28 وزرا ء اور 16 وزرائے مملکت پر مشتمل نئی وفاقی کابینہ کیا عوام کی توقعات پر پوری اُترے گی
شیئر کریں
نااہل نواز شریف کے نامزد کردہ مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی 44 رکنی کابینہ کے ارکان نے گزشتہ روز اپنی وزارتوں کا حلف اٹھا لیا۔ صدر ممنون حسین نے ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں ان سے حلف لیا۔ اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اعلیٰ سول و عسکری حکام بھی موجود تھے۔ نئی کابینہ مجموعی طور پر 47 ‘ ارکان پر مشتمل ہے جس میں 28 وفاقی وزرااور 19 وزرائے مملکت شامل ہیں تاہم کابینہ میں شامل 3 وزرائے مملکت دانیال عزیز‘ ممتاز تارڑ اور دوستین ڈومکی نے گزشتہ روز حلف نہیں اٹھایا۔ دانیال عزیز کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے بطور احتجاج حلف نہیں اٹھایا کیونکہ وہ وزیر مملکت کے بجائے مکمل وزیر کی حیثیت سے کابینہ میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ نئی وفاقی کابینہ میں نوازشریف کی کابینہ میں سے لیے گئے بعض وزرا اور وزرا ئے مملکت کی وزارتوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ ان میں سے خواجہ محمد آصف کو وزارت خارجہ‘ احسن اقبال کو وزارت داخلہ اور خرم دستگیر کو وزارت دفاع کا قلمدان دیا گیا ہے جبکہ خواجہ سعدرفیق کے ریلوے‘ اسحاق ڈار کے خزانہ اور وزیر مملکت مریم اورنگزیب کے اطلاعات و نشریات کے قلمدان برقرار رکھے گئے ہیں۔
وفاقی کابینہ میں شامل کیے گئے نئے چہروں میں سے جنید انوار‘ طلال چوہدری ،مشاہد اللہ،ارشد لغاری ،پرویز ملک اور محسن شاہنواز کو وزیر مملکت بنایا گیا ہے۔ گزشتہ روز 28 وفاقی وزرااور 16 وزرائے مملکت نے اپنے مناصب کا حلف اٹھایا۔ نئی وفاقی کابینہ میں نوازشریف کے دیرینہ مشیر ، مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کوسردست شامل نہیںکیاگیاہے۔پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت نوازشریف کے نااہل قرار پانے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سخت تحفظات رکھنے کے باوجود حکومت سے چمٹے رہنے کا فیصلہ کیااورنواز شریف کے اشارے پر ان کے نامزد امیدوار کو وزیر اعظم منتخب کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اب بھی نواز شریف کے ساتھ ہیں۔نواز شریف کے اشارے پر شاہد خاقان عباسی کا انتخاب اور ان ہی کی مشاورت پر کابینہ کا انتخاب کراکے دراصل نواز شریف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے پاکستان میں غیر محسوس طریقے سے خاندانی بادشاہت قائم کرلی ہے اور اب ان کی نااہلی کے باوجودکوئی رکن اسمبلی ان کے حکم کی سرتابی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
قطع نظر اس کے کہ شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ جیسے اہم منصب کے لیے کس قدر موزوں ہیں یا موزوں ثابت ہوسکتے ہیں، یہ امر واضح ہے کہ شاہد خاقان عباسی کاشمار بھی مسلم لیگ کے دیگر رہنمائوں کی طرح مسٹر کلین میں نہیں ہوتااور ایل این جی اسکینڈل ان کے سرپر تلوار کی طرح اس وقت تک لٹکتا رہے گا جب تک اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی نہیں کیاجاتا۔اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی مختلف مقدمات میںملوث ہیں اور ان کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ کسی بھی وقت وہ بھی نااہل قرار دیے جاسکتے ہیں بلکہ مولانا طاہر القادری اورعمران خان کی جانب سے عاید کیے جانے والے الزامات درست ثابت ہونے کی کوشش میں انھیں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑسکتی ہے ،اگرچہ نواز شریف کے دیرینہ حلیف مولانا فضل الرحمٰن جو خود بھی کشمیر کمیٹی کے کروڑوں کے فنڈز کا حساب کتاب پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں اسی طرح کے مقدمات کی لپیٹ میں آکرسیاست سے باہر ہوسکتے ہیں ،گزشتہ روز اچانک ٹی وی پر نمودار ہوکر مولانا فضل الرحمن نے اپنے زور دار بیان میں شاہد خاقان عباسی ، شہباز شریف، نواز شریف ، اور ان کے خاندان اور پارٹی کے کئی اہم رہنمائوں پر خورد برد ، کرپشن ، قتل اور اس طرح کے دیگر سنگین الزامات کوجمہوریت کے خلاف سازش قرار دینے کی کوشش کی اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ آمریت کو جمہوریت سے بہتر ثابت کرنے کی فضا بنائی جارہی ہے۔
وفاقی کابینہ میں خواجہ محمد آصف کو وزارت خارجہ کا منصب دے کر مقتدر حلقوں کو غالباً یہ تاثر دینا مقصود نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو قومی سیاست اور سسٹم میں ان کی بالادستی ہرگز قابل قبول نہیں۔ خواجہ آصف کو جو ماضی میں ماورائے آئین اقدامات کے حوالے سے عسکری قیادتوں پر گرجتے برستے رہے ہیں‘ میاں نوازشریف کی کابینہ میں وزارت دفاع کا اضافی چارج دینا بھی عسکری حلقوں کے لیے یہی ایک پیغام تھا جبکہ ان حلقوں کے لیے وزارت خارجہ کی وزارت دفاع سے بھی زیادہ اہمیت ہے جس کا قلمدان نئی کابینہ میں خواجہ محمد آصف کو سونپ کر میاں نوازشریف کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا تسلسل قائم رکھنے کا پیغام دیا گیا ہے۔مریم اورنگزیب کے بارے میں یہ توقع تھی کہ پاناما کیس میں میڈیا پرنواز شریف کی پرزور وکالت کرنے اور وزیرمملکت کی حیثیت سے میڈیا کے ساتھ حکومت کے تعلقات کار میں بہتری لانے کی بنیاد پر انہیں اطلاعات و نشریات کی مکمل وزارت کا مکمل قلمدان دیا جائیگا‘ مگر انہیں اس وزارت میں بطور وزیر مملکت ہی برقرار رکھا گیا ہے تو وہ یقیناً اس پر بھی خوش اور مطمئن ہونگی تاہم مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ان کی پارٹی کے لیے کمٹمنٹ کی ضرور پاسداری کرنی چاہیے۔ وفاقی کابینہ میں پرویز ملک کو مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر کی حیثیت سے پارٹی کے ابتلا ء کے دور میںبھی پارٹی کارکنوں کو متحرک اور پارٹی کاز کے ساتھ وابستہ رکھنے میں ان کی کوششوں کے انعام کے طورپر وزارت کاقلمدان دیاگیاہے۔ اسی طرح اسحاق ڈار‘ خرم دستگیر اور خواجہ سعدرفیق کو بھی میڈیا پر نواز شریف کی حمایت میں مخالفین خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف پر گرجنے برسنے کا انعام تو دیاہی جاناتھا، اس طرح کابینہ میں ان کو شامل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے برے وقت کے ساتھیوں کو نظر انداز نہیں کرتی اور ان کو کہیں نہ کہیں ایڈ جسٹ ضرور کیاجاتاہے، تاہم غیر جانبدار حلقے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ خرم دستگیر کا دفاع سے کیاتعلق اور وہ وزیر دفاع کی حیثیت میں شوپیس سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوں گے۔ یہ اہم عہدہ کسی سابق اور تجربہ کار فوجی کو دیاجاناچاہئے تھا، جہاں تک سینیٹر مشاہد اللہ کو کابینہ مں شامل کیے جانے کاتعلق ہے تو انھیں بھی یقینا میڈیا پر اپوزیشن خاص طورپر تحریک انصاف کے خلاف ان کی شعلہ بیانی کی بنیاد پر ہی سابقہ قلمدان سے نوازاگیاہے کہ وہ کابینہ کے رکن کی حیثیت سے نواز شریف اور نئی کابینہ کی خامیوں اور غٖلط کاریوں کی پردہ پوشی میں زیادہ کار آمد ثابت ہوں گے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں حجم کے اعتبار سے یہ بہت چھوٹی کابینہ نہیں ہے تاہم مسلم لیگ ن کو متحد رکھنے اور بعض افراد کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے وزارت کی ہڈی ڈالنا ضروری ہوتی ہے ، اور یہ ایک عام فہم بات ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن اپنی طاقت کے تمام تر مظاہرے کے باوجود اندرونی طورپر ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے جس کااندازہ کابینہ کی تشکیل کے وقت بعض سینئر رہنمائوں کی جانب سے سامنے آنے والے اعتراضات اور دانیال عزیز جیسے لوگوں کی کابینہ میں شمولیت سے انکار،اور شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی سے خالی ہونے والی نشست پر انتخاب لڑنے سے انکار اورمسلم لیگ ن کی جانب سے بار بار جمہوریت کو لاحق خطرات کا رونارونے سے لگایاجاسکتاہے۔ایک بڑی کابینہ حکمراںمسلم لیگ ن کی اشد ضرورت تھی۔ اس کابینہ کو دیکھ کر واضح نظر آتاہے کہ اس کابینہ کی تشکیل کااصل مقصد حکمراں مسلم لیگ ن کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے، اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ نئے وزرا کو پارٹی کومنظم اور متحدرکھنے کی ذمہ داری پوری کرنے کے ساتھ ہی عوام کی توقعات پر بھی پورا اترنے کی کوشش کرنا ہوگی،اب دیکھنا یہی ہے کہ نئے وزرا ء عوام کی توقعات پر کس حد تک پورا اترتے ہیں یا پارٹی کے مفادات سے آگے بڑھ کر عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔