کراچی میں چور،سپاہی دونوں کا تعلق شہر سے نہیں ،خالد مقبول صدیقی
شیئر کریں
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی میں چور اور سپاہی دونوں کا تعلق شہر سے نہیں ہے،ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں دیکھنا چاہتے، ہم سویلین ہیں ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں،چیف جسٹس سے مجبور ہوکر التجا کررہا ہوں، شہر کراچی اور صوبہ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے، چیف جسٹس صاحب ان حالات پر سوموٹو کیوں نہیں لے رہے۔کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جرائم کی روک تھام کی ذمہ داری جس پولیس والوں کی ہے، اس کا تعلق اس شہر سے ہے ہی نہیں، وہ اس کو اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتا۔خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ بینک بیلنس، جائیداد کو بڑھانے کے لیے کراچی میں پوسٹنگ ایک موقع سمجھا جاتا ہے، کراچی کے حالات کے بارے میں ہم محتاط انداز میں ہمیشہ کہتے ہیں کہ اس کا مسئلہ یہی ہے کہ چور اور سپاہی دونوں اس شہر کے نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس رمضان میں 50 کے قریب نوجوان ان کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، ان میں تمام زبان بولنے والے تھے، لیکن جن لوگوں نے امن قائم کرنا ہے، ان کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں دیکھنا چاہتے، ہم سویلین ہیں ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں، کیا آپ ہمیں مجبور کررہے ہیں کہ اپنی حفاظت کا بندوبست خود کریں۔سربراہ ایم کیو ایم پاکستان نے کہاکہ یہ بعض صورتوں میں اس شہر کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں، اپنا سیاسی مخالف اور اپنا جیسا نہیں سمجھتے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں تمام جمہوری ممالک میں لوکل پولیسنگ ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ لیاری کی جو پولیس ہو، اس میں لیاری کی گلیوں میں رہنے والے نوجوانوں کو نوکری دے کر ان کی ذمہ لگائیں کہ اپنے علاقے اور محلے کی نگرانی کریں۔خالد مقبول صدیقی نے کہاکہ لیاقت آباد میں لیاقت آباد کے نوجوان، اورنگی میں اورنگی کے اور کورنگی میں کورنگی کے نوجوانوں کو آپ نوکری دیں، پوری دنیا میں یہی طریقہ ہے، پاکستان میں بھی یہی طریقہ ہے، اسی لیے بار بار سوال کرتے ہیں کہ جب پشاور میں پشاور کی پولیس ہے، لاہور میں لاہور کی اور لاڑکانہ میں لاڑکانہ کی پولیس ہے تو پھر کراچی میں کہیں اور کی پولیس کیوں ہے؟انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس کا کیا مقصد ہے کہ کیا آپ کراچی کو اس طرح پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے، اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ قانون توڑنے والے اور قانون نافذ کرنے والے دونوں کا تعلق اس شہر سے نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ 15 سال سے ان کے پاس سارے اختیارات ہیں، پولیس ان کی ہے، ان کو ہزاروں ارب روپے یہ شہر دیتا ہے، وزیراعلی نے ابھی تک آ کر یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ کس کی ذمہ داری تھی، یہ ایم کیو ایم (پاکستان)کی ذمہ داری تھی، وفاقی حکومت کی یا پھر حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے؟وفاقی وزیرنے کہا کہ آپ نے معیشت کو کچے کے ڈاکوئوں کے حوالے کردیا ہے، کچے کے ڈاکو ہمارے سندھی بھائیوں سے تاوان کا مطالبہ کررہے ہیں، یہ شہر گھنٹوں کے حساب سے اور گلی گلی لٹ رہا، مزاحمت کرنے کو غداری اور جرم سمجھا جارہا ہے۔خالد مقبول صدیقی کہ چیف جسٹس سے مجبور ہوکر التجا کررہا ہوں، شہر کراچی اور صوبہ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے، چیف جسٹس صاحب ان حالات پر سوموٹو کیوں نہیں لے رہے، جناب! اس شہر کو بچائیں تاکہ پاکستان کا بچایا جاسکے۔رہنما ایم کیو ایم نے مزید کہا کہ کراچی وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی بھی ذمہ داری میں بھی آتا ہے، محسن نقوی ہر جگہ جارہے ہیں اب تک ان کو کراچی بھی آجانا چاہیے تھا، محسن نقوی کو آکر سوال کرنا چاہیے تھا اور جواب ہمیں دینا چاہیے تھا، جن پر جرائم کو روکنے کی ذمہ داری ہے میں ان سب سے مخاطب ہوں۔