میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
24سال گزرگئےبابری مسجد اور 2ہزار شہدا کو انصاف نہ مل سکا

24سال گزرگئےبابری مسجد اور 2ہزار شہدا کو انصاف نہ مل سکا

منتظم
منگل, ۶ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

بھارتی دارالحکومت دہلی ،اجودھیا، لکھن¿وودیگر شہروں میں مسلم تنظیموں کے تحت مظاہروں کا انعقاد، مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بھی حصہ لیا
ابو محمد
بھارت کے شہر اجودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے چوبیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ کل کا دن بھارتی مسلمانوں کی طرف سے ’یوم سیاہ‘ کے طور پر منایا گیا ہے جبکہ شدت پسند ہندوو¿ں نے ’یوم شجاعت‘ منایا ہے۔
بھارتی دارالحکومت دہلی میں بھی ایک بڑا مظاہرہ ہوا، جس میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بھی حصہ لیا۔ مظاہرین نے بابری مسجد منہدم کرنے والے ملزمان کو سزا دلانے اور بابری مسجد کو اس کی اصل جگہ پر دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا۔ دہلی اور صوبہ اتر پردیش کے دارالخلافہ لکھنو¿ سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں اور بالخصوص اجودھیا شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ سولہویں صدی میں مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے سپہ سالار میر باقی کے ذریعے تعمیر کرائی گئی بابری مسجد کو شدت پسند ہندو تنظیم وشو اہندو پریشد اور قوم پرست ہندوو¿ں کی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد کارکنوں نے 6 دسمبر 1992ءکو منہدم کردیا تھا، جس کے بعد بھارت کے کئی شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا گیاتھا۔
بابری مسجد او رام جنم بھومی کا تنازع ایک عرصے تک مختلف عدالتوں میں چلتا رہا ہے لیکن اب 24سال بعد بھی شہید بابری مسجد اور شہدا کے وارثین انصاف کے منتظر ہیں ۔
30 ستمبر 2010 ءکو الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی کو تین فریقوں میں تقسیم کرنے کا ایک فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت عالیہ نے متنازع اراضی کا ایک حصہ مسلمانوں کو ، ایک حصہ ہندوو¿ں کو اور تیسرا حصہ بھگوان رام کو دینے کا حکم صادر کیا تھا۔ عدالت عالیہ کے اس فیصلے کو عدالت عظمی میں چیلنج کیا گیا تھااور فی الحال یہ معاملہ ابھی تک عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔
مسلمانوں کی کل ہند تنظیم جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے جرمن خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کے انہدام کے چوبیس برس گزر جانے کے باوجود مسلمان اس تنازعے کے تصفیے کے لئے عدلیہ پر پورا اعتماد کرتے ہیں اور ان کی تنظیم عدلیہ کے باہر اس کے حل کی کوششوں کو یکسر مسترد کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”چھ دسمبر 1992ءبھارت کے سیاہ دنوں میں سے ایک ہے، جب شرپسندوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اسے منہدم کیا تھا وہ اب بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں اور حکومت نے ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔“
مولاناجلال عمری کا مزید کہنا تھا کہ 17 سال کی طویل چھان بین کے بعد لبراہن کمیشن نے جون 2009ءمیں اپنی رپورٹ پیش بھی کر دی لیکن حکومت نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی تمام تنظیمیں بابری مسجد کی از سر نو بحالی کے لئے پرامن جدوجہد کرتی رہیں گی۔
جسٹس ایم ایس لبراہن کمیشن نے جن لوگوں کو بابری مسجد کے انہدام کا ملزم قرار دیا تھا ان میں سابق نائب وزیر اعظم اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر ایل کے ایڈوانی، سابق وزیر مرلی منوہر جوشی، موجودہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور مرکزی وزیر اوما بھارتی بھی شامل ہیں۔ مودی حکومت پر الزام ہے کہ وہ بابری مسجد کے انہدام کے ملزمان کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس حوالے سے مارچ 2015ءمیں سپریم کورٹ میں ایک معاملہ بھی درج کرایا گیا تھا۔
دریں اثنا وشوا ہندو پریشد نے اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا عہد دہراتے ہوئے ملک کے مختلف مقامات پر پوجا کی ہے اور اس دن کو یوم شجاعت کے طور پر منایا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں