میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جنرل (ر)راحیل شریف ....اسلامی فوجی اتحاد کی کمان اوردرپیش چیلنجز

جنرل (ر)راحیل شریف ....اسلامی فوجی اتحاد کی کمان اوردرپیش چیلنجز

منتظم
هفته, ۷ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭مختلف پس منظر رکھنے والے ممالک اور خصوصاً عرب بادشاہوں کے ساتھ رہ کر کام کرنا کوئی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی
٭اسلامی عسکری اتحاد میں شمولیت اسلام آباد کے کئی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتی ہے،تجزیہ کار
ابو محمد
حال ہی میں سکبدوش ہونے والے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف سعودی قیادت میں قائم کثیر القومی انسداد دہشت گردی فوج کی سربراہی کریں گے۔ اس عسکری اتحاد میں عمومی طور پر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن(او آئی سی )کے ہی ممالک شامل ہیں ۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان آرمی کے سابق سربراہ کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والے اسلامی فوجی اتحاد کی کمان کرنا ایک اعزاز تو ہے لیکن کئی تجزیہ کاروں کو تشویش ہے کہ اس طرح پاکستان کی اس کثیر الملکی اسلامی عسکری اتحاد میں شمولیت اسلام آباد کے کئی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
جنرل راحیل شریف کو 39 مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت سونپی گئی ہے۔جس کی تصدیق گزشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی جس کے بعدسے خبر ملک اور بیرون ملک زیر بحث ہے ،جہاں کئی مسلم ممالک اس اتحاد پر جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہیںپاکستان کے کئی سیاسی و عسکری تجزیہ کاراسے اعزاز کے ساتھ ساتھ تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
مجموعی صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں شدت پسند تنظیم داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں سعودی حکومت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔اگرچہ یہ تنظیم سنی مسلک کی نمائندگی کی علمبردار ہے تاہم عمومی تاثر یہ ہے کہ مسلم دنیا کے سنجیدہ مکاتب فکر اس تنظیم کے طریقہ کار سے متفق نہیں جبکہ مسلم دنیا میں تیزی سے ابھرتا ہوا ملک ترکی باضابطہ داعش کے خلاف شام میں برسرپیکار ہے اور گزشتہ چند ماہ قبل پاکستان کا دورہ کرنے والے ترک صدر نے اپنے خطاب میں بھی کہا تھا کہ داعش کا اسلام سے تعلق نہیں بلکہ وہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔
بہرحال دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات ہی کے سبب سعودی عرب نے دسمبر 2015 میں دہشت گردی کے خلاف 30 سے زائد اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ان تنازعات کے سلسلے میں ریاض حکومت کی طرف سے خاص طور پر یمن کی خانہ جنگی اور عسکریت پسند تنظیم ’داعش‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والے علاقائی سکیورٹی خطرات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ابتدا میں اس فوجی اتحاد میں 34 اسلامی ممالک شامل تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر 39 ہو چکی ہے،ان میں سعودی عرب،پاکستان،ترکی ،متحدہ عرب امارات ،بحرین ،بنگلہ دیش ،تیونس ، سوڈان ،ملائشیا،مصر ،یمن اور دوسرے ممالک شامل ہیں اس عسکری اتحاد میں ایران اور شام شامل نہیں ہیں،اطلاعات کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا کی بھی اس اتحاد مین شمولیت متوقع ہے جبکہ آزربائیجان اور تاجکستان بھی غور کررہے ہیں ،علاوہ ازیں شاہ سلمان نے افغانستان کو بھی اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی ہے ۔اس فوجی اتحاد کا صدر دفتر سعودی کے شہر ریاض میں ہو گا لیکن اس اتحاد کے مقاصد اور پالیسی کے بارے میں مکمل تفصیلات واضح نہیں ہیں۔جیسے ہی گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کے کمان سنبھالنے کی تصدیق ہوئی تو ہر طرف میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ترکی سے وابستہ افراد پر مشتمل سوشل میڈیا صفحہ”رجب طیب اردگان،لیڈر آف امہ“ پر صارفین اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں بہت پرجوش ہیں اور اسے بڑی کامیابی اور قابل مبارکباد عمل قراردے رہے ہیں۔اس پیج پر حال ہی میں قائم وکی پیڈیا پیج کا عکس،اسلامی آرمی چیف راحیل شریف کی شاہ سلمان،محمد بن سلمان،ایرانی و ترک حکام کے ہمراہ تصاویر اور عمرے کے دوران پروٹوکول میں لی گئی تصاویر شیئر کی گئی ہیں اور نیک تمناﺅں کا اظہار کیا گیا ہے۔پاکستانی بجا طور پر خوش ہیں اور سوشل میڈیا پر ایک صارف نے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”بزرگ کہا کرتے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب پاکستان امت ِ مسلمہ کی قیادت کرے گا،اور یہ بات درست ثابت ہوئی۔“
نومبر 2015ءمیں راحیل شریف ابھی پاکستانی فوج کے سربراہ کے عہدے سے رخصت نہیں ہوئے تھے کہ تب ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں سعودی سربراہی میں عسکری اتحاد کا کمانڈر بنا دیا جائے گا۔
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اکثریتی طور پر سنی مسلم آبادی والا ملک ہے جہاں شیعہ مسلمان بھی کوئی بہت چھوٹی مذہبی اقلیت نہیں ہیں اور ان کے بہت بڑے حصے کی مذہبی قربت زیادہ تر ایران اور ایرانی شیعہ اسلام کے ساتھ ہے۔ادھریمنی خانہ جنگی کافی حد تک ایک شیعہ سنی تنازعہ بھی بن چکا ہے جبکہ شام کی جنگ میں ایران کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ان حالات میں راحیل شریف کی طرف سے انتالیس ملکی فوجی اتحاد کی قیادت سنبھالنے کو پاکستانی شیعہ آبادی اس طرح بھی دیکھ سکتی ہے کہ پاکستان جیسے عسکری طور پر بھی سعودی عرب کے بہت قریب ہوتے ہوئے ریاض حکومت کے مزید دائرہ اثر میں آ گیا ہے، بالخصوص اس تناظر میں کہ سعودی عرب اور ایران علاقائی طور پر دو بڑے حریف ممالک ہیں اور یمنی تنازع ایک داخلی جھگڑا ہونے کے باوجود بظاہر کافی حد تک شیعہ سنی مسئلہ بھی بن چکا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ سعودی عرب یمنی صدر منصور ہادی اور ان کی قیادت میں کام کرنے والی ملکی فوج کا حامی ہے جبکہ یمن کے حوثی شیعہ باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور یہی حوثی گزشتہ دنوں حرمین شریفین کی جانب میزائل بھی داغ چکے ہیں جس کے حوالے سے مسلم دنیا میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے ۔
پوری صورتحال کے بارے میں پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل اور معروف دفاعی تجزیہ نگار طلعت مسعود نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا کہ اس بین الاقوامی عسکری اتحاد کی قیادت راحیل شریف کو سونپنے کے فیصلے کے پاکستان میں نظر آنے والے ممکنہ اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ یہ اتحاد متنازع ہے، اس وجہ سے کہ ریاض اور تہران کے مابین واضح اور شدید کھچاو¿ پایا جاتا ہے اور ایران اس عسکری اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔طلعت مسعود نے مزید کہا کہ راحیل شریف کی پاکستانی فوج کے سربراہ کے طور پر کارکردگی کے باعث ان ذمے داریوں کے لیے ان کا انتخاب ایک طرف تو پاکستان کے لیے باعث فخر ہے، لیکن دوسری طرف اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک پاکستانی جنرل کو ایک ایسے عسکری اتحاد کی قیادت سونپنے کی بات کی جا رہی ہے، جو بہت متنازع ہے اور جس کے ایران بہت خلاف ہے۔پاکستان شروع میں تو اس سعودی عسکری اتحاد میں شمولیت سے گریزاں تھا لیکن پھر بعد میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اس فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی تصدیق تو کر دی تھی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اسلام آباد حکومت اس اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے کوئی ملکی فوجی دستے بیرون ملک نہیں بھیجے گی۔طلعت مسعود نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا یہ ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے کہ اس عسکری اتحاد کی فوجی قیادت ایک پاکستانی جنرل کرے گا، اس سوال کا جواب خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
تاہم ماضی قریب کے اوراق سے ایک خبر یہ بھی ہے 11دسمبر 2016کوایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے تجویز پیش کی ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے اور اقتصادی اشتراک عمل کو فروغ دینے کے لیے مسلم ممالک کا ایک ایسا بلاک تشکیل دیا جانا چاہیے، جس میں سعودی عرب بھی شامل ہو۔ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کو ترکی، مصر، عراق اور پاکستان کو ساتھ ملانا چاہیے اور ’اسلام کی بنیاد پر علاقائی امن‘ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا دفاع کرنا چاہیے۔ ان کاکہنا تھا کہ اسی طرح دہشت گردی سے نمٹا اور اقتصادی مفادات کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے روایتی حریف سمجھا جاتا ہے اور یہ دونوں ہی ملک شام اور یمن میں متحارب گروپوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ قبل ازیں سعودی عرب نے گزشتہ برس جنوری میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات اس وقت منقطع کر دیے تھے جب تہران میں مشتعل مظاہرین نے اس کے سفارت خانے پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ مظاہرین سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کی پھانسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
تاہم اپنی اس تقریر میں علی لاریجانی کا سعودی حکومت کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعودی عرب اور دوسری اقوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایران ان کا دشمن نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران ”شام اور یمن میں جنگی جنون کی مخالفت“ کرتا ہے اور ان علاقائی تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ایران کے خطے میں اثرو رسوخ کو بڑھانے کے حوالے سے انہوں نے وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران خطے میں نہ تو کسی سلطنت کے قیام کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور نہ ہی قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اتحاد کو بہتر بنایا جائے۔
یاد رہے کہ ایران شام میں صدربشارالاسد کا انتہائی قریبی حلیف ہے جب کہ لبنان کے حزب اللہ اور عراقی شیعہ ملیشیا کو بھی اس کی حمایت حاصل ہے۔
بعد ازاں 19 دسمبر کو موجودہ آرمی چیف باجوہ کے سعودی دورے کے موقع پر جرمن خبررساں ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں پاکستان کے کئی تجزیہ کاروں نے ملا جلا ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب کے عسکری تعاون میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلیٰ سعودی حکام سے ملاقاتیں کیں ہیں۔ سعودی وزیرِ دفاع محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے مقاماتِ مقدسہ اور سعودی عرب کی جغرائیائی وحدت کی حفاظت کے عزم کا اعادہ کیاتھا۔مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر اس دورے کو اہم قراردیا گیا۔ اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر امان میمن نے جرمن ادارے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس دورے کا وقت بہت اہم ہے۔ پورے خطے میں ہمیں ایران مضبوط ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ عراقی حکومت ایران کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ خطے میں حزب اللہ ایران کا وفادار اتحادی ہے جب کہ شام میں بشارالاسد اور یمن میں حوثیوں کی پوزیشنیں بھی مضبوط ہو رہی ہیں۔ اس صورتِ حال سے سعودی عرب پریشان ہے اور ریاض کو محسوس ہو رہا ہے کہ سعودی مخالف عناصر اس کو گھیر رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستان ہی سعودی شاہ کی مدد کر سکتا ہے۔ شریف فیملی کے سعودی گھرانے سے ذاتی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب ہمارے لیے زرِ مبادلہ کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور کئی مذہبی جماعتوں کی ہمدردیاں بھی اس عرب ریاست کے ساتھ ہیں، تو اس بات کا قومی امکان ہے کہ اگر حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو پاکستان کو وہاں فوج بھیجنی پڑے گی۔
دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس حوالے سے کہا کہ ویسے تو ہر نیا آرمی چیف دوست ممالک کا دورہ کرتا ہے، جس میں سعودی عرب سر فہرست ہے لیکن موجودہ صورتِ حال میں اس دورے کا یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کو لاحق خطرات کا مطالعہ کیا جائے اور حکومت کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ پھر حکومت اور پارلیمنٹ اس کا فیصلہ کریں گے۔ تاہم سعودی عرب فوج بھیجنا آسان نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں کئی اراکین ایسے ہیں جن کا ایران کے لیے نرم گوشہ ہے۔ یہاں تک کہ پی پی پی بھی کسی ایسے فیصلے کو منظور نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے، تو حکومت کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ فوج بھیجے۔لیکن دوسری جانب
تجزیہ نگار اور صحافی مطیع اللہ جان نے فوج بھیجنے کے حوالے سے سوال پر الٹا سوال اٹھایا اور کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ سے اجازت لے کر فوج بھیجے گی؟ میرے خیال میں ہمارے کچھ فوجی وہاں پہلے ہی موجود ہیں اور مزید بھیجنے ہوں گے تو ہم کسی اور بہانے بھیج سکتے ہیں۔ تربیت دینے کے نام پر بھی تو فوجی بھیجے جا سکتے ہیں۔ پاکستان اور عرب دنیا خصوصا سعودی عرب کے تعلقات میں آپ کو کئی دلچسپ پہلو ملیں گے۔ مثلا ہمیں اچانک پتہ چلتا ہے کہ مشرف کو پانچ ارب سعودی عرب نے دیے تھے۔ میاں صاحب کے لیے بھی کوئی عرب شہزادہ خط لے کر آجاتا ہے۔ ہمیں سعودی حکومت ڈیڑھ بلین ڈالر تحفے میں دے دیتی ہے۔ اس ملک میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ اتنا ہے کہ ان کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
تحفظِ حرمین شریفین کونسل کے میڈیا کوآرڈینیٹر انیب فاروقی نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ حالات جس طرف جارہے ہیں اس سے یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ شام و یمن میں سعودی مخالف قوتیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ ایران کی خطے میں مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ اب ایران کی نظر بحرین پر ہے۔ ایسی صورتِ حال میں سعودی عرب کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان 34 ملکی اتحاد کا حصہ ہے اور جو فیصلہ بھی یہ اتحاد کرے گا پاکستان کو وہ ماننا پڑے گا۔ پاکستان نے اسی کی دہائی میں بھی سعودی عرب کی مدد کی تھی، جب وہاں ایک ملک کی طرف سے عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی اور پاکستان اب بھی سعودی عرب کی مدد کرے گا۔
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے بین الاقوامی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بقر نجم الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ یہ بات صحیح ہے کہ سعودی عرب پاکستان کا دوست ہے لیکن پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں کہ وہ کسی ایسی جنگ میں کودے جس سے اس کے مسائل مزید بڑھیں۔ ہمیں پہلے ہی ملک کے اندر بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یمن کی جنگ میں کودنے کا مطلب پاکستان میں فرقہ وارانہ آگ کو ہوا دینے کے مترادف ہوگا اور پاکستان کی پارلیمنٹ کبھی اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔ میرے خیال میں سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی ایسے شدید خطرات بھی لاحق نہیں ہیں۔ ایرانی حکومت بڑی دانش مندی سے خطے میں اپنی پالیسی چلا رہی ہے۔ وہ ریاض سے کشیدگی کو ایک حد تک ہی لے کر جائے گی لیکن جنگ جیسی صورتِ حال پیدا ہونے نہیں دے گی۔
اس ساری صورتحال میں جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد میں تقرری ایک امتحان بھی ہے اور قوم کو انتظار بھی ہے کہ جنرل(ر) اس امتحان میں کیسے پورا اترتے ہیں ۔بعض مبصرین کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف کے طور پر کام کرنا نسبتاً آسان تھا کیونکہ وہ جس ادارے کے سربراہ تھے اس ادارے کا نام اور حیثیت بذات خود اتنی مضبوط ہے کہ آرمی چیف کے فیصلوں اور منصوبوں سے اختلاف کرنا کسی کے لیے آسان نہ تھا اور وہ یہاں کافی حد تک اپنی مرضی سے کام کرسکتے تھے۔اگرچہ دہشت گردوں سے نمٹنے کا وسیع تجربہ، انکی تربیت جو دنیا کے معروف عسکری ادارے میں ہوئی اورقوم کی دعائیں انکے لیے کافی کارآمد ثابت ہوگی تاہم مختلف پس منظر رکھنے والے ممالک اور خصوصاً عرب ممالک کے ساتھ رہ کر کام کرنا کوئی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں