میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارتی پارلیمنٹ میں ہنگامہ، افسپاقانون ختم کرنے کا مطالبہ

بھارتی پارلیمنٹ میں ہنگامہ، افسپاقانون ختم کرنے کا مطالبہ

ویب ڈیسک
منگل, ۷ دسمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

بھارتی ریاست ناگالینڈ میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکت کے دوسرے روز پر تشدد کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ریاستی پولیس نے عام شہریوں کی ہلاکت کے لیے فوج کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست ناگا لینڈ میں اتوار کی شام کو سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی، جس میں ایک اور شہری ہلاک ہو گیا۔ اس طرح اس واقعے میں اب تک 14 عام شہری اور ایک فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ریاست میں شدید کشیدگی کا ماحول ہے اور حکام نے امتناعی احکامات کے تحت دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے۔ متاثرہ ضلع میں کرفیو نافذ ہے جبکہ بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ اور فون کی سہولیات معطل کر دی گئی ہیں۔ اس دوران مقامی لوگوں اور متعدد تنظیموں نے ہلاک ہونے والے عام شہریوں کے لیے شمعیں روش کیں۔ تشدد کا آغاز ہفتہ کو اس وقت ہوا تھا جب نیم فوجی دستوں نے عسکریت پسندوں کے شبے میں چھ مزدروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے خلاف پر تشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہو ئے۔ مظاہروں کے دوران مقامی لوگوں نے فوجی کیمپوں کی طرف مارچ کیا اور ان پر حملے شروع کر دیے۔ فوج نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں مزید سات افراد ہلاک ہو گئے۔اس دوران ریاستی حکومت نے فوج کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے کہ فورسز نے دانستہ طور پر عام شہریوں کو قتل کیا۔ پولیس نے فوجی یونٹ پر ارادتا قتل کا الزام لگایا ہے۔ واقعے کی تفتیش کے لیے ریاستی پولیس کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے۔پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، "واضح رہے کہ اس واقعے کے وقت کوئی پولیس گائیڈ موجود نہیں تھا اور نہ ہی سکیورٹی فورسز نے مقامی پولیس اسٹیشن سے اپنے آپریشن کے لیے گائیڈ فراہم کرنے کی کوئی درخواست دی تھی۔ لہذا یہ ظاہر ہے کہ سکیورٹی فورسز کا ارادہ عام شہریوں کو قتل اور زخمی کرنا تھا۔” بھارت کی بعض شمال مشرقی ریاستوں اور کشمیر میں ‘آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ(افسپا) نافذ ہے۔ اس قانون کے تحت فوج اور نیم فوجی دستوں کو ایسے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سرچ آپریشن، گرفتاری، مار پیٹ کرنے اور آپریشن کے نام پر کسی کو بھی ہلاک کرنے کی مجاز ہیں اور جب تک مرکزی حکومت اجازت نہ دے اس وقت تک فوج کے خلاف کوئی کارراوئی بھی نہیں کی جا سکتی۔ناگا لینڈ کی ریاستی حکومت نے فوج کے خلاف قتل کا مقدمہ تو درج کر لیا ہے تاہم جس فوجی دستے نے یہ کارروائی کی ہے اس کے خلاف کارروائی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ بھارتی حکومت شاذ و نادر ہی اس کی اجازت دیتی ہے۔ اس دوران ناگا لینڈ کی حکومت اور ریاست کی متعدد تنظیموں نے اس متنازعہ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی نیفیو ریو نے حکومت پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی کہ، "مرکزی حکومت ہر برس ریاست کو ایک ڈسٹرب علاقہ بتا کر ناگا لینڈ میں افسپا میں توسیع کر دیتی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ناگا لینڈ کے، "تمام مسلح گروپ جنگ بندی اور امن مذاکرات کے عمل میں بھی شامل ہیں تو پھر اس میں توسیع کیوں کی جاتی ہے؟ اس کے ہٹانے پر بحث بھی ہو رہی ہے اور جب ہم ایک بڑی جمہوریت ہیں تو اسے ہٹاتے کیوں نہیں۔”اس دوران حکومت نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اعلی سطح پر ہونے والی تفتیش کا انتظار ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس حوالے سے پارلیمان میں ایک بیان دیا اور کہا کہ اب حالات قابو میں ہیں اور حکومت کی تازہ صورتحال پر گہری نظر ہے۔ ادھر حزب اختلاف کی تقریبا سبھی جماعتوں نے بھی اس واقعے کی مکمل تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے متاثرین کے ساتھ انصاف کے لیے آواز اٹھائی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں