میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ میں زمینوں کی بندر بانٹ۔پابندی کے باوجود وزرائے اعلیٰ الاٹمنٹ کرتے رہے

سندھ میں زمینوں کی بندر بانٹ۔پابندی کے باوجود وزرائے اعلیٰ الاٹمنٹ کرتے رہے

ویب ڈیسک
پیر, ۸ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

قیام پاکستان کے بعد کراچی میں جس شعبہ میں پیسہ کمایاگیا وہ زمینوں کی الاٹمنٹ اورناجائز قبضہ ہے ،کراچی میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک زمینوں کے سلسلے میں کسی بھی قانون پر عمل نہیں کیاگیا
سندھ حکومت زمینوں کی قانونی الاٹمنٹ کرے گی تو پھر اویس مظفرٹپی‘ ذوالفقار مرزا‘ نادرمگسی‘ آغا سراج درانی‘ منظور وسان‘ امیر بخش بھنبھرو‘ بابرغوری ‘چنوں ماموں‘ بشیرخاصخیلی‘ گلزار سومرو جیسے افراد کس طرح راتوں رات کروڑوں پتی بنتے
الیاس احمد
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں اگر کسی شعبہ میں پیسہ کمایاگیا ہے تو وہ زمینوں کی الاٹمنٹ‘ زمینوں پر قبضوں سے کمایاگیا ہے ،کیونکہ کراچی میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک زمینوں کے سلسلے میں کسی بھی قانون پر عمل نہیں کیاگیا جس کے باعث غیرقانونی کام تیز ہوا ہے۔ ایک ہولناک انکشاف یہ ہوا ہے کہ سندھی مسلم سوسائٹی‘ کراچی ایڈمنسٹریٹوسوسائٹی اور پی ای سی ایچ سوسائٹی کی زمین پر ایک فرضی سوسائٹی بنائی گئی جس کا نام اقبال سوسائٹی رکھاگیا، اقبال سوسائٹی کی نہ تو کوئی زمین رہی اور نہ ہی اس کی رجسٹریشن ہوئی مگر اقبال سوسائٹی کے نام پر دو ہزار سے زائد افراد کو پلاٹ الاٹ کیے گئے اور اس کے عوض تین چار ارب روپے کمائے گئے اور پھر نہ پلاٹ رہا اور نہ ہی الاٹمنٹ کرنے والے رہے۔ یہاں فرضی سوسائٹیاں‘ جعلی آبادیاں‘ یہاں قبضے کرکے راتوں رات ہاﺅسنگ اسکیمیں تیار کی گئیں اور کسی نے آج تک ہمت نہیں کی کہ اتنی بڑی جعلسازی کے خلاف اقدام اٹھائے اور جعلسازوں کوکیفرکردار تک پہنچائے اور جو لوگ حکومت‘ پولیس‘ انتظامیہ اور بااثرافراد کے ساتھ مل جل کر یہ کام کرتے رہتے ہیں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا ۔اب حال ہی میں نیب نے ایک چونکا دینے والی رپورٹ تیار کی ہے جو اب سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی۔ اس رپورٹ کو پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زمینوں کی الاٹمنٹ پر سندھ میں1985ءسے مکمل پابندی ہے، ریونیو ایکٹ کے تحت زمینوں کی الاٹمنٹ کا اختیار ڈپٹی کمشنر کو ہوتا ہے۔1985ءمیں اس وقت کی حکومت نے زمینوں کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کردی۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک جتنی بھی الاٹمنٹ کی گئی ہیں وہ وزرائے اعلیٰ نے کی ہیں ۔بورڈ آف ریونیو جتنی بھی سمریاں بھیجتا ہے وہ وزیراعلیٰ سندھ کو منظوری کے لیے بھیجی جاتی ہیں اور اس میں پابندی کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس پابندی کو ختم کرکے زمین الاٹ کی جائے۔ہر وزیراعلیٰ اس سمری میں زمین کی الاٹمنٹ کے لیے پابندی معطل کرکے الاٹمنٹ کردیتا ہے اور سمری منظوری ہونے کے بعد پھر پابندی بحال ہوجاتی ہے اور یہ چوہے بلی کا کھیل تا حال جاری ہے اس سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ1985ءسے لے کر آج تک کوئی بھی حکومت قانون کے مطابق زمین الاٹ نہیں کررہی ہے اور پابندی برقرار رکھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ عام آدمی یا حقدار زمین الاٹ ہی نہ کرواسکے کیونکہ ریونیو ایکٹ کے تحت ہرڈپٹی کمشنر کھلی کچہری لگائے گا اور زمین کی الاٹمنٹ کے لیے درخواستیں لے گا اور پھر کھلی کچہری میں وہ سب کے سامنے تمام درخواستوں کو مدنظررکھ کر زمین کی الاٹمنٹ کا اعلان کرے گا۔ ڈپٹی کمشنر تک علاقہ کے لوگوں کی رسائی بھی ہوسکتی ہے اور طریقہ بھی شفاف ہوتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور مقدمات بھی نہیں ہوتے اور پھر ڈپٹی کمشنر کے پاس اعتراضات بھی دائر کیے جاتے ہیں، وہ بھی کھلی کچہری میں سنے اور حل کیے جاتے ہیں۔ جب الاٹمنٹ وزیراعلیٰ کریں گے توپھر عام آدمی کی پہنچ بھی نہیں ہوسکتی اور پھر کھلی کچہری کی طرح شفافیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ تو من پسند الاٹمنٹ کرے گا جس سے اعتراضات بھی اٹھتے ہیں اور معاملات عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور نیب‘ محکمہ اینٹی کرپشن اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے پاس تحقیقات چلی جاتی ہےں۔ یہ وہ معاملات ہیں جس کے باعث کراچی میں زمینوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ پراسرار ہوگیا ہے ایک طرف صوبائی حکومت قانونی راستے سے زمینیں الاٹ نہیں کررہی ہے دوسری جانب فطری طور پر آبادی بھی بڑھ رہی ہے تو پھر لوگوں کو سر چھپانے کے لیے ایسے غیرقانونی اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ نتیجہ میں لاکھوں افراد عدالتوں اور تحقیقات کے چکر میں پھنس گئے ہیں اس کا کیا حل ہے؟ اور کوئی بھی صوبائی حکومت آخرزمینوں کی الاٹمنٹ کے لیے قانونی راستہ کیوں نہیں اپناتی؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اگر حکومت سندھ زمینوں کی الاٹمنٹ قانونی طور پر کرے گی تو پھر اویس مظفرٹپی‘ ذوالفقار مرزا‘ نادرمگسی‘ آغا سراج
درانی‘ راشدشاہ راشدی‘ منظور وسان‘ جام سیف اللہ دھاریجو‘ امیر بخش بھنبھرو‘ بابرغوری ‘چنوں ماموں‘ بشیرخاصخیلی‘ گلزار سومرو جیسے افراد کس طرح راتوں رات کروڑوں روپے کمالیں گے اور پھر کس طرح آصف زرداری‘ الطاف حسین‘ فریال تالپر کے پاس جاکر منت سماجت کریں گے کہ ان کی سرپرستی کی جائے تاکہ وہ زمینوں پر قبضے کریں اور بھاری رقومات کماکر خود بھی رکھیں اور سرپرستوں کو بھی دیں۔ اس طرح جو پولیس افسران ہیں وہ بھی زمینوں پر قبضے کرنے اور قبضے چھڑانے میں دن رات مصروف رہتے ہیں ،کراچی میں ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار ایسے افسر ہیں جو اب زمینوں کے قبضوں کے سلسلے میں خود ایک مافیا بن چکے ہیں۔ اس طرح کئی دوسرے پولیس افسران بھی دن رات زمینوں پرقبضوں میں ملوث ہیں ،اس وقت بورڈ آف ریونیو کے چپراسی بھی کروڑ پتی بن چکے ہیں کیونکہ وہ بھی اس کارخیر میں شامل ہوگئے ہیں۔ انہیں کسی قبضہ والی زمین پر اگر ایک دو پلاٹ مل جاتے ہیں تو ان کو فروخت کرکے کروڑ دو کروڑ روپے کمالیتے ہیں اور یہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں اور احتساب واینٹی کرپشن عدالتوں میں زمینوں کی الاٹمنٹ کے 500 سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں لیکن کسی کو اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس کھیل کو بند کرے اور زمینوں کی الاٹمنٹ پر عائد پابندی ختم کرکے قانونی طریقے سے الاٹمنٹ کا اعلان کردے، لیکن پھر وہ کیا کھائے گا؟ بس اس کمانے کے چکر میں لاکھوں افراد کے کروڑوں اربوں روپے پھنس چکے ہیں اور وہ عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبورہوگئے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں