شراب خانوں پر عدالتی پابندی‘پولیس اہلکاروں اورکچی شراب کے فروخت کنندگان کا دھندا عروج پر
شیئر کریں
کراچی شہر میں 62بڑے ڈیلرز ہیں جو کہ کچی شراب کا دھندا کرتے ہیں اور علاقہ ایس ایچ او سمیت 20 سے زائد مختلف ایجنسیاں بھتہ وصول کرتی ہیں
ایک اقلیتی رکن سندھ اسمبلی کے33شراب خانے ہیں،بعض مسلمان سیاستدانوں کی شراکت داری کے بعدنیب نے باضابطہ طورپرتحقیقات شروع کردی ہے
حکومت پاکستان سالانہ12ارب روپے سے زائد کا ریونیو محض شراب کی فروخت سے حاصل کرتی ہے۔ کیا یہ قیمتی اور مہنگی شرابیں صرف اقلیتی برادری ہی استعمال کرتی ہے؟ حالانکہ پاکستانی قانون میں شراب پر پابندی بھی عائد ہے۔ لیکن اس کے باوجود روز بروز ملک بھر میں شراب کا کاروبار دن دگنی رات چگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آئے روز اخبارات کی زینت بننے والی خبروں میں پڑھتے ہیں کہ کچی شراب پینے سے اتنے افراد مر گئے۔ شراب کی چالو بھٹیوں پر چھاپا مارا گیا وغیرہ۔ شراب اسلامی و قانونی طور پر جرم ہے مگر پھر بھی اس طرح کی خبریں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی نہیں تو کیا ہے؟ بعض شدت پسند سیکولرز نے تو ایک اجلاس میں حکومت وقت سے باقاعدہ مطالبہ ہی کر دیا تھا کہ ملک بھر میں شراب کی پابندی ختم کی جائے۔اس ضمن میں سندھ ہائیکورٹ کا اقدام قابل ستائش ہے بلکہ مبارک باد کا مستحق ہے کہ جس نے 18 اکتوبر 2016 کو ڈی جی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ہدایت کی کہ فوری طور پر تمام شراب خانوں کو بند کر دیا جائے اور شراب خانوں کے لائسنس کو قانون کے مطابق ری چیک کیا جائے۔ اور غیر قانونی طورپرجاری کیے گئے لائسنس کو منسوخ کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی تھی۔ اس موقع پر نادرا کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل چوہدری محمد فاروق نے عدالت کے روبرو رپورٹ پیش کی کہ کراچی میں مسیح برادری کی کل آبادی 1لاکھ 96ہزار 122ہے اور ہندو برادری کی کل آبادی 72ہزار 341ہے۔ اس موقع پر محکمہ ایکسائز کی رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ کراچی میں لائسنس یافتہ شراب خانوں کی تعداد 57اور سندھ میں 122ہے ۔سب سے زیادہ 24شراب خانے کراچی کے ضلع جنوبی میں قائم ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی تعداد میں شراب خانوں میں وافر مقدار میں شراب موجود ہے جو کہ اقلیتوں کے نہانے کے بعد بھی بچ جائے گی۔دوران سماعت عدالت نے اپنے ریمارکس میں قرار دیا کہ ہر مذہب میں شراب ناجائز ہے۔ مگر پھر بھی اقلیتی برادری کے نام پر فروخت کی جا رہی ہے۔ عدالت اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماﺅں کو طلب کرے اور پوچھے کہ کیا مذہبی تہواروں پر شراب کی ضرورت ہے؟ اگر اقلیتی برادری کو شراب فروخت کی جاتی ہے تو ان کے علاقوں کی بجائے گلی گلی میں شراب خانے کیوں کھول دیے گئے ہیں۔ حالانکہ اقلیتوں کے تہوار ہولی، کرسمس اور دیوالی سے 5 روز قبل شراب دی جا سکتی ہے۔ عدالت نے ڈی جی ایکسائز کو حکم دیا کہ شراب خانوں کے لائسنس دینے میں آرڈیننس 1979کی سیکشن 17کی خلاف ورزی کی گئی ہے لہذا تمام لائسنس منسوخ کر کے دوبارہ انکوائرای کے بعد رپورٹ عدالت میں پیش کرے تاہم تب تک تمام شراب خانوں کو بند رکھا جائے۔
نیب نے اقلیتی ارکان پارلیمنٹ کے شراب خانوں کی تفصیلات جمع کرناشروع کردی ہیں ،ابتدائی تحقیقات میں ہوشرباانکشافات سامنے آئے ہیں ۔ذرائع نے بتایاہے کہ ایک اقلیتی رکن سندھ اسمبلی کے33شراب خانے ہیں اورانہوں نے اب سپرہائی وے پرٹول پلازااورسہراب گوٹھ کے درمیان ایک مشہورہوٹل کے پاس اورنوری آبادمیں بھی شراب خانے کھول دیے ہیں ۔اس ایم پی اے کے حیدرآبادشہرکے اندر6شراب خانے کھل چکے ہیں ۔ایک دوسرے رکن سندھ اسمبلی کے پاس11شراب خانے ہیں ۔ذرائع نے بتایاہے کہ حکومت سندھ بھی ان اقلیتی ارکان پارلیمنٹ کے آگے بے بس ہوچکی ہے کیونکہ بعض طاقتورارکان اسمبلی نے ان اقلیتی ایم پی ایزکی پشت پناہی کررکھی ہے تاہم حالیہ دنوں میں ان شراب خانوں میں بعض مسلمان سیاستدانوں کی شراکت داری کے بعدنیب نے باضابطہ طورپرتحقیقات شروع کردی ہے اوراس ضمن میں محکمہ ایکسائیزسے تفصیلات بھی حاصل کرلی گئی ہیں۔
کراچی میں شراب خانوں پر عدالت کی طرف سے لگنے والی پابندیوں کے بعد جہاں کراچی پولیس کے کرپٹ افسران و اہلکاروں کی چاندی ہوگئی وہیں کچی شراب بنانے والوں کی تو جیسے لاٹری ہی نکل آئی، جو کپی کی بوتل ڈیڑھ سو تک مل جاتی تھی اب ساڑھے تین سو میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس حوالے سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت کراچی شہر میں 62بڑے ڈیلرز ہیں جو کہ کچی شراب کا دھندا کرتے ہیں اور علاقہ ایس ایچ او سمیت 20 سے زائد مختلف ایجنسیاں بھتہ وصول کرتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق عدالت کی جانب سے شراب خانوں کو بند کرنے کے احکامات کے بعد بھتے کے ریٹ میں تین گنا اضافہ کردیا گیا جہاں علاقہ ایس ایچ او کو پانچ ہزار روپے ہفتہ ملا کرتا تھا اب یہ کمائی 15 تا 20 ہزار روپے ہفتہ تک پہنچ گئی ہے۔ کراچی میں شراب فروشی کے اس مکروہ دھندے میں مصروف ملزمان کا نیٹ ورک پورے کراچی میں پھیلا ہوا ہے تاہم چند مخصوص علاقوں محمود آباد، چنیسر گوٹھ، پی آئی بی کالونی، کھوکھراپار، ملیر سٹی، شاہ لطیف ٹاون، سکھن، بن قاسم، لیاری، شاہراہ نورجہاں میں بہت فعال ہے،کراچی پولیس نے عدالت کی جانب سے لگائی جائے والی پابندی کے بعد چند شراب فروشوں کی گرفتاری تو ظاہر کی ہے تاہم ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
کراچی کے حوالے سے ماہر شہریات عارف حسن کا مضمون جو نامور ادیب اجمل کمال کی مرتبہ کتاب کراچی کی کہانی میں شائع ہوا میں لکھا ہے کہ صدر میں بڑی تعداد میں شراب خانے اور بلیئرڈ روم تھے۔ پیراڈائز سنیما کے بالمقابل رٹز بار نفیس شراب خانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس میں ساگوان کے فریموں والے شیشے کے پارٹیشن اور جستے کا بنا ایک کانٹر تھا۔کبھی کبھی انتظامیہ کی طرف سے ہندوستانی فلموں کے گانے بجائے جاتے، جن سے متاثر ہو کر کئی گاہکوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ ایمپریس مارکیٹ میں اولڈ ٹوڈی شاپ جہانگیر پارک کے سامنے یو بار (U Bar) اور ٹرام پٹے پر ونرز بار زیادہ عوامی نوعیت کے شراب خانے تھے۔اسلامائز یشن کے ساتھ ہی شراب خانے معدوم ہو گئے اور صرف ایک بلیئرڈ روم جو لکی اسٹار کے نزدیک ہے باقی رہ سکا۔سینئر فوٹو جرنلسٹ ظفر صاحب جنہوں نے بہ حیثیت فوٹو جرنلسٹ 1972 میں کراچی میں اپنے کام کا آغاز کیا، ہمیں بتایا کہ کراچی کا سب سے منہگا بار روم ہوٹل ایکسلسیئر (Excelsior) میں تھا جس کا ٹکٹ 350 روپے ہوتا تھا. اس میں صرف صاحبِ حیثیت اور انتہائی امیر لوگ جاتے تھے۔ بار روم میں کیبرے ڈانس بھی ہوتا تھا۔اس کے علاوہ سول لائن پولیس اسٹیشن کے ساتھ تاج ہوٹل ہوتا تھا جو بعد میں پیکاک ہوٹل بنا۔ اس میں بھی بار تھا جس میں درمیانے طبقے کے لوگ جاتے تھے۔میٹرو پول ہوٹل میں اویسس بار (Oasis) تھا جو بعد میں چائنیز ریسٹورینٹ بن گیا تھا۔ ائیر پورٹ روڈ پر کبانا بار ہوتا تھا جبکہ صدر میں موجودہ یونائیٹڈ ہوٹل کے پاس بھی ایک بار تھا جو لال پری کے نام سے مشہور تھا۔ اس بار میں غریب طبقے کے لوگ جاتے تھے۔اسی طرح فرئیر مارکیٹ میں رومانہ، شبانہ کلب ہوتا تھا۔ رومانہ، شبانہ دونوں کلب میں ڈانس کرتی تھیں اس لیے یہ کلب ان کے نام سے مشہور تھا اس کلب کا ٹکٹ 30روپے تھا۔یہ تمام مے خانے 1977میں اس وقت بند ہوئے جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے نظام مصطفی کی تحریک چلائی۔ اس تحریک کا اثر کم کرنے کے لیے بھٹو صاحب نے شراب خانوں پر پابندی اور جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا۔لیکن یہ قدم ان کو بچا نہ سکا۔ بالآخر ان کے خلاف تحریک کے نتیجے میں ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا اور کچھ عرصے بعد اسلامی نظام کے نفاذ کا اعلان کیا۔ لیکن ساتھ ساتھ بھٹو صاحب کی جانب سے لگائی گئی شراب کی فروخت پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے غیر مسلموں کے لئے مشروط اجازت دے دی۔آج غیر مسلموں کے لئے کراچی کے مختلف علاقوں میں بہت سے شراب خانے ہیں جہاں ہر قسم کی پاکستانی شراب دستیاب ہے۔
اسلامی تاریخ میں یہ بات مذکور ہے کہ پچھلی امتوں کی بربادی کے اسباب کی بڑی وجہ شراب نوشی ہے۔ لاتعداد گھرانے اس ام الخبائث کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ جس معاشرے میں فحاشی، عریانی سمیت لاتعداد برائیوں نے جنم لیا ہو، ان سب بے غیرتیوں کی وجوہات میں سے ایک سبب شراب نوشی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے بارے میں عذاب کی سخت ترین وعیدیں ارشاد فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شراب ام الخبائث اور ام الفواحش ہے اس کو پی کر انسان برے سے برے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سے متعلقہ دس آدمیوں پر لعنت فرمائی۔” شراب بنانے والا، نچوڑنے والا، پینے والا، پلانے والا، اس کو اٹھا کر لانے والا، جس کے لیے لائی جائے، اس کو بیچنے والا، خریدنے والا، اس کو پیدا کرنے والا اور اس کی آمدنی کھانے والا“۔طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ شراب نوشی سے لاحق ہونے والے امراض میں جگر کا سرطان، معدے کی نالی کا سرطان، بڑی آنت کا سرطان، دل کے عضلات کا تباہ ہو جانا، بلڈ پریشر کا بڑھنا، دل کی شریان کا خراب ہونا، دل کی تکلیف ، دماغی فالج اور فالج کی مختلف اقسام کاشامل ہیں۔ مختلف اعصابی و دماغی امراض، یاد داشت خراب ہونا، اس طرح کی کئی ایک امراض کا تعلق کثرت شراب نوشی سے ہے لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔