شمالی کورین سفارتکار پر تشدد ،صوبائی حکومت کے اقدامات کا انتظار
شیئر کریں
محکمہ ایکسائزکے افسرنے جرائم پیشہ افرادوخاتون کے ساتھ سفارتکار کے گھر پر دھاوا بول دیا‘ سفارتکار کی اہلیہ کو بھی زدوکوب کیاگیا
ای ٹی او نے کارروائی سے مکرنے کی بھی کوشش کی،خفیہ کیمرے کی ویڈیو کے بعد اعتراف کیا،شراب کی کھیپ کی اطلاع تھی،شا ہجہاں بلوچ
الیاس احمد
سرکاری ادارے جب بے لگام حکمرانوں کو دیکھتے ہیں تو وہ خود بھی مطلق العنان بن جاتے ہیں اور پھر وہ ایسی حرکتیں کرجاتے ہیں جس سے نہ صرف جگ ہنسائی ہوتی ہے بلکہ ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔9اپریل2017ءکو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر (ای ٹی او) نے شمالی کوریا کے سفارتکار کے گھرپر دس افراد کی ٹیم کے ساتھ چھاپامارا ،گھر میں گھس کر سفارتکار اور ان کی اہلیہ پر تشدد کیا، ان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں جس نے سفارتکار کی اہلیہ کے منہ پر پسٹل اور بندوق کے بٹ مار کر چہرہ زخمی کردیا۔ ان کو بالوں سے گھسیٹا گیا ،ان پر ایسا وحشیانہ تشدد کیا کہ وہ لاغر ہوگئیں۔ اسی طرح باقی8 اہلکار بھی سفارتکار پر تشدد کرتے رہے مگر ان کوکوئی یہ نہیں بتارہا تھا کہ آخر ان کو کیوں تشدد کا نشانہ بنایاگیا؟ ایک سے سوا گھنٹے تک گھر کی تلاشی لی گئی اور ان کو کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس کی ان کو تلاش تھی۔ بالآخر گھر کی چابیاں‘ موبائل فون‘ ایک خفیہ کیمرہ اپنے ساتھ لے کر مسلح عملہ واپس چلاگیا۔ سفارتکار اور ان کی اہلیہ پر ایسا ذہنی وجسمانی تشدد کیاگیا کہ ان کے حواس خطا ہوگئے اور پھر سفارتکار نے اسلام آباد میں واقع اپنے ملک کے سفارتخانے کو آگاہ کیا۔ سفارتخانہ نے پہلے وفاقی وزارت خارجہ اور وفاقی وزارت داخلہ سے بات کی، پھر وفاقی اداروں نے حکومت سندھ سے بات کی، اور پھر سفارتکاروں نے آخر محکمہ ایکسائز کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتیں کیں اور ان کو سفارتکار کے گھر کے خفیہ کیمرے کی ریکارڈنگ فراہم کی۔ ریکارڈنگ دیکھنے کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ کارروائی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر شاہ جہاں بلوچ نے کی تھی۔ جب اعلیٰ حکام نے شاہ جہاں بلوچ کو طلب کیا تو پہلے وہ مکرگیا اور مو¿قف اختیار کیا کہ ان کو تو کچھ پتہ نہیں ہے جب ان کو سفارتکار کے گھر کی خفیہ ریکارڈنگ کا بتایاگیا تو وہ پھٹ پڑا، اس نے حکام کو بتایا کہ شہر میں غیر ملکی شراب شوکت نامی ایک شخص فراہم کرتا ہے۔وہ اپر کلاس‘ مہنگے ہوٹلوں‘ اعلیٰ افسران‘ بااثر سیاسی رہنماﺅں‘ پوش علاقوں میں غیرملکی شراب فراہم کرتا ہے اور متعلقہ قانونی اداروں کے نیچے سے لے کر اوپر تک ہر ماہ بھتہ دیتا ہے۔ غیرملکی شراب شمالی کوریا کے سفارتکار کے گھر سے لیتا ہے ،ان کو جب اطلاع ملی تو سفارتکار کے گھر پر چھاپا مارا مگر اس کو وہاں کچھ نہ ملا۔ حکام نے شاہ جہان بلوچ سے سوال کیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ سفارتکاروں کو جنیوا کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہے، ان کے گھر یا پھر سفارتخانے پر یا ان کی گاڑی پر چھاپا نہیں مارا جاسکتا، تو اس کا جواب تھا کہ اس کو صرف اتنا پتہ ہے کہ سفارت خانے یا ان کی گاڑی پر چھاپا نہیں مارا جاسکتا۔ ان کے گھروں کو حاصل تحفظ کے بارے میں وہ لاعلم ہے ،ان سے پوچھا گیا کہ باقی9 اہلکار بشمول خاتون کون تھے؟ وہ کس جگہ ڈیوٹی دیتے ہیں؟ اس پر شاہ جہان بلوچ نے چونکا دینے والا انکشاف کیا جس پر محکمہ ایکسائز کے اعلیٰ حکام انگشت بدنداں رہ گئے ،اس نے انکشاف کیا کہ محکمہ ایکسائز کے انسپکٹرز اور ای ٹی اوز جب کوئی کارروائی کرنے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ غیر سرکاری لوگ ہوتے ہیں جو اکثرجرائم پیشہ ہوتے ہیں اور شمالی کوریا کے سفارتکار کے گھر پر چھاپے کے لیے بھی غیر سرکاری افراد یا جرائم پیشہ افراد استعمال کیے گئے اور خاتون بھی جرائم پیشہ افراد کی ساتھی تھی۔ اعلیٰ افسران سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور پھر27 اپریل کو شمالی کوریا کے سفارتکار نے ایک مکتوب محکمہ ایکسائز حکومت سندھ کو لکھ دیا جس میں بہت سخت زبان استعمال کی گئی، مکتوب میں بتایاگیا کہ ایک حملہ آور کو اسکے ساتھی حنیف کے نام سے پکار رہے تھے، ایسے تمام افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ محکمہ ایکسائز کے ان اہلکاروں کا عمل جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور یہ عمل دونوں ممالک کے خوشگوار تعلقات میں بگاڑ پیدا کرسکتاہے، اس لیے دونوں ممالک کے تعلقات کو مدنظر رکھ کر ایکسائز اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مکتوب میں کہاگیا ہے کہ مسلح ایکسائز عملہ بدترین تشدد کے بعد سفارتکار اور ان کی اہلیہ سے پیسے طلب کرتے رہے مگر یہ نہیں بتایا کہ ان کو پیسے کیوں چاہئیں؟ ایک سوا گھنٹے کی کارروائی کے بعد اہلکار چلے گئے تو سفارتکار اور ان کی اہلیہ ذہنی دباﺅ کا شکار رہیں اور ان کی طبیعت بھی خراب ہوگئی ہے، ایکسائز عملہ ایسے کارروائی کررہا تھا جیسے گینگسٹر کرتے ہیں۔ کیا ان کو پتہ نہیں کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور دوسرا یہ کہ سفارتی آداب کے منافی ہے اور یہ جنیوا کنونشن سے انحراف بھی ہے۔ یہ سنگین جرم ایکسائز اہلکاروں نے کیوں کیا؟ اس کی تحقیقات کرکے ملوث اہلکاروں کے خلاف کارووائی کی جائے۔ سفارتکاروں کی ملاقات اور مکتوب کے بعد صوبائی محکمہ ایکسائز حرکت میں آگیا ہے اور فوری طور پر ڈائریکٹر جنرل ایکسائز نے ایک سمری بناکر منظوری کے لیے وزیرایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکیش چاﺅلہ کو بھیج دی ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ ڈائریکٹر ایکسائز کنور عامرجمیل کی سربراہی میں چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے، جس میں صوبائی انٹیلی جنس افسر ریاض احمد کھوسو‘ ڈپٹی ڈائریکٹرایکسائز ضلع جنوبی کراچی کریم داد عباسی اور ای ٹی او ملیر کلیم اللہ وسان کو شامل کیا جائے ۔تاہم صوبائی وزیرایکسائز نے تحقیقاتی کمیٹی کی منظوری نہیں دی لیکن اس واقعہ نے دو دوست ممالک کے مابین تعلقات میں دراڑ ڈال دی ہے جس کا اظہار شمالی کوریا کے سفارتخانے کی جانب سے لکھے گئے مکتوب میں سخت زبان کی صورت میں کردیاگیا ہے۔ ایک ایکسائز افسر کی ناسمجھی کی وجہ سے دو دوست ممالک
کے تعلقات پر فرق پڑا ہے، اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت سندھ اس پورے عمل پر کیا کارروائی کرتی ہے؟ اور دوست ملک کو راضی کرنے میں اپنا کیا کردار ادا کرتی ہے؟ لیکن اس واقعہ نے سفارتکاروں کو سخت ناراض کردیا ہے۔