں کا استقبال خود جسٹن ٹروڈو نے کیا تھا۔
مذکورہ شامی نے بتایا کہ ایک سال قبل طیارے میں جس شخص نے سب سے پہلے اس کا استقبال کیا وہ ایک کینیڈیئن تھا جس نے کہا "جاؤ اور کینیڈا کو بہتر بناؤ” جب کہ دوسرا چہرا جس نے گزشتہ برس دس دسمبر کو اس شامی پناہ گزین کا خیر مقدم کیا وہ خود جسٹن ٹروڈو کا تھا جنہوں نے ایئرپورٹ پر اس سے کہا "آپ کو اپنے گھر میں خوش آمدید”۔
شامی پناہ گزین نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے توقف کیا اور خاص طور پر بتایا کہ شام میں وہ اپنا گھر اپنا وطن سب کچھ کھو کر المیے کی حالت میں کئی ماہ کے بعد ایک غیرملک پہنچا تو مسکراتے چہرے نے اس کے دل کو عجیب سے اطمینان کے ساتھ سرشار کر دیا۔
غالبا شامی پناہ گزین کے ان جملوں اور احساسات کے سبب ہی ٹروڈو کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے جو مغرب اور شام کے درمیان ہمدردی کے اس حسین تعلق کی کارگزاری پر جذباتی ہو گئے۔
سماجی رابطے کی فارسی ویب سائٹوں نے ایک ایرانی طالب علم کی وڈیو جاری کی ہے جس میں اس نے بشار الاسد کے لیے تہران کی سپورٹ کی روشنی میں شامی عوام کے انسانی المیے کے حوالے سے اپنے ملک کے موقف پر سخت احتجاج کیا ہے۔ تہران کی امیر کبیرطلبا کی یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی میں یوم طلبہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مذکورہ طالب علم نے کہا کہ ” اس میں کوئی ادنیٰ سا شک بھی نہیں کہ ہم شامی بچوں کے آنسوؤں کے سامنے مجرم ہیں۔ تاریخ سب سے زیادہ منصفانہ عدالت ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ تاریخ ہمیں مجرم ٹھہرائے گی اس لیے کہ ہم نے شام میں الم ناک اجتماعی نسل کشی کے حوالے سے خاموشی اختیار کی”۔
اس طالب علم نے یونی ورسٹی ہال میں موجود ایرانی پارلیمنٹ کے نائب اسپیکر علی مطہری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "عالی جناب مطہری ، یہ آپ کا فرض ہے۔ ہم اوروں سے زیادہ توقع نہیں رکھتے لیکن آپ تو عوام کی آواز ہیں لہذا ہمیں آپ سے توقع ہے”۔
یاد رہے کہ مطہری وقتا فوقتا ایران کی صورت حال کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں تاہم ایرانی حکام ان کے ساتھ انتہائی احتیاط سے نمٹتے ہیں کیوں کہ وہ ایرانی نظام کی ایک اہم شخصیت آیت اللہ مرتضی مطہری کے بیٹے ہیں جن کو ایران میں انقلاب کی کامیابی کے آغاز میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد طالب علم نے بقیہ تمام طلبہ کی تالیوں کے بیچ سوال کیا کہ "کیا ہم شام میں حق کے محاذ پر کھڑے ہیں ؟ 5 لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں ، نسلوں کو مٹا دیا گیا اور شام کو تباہ کر دیا گیا ! ہم اس پورے کھیل میں کہاں کھڑے ہیں ؟ اس میں ذرہ برابر شک نہیں ہے کہ شام کے بچوں کے آنسو ہمیں مجرم قرار دیں گے”۔
طالب علم نے مزید کہا کہ ” معذرت کے ساتھ، ہم نے کوئی قابل ذکر آواز نہیں سنی اور کوئی بھی اس اجارہ داری کے موقف کی مخالفت نہیں کر رہا (شام کی صورت حال کے حوالے سے ایرانی حکومت کا موقف) یہاں تک کہ ہم نے مطہری صاحب کی بھی قابل ذکر آواز نہیں سنی”۔
خوف کی زنجیر توڑ دینے والے جرأت مند طالب نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا کہ ” میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ تاریخ کی جانب سے مجرم نہ قرار دیے جائیں تو ہم پر لازم ہے کہ شام کے حوالے سے اپنا موقف متعین کریں”۔