فوج کا حامی ہوں جرنیلوں کا نہیں،سینیٹر مولانا عطاء الرحمن
شیئر کریں
جے یو آئی(ف) کے رہنماء سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ کٹھ پتلیوں اور پشت پناہی کرنے والوں کو گھر جانا ہوگا ہم بھی پاک فوج کے آدمی ہیں مگرجرنیلوں کے نہیں کوئٹہ جانے کے لئے بھی یہ اشاروں کے منتظرہیں، رپورٹ موجود ہے نیب کی سب سے زیادہ ریکوری جرنیلوں سے ہوئی ۔ جمعہ کو اس امر کا اظہار انھوں نے ایوان بالا کی کاروائی کے دوران کیا۔ اجلاس چیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا، سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ بلوچستان میں اتنا بڑا سانحہ ہو چکا ہے ان کے منہ پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔ سب پوچھ رہے ہیں بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے غم میں وزیراعظم کیوں شریک نہیں ہوئے ؟ انھوں نے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ وزیراعظم کو ادھر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی۔جب وزیراعظم کو اجازت مل جائے گی تو وزرا بھی لائن میں پہنچیں گے ۔وزیراعظم خود تسلیم کرتے ہیں ۔ میرے پاس اہل ٹیم نہیں ۔ہزارہ کمیونٹی کو کہتا ہوں یہ بے حس ہیں ان کے کان پر جون تک نہیں رینگے گی *بہتر ہے کہ آپ لاشوں کی توہین نہ ہونے دیں اور فوری تدفین کریں۔ میں ہزارہ کمیونٹی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میتوں کی تدفین کردیں۔ایک سینیٹر نے یہاں کہا کہ میں فوج کا آدمی ہوں یہ فوج کا آدمی نہیں جرنیلوں کا آدمی ہے ۔ہم فوج کے آدمی ہیں ہاں میں فوج کا حامی ہوں جرنیلوں کا نہیں۔کم از کم آج کے دن تو اس سینیٹر کو وزیراعظم کو شاباش نہیں دینی چاہیے تھی کیونکہ بلوچستان میں سڑک پر میتیں پڑی ہیں۔وزیراعظم وہاں نہیں جا سکتے اور بلوچستان کا ایک سینیٹر ان کو شاباش دے رہا ہے ۔ ہمیں اپنی بہادری فوج پر فخر ہے سرحد اور ملک کا دفاع کرنے والی یہ فوج ہماری آنکھوں کی پلکیں ہیں۔ اگر کوئی حکومت اور سسٹم پر حاوی رہنا چاہتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کہ لوگ اس بارے میں بات نہیں کریںگے ۔یہ ملک قوم نے بنایا ہے ۔خان صاحب نے خود تسلیم کیا کہ میں ناکام ہوا ہوں ناتجربہ کار لوگوں کو حکومت نہیں کرنی چاہیے اور یہ وقت بھی آنا تھا کہ وزیراعظم تعزیت اور تدفن کے لیے اشاروں کے منتظر ہیں۔ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نیب کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی پیش ہوں گے ۔ کیونکہ نیب کا کام صرف سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنا رہ گیا ہے ۔ماضی میں پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ آئی تھی جو نیب کیسز میں ریکوری کے حوالے سے تھی سب سے زیادہ ریکوری جرنیلوں سے ہوئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ساڑھے سات ارب روپے جرنیلوں،پانچ ارب روپے بیوروکیٹ اورسیاست دانوں سے دو ،اڑھائی ارب روپے کی ریکوری ہوئی۔ چیئرمین سینٹ سے اپیل ہے کہ ریکارڈ کو منگوایا جائے ۔فارن فنڈنگ کیس پر بات کیوں نہیں ہوتی۔مولانا فضل الرحمن پر الزامات جھوٹ کا پلندہ ہے ایسے وزراء الزام تراشی کر رہے ہیں کہ جن کے کردار کے بارے میں اپنی شرافت کی وجہ کچھ نہیں کہتے کچھ کہہ دیں تو یہ گلی،کوچوں میں منہ چھپاتے پھریں گے نیب اور حکومت اپنی حد میں رہے حد عبور کریں گے تو ایک وقت ایسا آ سکتا ہے کہ ہمارے صبر کا پیمانے بھی لبریز ہو جائے گا جواب دیں گے تو الزام تراشی کی جائے گی۔ پی ڈی ایم پاکستان کا مستقبل ہے اس پر ”را” کا ایجنٹ ہونے کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے ۔جس سینیٹر نے یہ بات کی ہے اسے معافی مانگنی چاہیے کہ پارلیمنٹ کی توہین ہے یہ لوگ خیر خواہ نہیں ہیں۔پارلیمنٹ چلانا اور مستقبل کو محفوظ کرنا ہے کہ تو کٹھ پتلیوں کو جانا ہوگا اور ان کے اوپر جو لوگ بیٹھے ہیں ان کو بھی گھر جانا ہوگا۔قبل ازیں سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان ہمیشہ دہشتگردی کے زد میں رہا۔چند لوگ مچھ سانحہ پر سیاست کررہے ہیں۔وزیراعظم کو مچھ جانا چاہئے اور ضرورجائیں گے ۔کہا جاتا ہے کہ پارلیمان والے ایک کرنل یا بریگیڈ یئر کے ماتحت ہوتے ہیں۔فخر سے کہتاہوں کہ میں افواج پاکستان کا ہوں، را کا نہیں۔مجھے اپنی افواج پہ فخر ہے ۔کاش پی ڈی ایم کا بیانیہ پاکستان کیلئے ہوتا۔پی ڈی ایم فورس و ایجنسیوں کے خلاف بات کرتے ہیں۔عسکری اداروں کے سربراہان پاکستان کا چہرہ ہے ۔ پی ڈی ایم ان کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے لیڈروں کے خلاف بات کریںگے توکیا ان کو بُرا نہیں گا۔سینیٹر محسن عزیز کا نقطہ اعتراضپر کہا کہ ڈپٹی چئیرمین سلیم مانڈوی نے میری غیر موجودگی میں میرا ذکر کیا۔میں بیرون ملک تھا سلیم مانڈوی نے میرے بارے کہا کہ میں نیب کے سامنے پیش نہیں ہو رہا۔میں دو مرتبہ نیب کے سامنے پیش ہوا۔اب ڈپٹی چیئرمین کو بھی چاہئے کہ وہ بھی نیب کے سامنے پیش ہوں۔تحریک التوا پر اظہار خیال کرتے ہوئے سنیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈان جاری ہے ۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم سمیت دیگر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ باعث شرم ہے ،یہ حکومت اس ملک کو کہاں لے جارہے ہیں۔پی ڈی ایم کا مطالبہ ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہوں۔پی ٹی ایم کے رہنماں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے ۔*سینیٹر سسی پلیجو مچھ واقعے پر پوری قوم میں سخت غم وغصہ ہے ۔وزیراعظم اس معاملے پر صرف ترجمانوں سے مشورہ کرتے ہیں ۔انتقامی کارروائی کے لیے آجکل نیب سے بڑا ٹول ہے ۔کیا حکومتی نمائندے دودھ کے دھلے ہیں؟ پی ڈی ایم کے جلسوں پر تنقید کرنے والے اپنے جلسے بھول گئے ۔گیارہ جماعتوں کے اتحاد کے جلسے غیر آئینی نہیں۔