کیا چیئرمین نیب خود کوقانون سے بالاتر سمجھتے ہیں؟پی اے سی شدید برہم
شیئر کریں
پبلک اکا ؤنٹس کمیٹی نے قومی احتساب بیورو کے چیئر مین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کے کمیٹی میں نہ آنے پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے نمائند ے ڈائریکٹر فنانس کو کمیٹی سے نکال دیا اور کہاکہ چیئرمین نیب خود کو مقدس گائے اور قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، سیاستدا نوں کے ایک ایک انچ کا حساب رکھتے ہیں خود جو قومی خزانے سے خرچ کررہے ہیں اسکا حساب دینے کوتیار نہیں۔ کمیٹی نے سیکریٹری اسٹیبشلمنٹ، سیکریٹری فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے نہ آنے پر بھی ان کے نمائندوں کو بھی اجلاس سے نکال دیا،جبکہ کمیٹی نے وزارت پٹرولیم کے مالیاتی نظام کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس کی تنظیم نو کی بھی ہدایت کردی۔ پی اے سی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت گزشتہ روز پارلیمنٹ میں ہو ا جس میں مختلف وزارتوں کی طرف سے ہر ماہ محکمانہ کا ونٹس کمیٹی کے اجلاس منعقد نہ کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔چیئرمین نیب جسٹس(ریٹائرڈ)جاوید اقبال کے اجلاس میں نہ آنے پر اراکین پھٹ پڑے اور کہا کیا چیئرمین نیب قانون سے بالاتر ہیں،اپنے آپ کو مقدس گائے سمجھتے ہیں۔ سردارایاز صادق نے کہا کہ اگر چیئرمین نیب اور سیکریٹری نہیں آتے تو پھر ہمیں مستعفی ہوجانا چاہیے ، چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے کہا کہ چیئرمین نیب سب سے حساب لیتے ہیں اپنا حساب نہیں دیتے،قومی خزانے سے پیسہ خرچ کرینگے تو حساب دینا پڑے گا،ہمارا ایک ایک انچ کا حساب رکھا جاتا ہے، لیکن خود کمیٹی کے سامنے آنے کو تیار نہیں ،اگر انہوں نے حساب نہیں دینا تو کسی اور کو پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر بنا دیں۔چیئرمین پی اے سی نے مزید کہا کہ چیئرمین نیب آنکھیں کھولیں اور ہمیں اپنے مالیاتی حسابات کا حساب دیں۔ سیکریٹریوں سے کم سطح کے افسران کے اجلاس میں آنے پر کمیٹی نے اظہار بر ہمی کرتے ہوئے ڈی جی فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور ڈائریکٹر فنانس کو اجلاس سے نکال دیا ، بار بار ٹوکنے پر چیئرمین پی اے سی رانا تنویر سابق اسپیکر ایاز صادق پر بھی برس پڑے جس پر ایاز صادق نے کہا کہ جو معاملہ ذیلی کمیٹی نے طے کردیا اسے منظور کرنے کا اعلان کردیں، رانا تنویر حسین نے کہا کہ ایک تو جو اسپیکر بن جاتا ہے آدھا پاگل ہوجاتا ہے۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ نادہندہ اداروں کی گیس کیوں نہیں کاٹی جاتی ،سوئی گیس کمپنیوں کے سربراہوں کی تقرری کون کرتا ہے ان کی تنخواہ کتنی ہے جو تقرری کرتا ہے اس کی تنخواہ کم اور جس کی تقرری ہوتی ہے اس کی زیادہ ہوتی ہے ،گیس کمپنیوں کے لائن لاسز کتنے ہیں ڈیٹا دیا جائے۔ پی اے سی نے بھی گیس کمپنیوں کے سربراہوں کی تنخواہوں کی بھی تفصیلات مانگ لیں، چیئر مین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مزید ہدایت کی کہ نادہندہ کمپنیوں اور اداروں نے طاقت ور وکلاء رکھے ہوئے ہیں،جج چہرہ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں ،حکومت کی نمائندگی اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کرتے ہیں جو طاقتور وکلاء کے آگے کچھ بھی نہیں بولتے۔ وزارت پیٹرولیم کی تنظیم نو کی ضرورت ہے، مالیاتی ڈسپلن نہ ہونے کے برابر ہے ہر شعبہ اور ہر ادارہ خراب ہے ریگولیٹرز آنے سے بھی صورتحال بہتری نہیں ہوئی اوگرا،نیپرا جیسے ادارے من مانیاں کرتے ہیں وزارت کی سنتے ہی نہیں۔ایسے ریگولیٹرز اداروں کا احتساب ہی نہیں ہو رہا ایسے ادارے بہت طاقتور ہیں۔واجبات کی وصولی نہیں ہورہی ہے۔اس سے قبل سیکریٹری پٹرولیم ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ مختلف پیٹرولیم کمپنیوں کے ذمہ گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس جی آئی ڈی سی کے 349 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ یہ واجبات 3304 مختلف کمپنیوں اور صارفین کے ذمہ ہیں۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کے واجبات کے حوالے سے عدالتوں کے کئی کئی سالوں سے حکم امتناعی ہیں، حالانکہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ حکم امتناعی 6 ماہ سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اب حکم امتناعی کی آڑ میں یہ ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں۔ پی اے سی کو پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ سوئی ناردرن نے 68 ارب اور سوئی سدرن نے 159 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔ ماڑی گیس کمپنی کے بھی 119 ارب روپے زیر التوا ہیں۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ کھاد سیکٹر سمیت مختلف شعبوں کی کمپنیوں نے صارفین سے ٹیکس وصول کیا تاہم جی آئی ڈی سی کی رقم حکومت کو منتقل نہیں کی گئی۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ جی آئی ڈی سی 2015 ایکٹ کے تحت لاگو کیا گیا۔کمیٹی کے رکن شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ایم ڈی سوئی ناردرن کی تنخواہ 68 لاکھ روپے ہے ، اس بھارتی تنخواہ کاکوئی جواز بنتا ہے۔ سیکریٹری پیٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ موجودہ ایم ڈی سوئی ناردرن سلیکشن بورڈ کی فہرست میں پہلے دو نمبر پر نہیں تھے۔ حنا ربانی کھر نے کہاکہ سوئی نادرن کے ایم ڈی کی تقرری کے بعد گزشتہ 3 ماہ سے نقصانات میں کمی نہیں آئی۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ واجبات کی وصولیوں کیلئے اچھے وکیل کئے جائیں۔