مقدمات میں فریق بننا نگراں حکومت کا کام نہیں!
شیئر کریں
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک ٹی وی چینل کو اپنے پہلے انٹرویو میں کہا ہے کہ 9مئی کے پرتشدد واقعات ملک کو ’خانہ جنگی‘ اور ’بغاوت‘ کی جانب لے جانے کی کوشش تھی جس کا ہدف آرمی چیف اور ان کی ٹیم تھی۔انٹرویو میں نگران وزیر اعظم نے 9 مئی واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعے کے وقت میرے پاس معلومات نہیں تھیں مگر میرا تجزیہ یہی تھا کہ یہ بغاوت یا خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی کوشش تھی اور اس کا ہدف موجودہ آرمی چیف اور ان کی ٹیم تھی۔نگران وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ہم نے9مئی کو سبوتاژ کی جو کارروائیاں دیکھیں اس سے مجھے نہ صرف بے سکونی ہوئی بلکہ افسوس بھی ہوا کہ ہم اس مقام پر کیوں اور کیسے پہنچے ہم اس کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ جس کسی نے بھی قانون توڑا ہے، اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اس عمل میں کوئی حمایت یا خوف نہیں ہونا چاہیے،اس کے ساتھ ہی اطلاعات کے مطابق نگراں وزیراعظم نے اس مقدمے میں فریق بننے کی خواہش کا بھی اظہار کیاہے۔
9مئی کو جو کچھ ہوا اس بارے میں بہت کچھ سامنے آچکاہے اس کے باوجود یہ معاملہ ابھی بھی زیر تفتیش ہے، اس لیے فی الوقت مزید تبصرے سے تفتیشی عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہے،اس واقعے کے بارے میں نگراں وزیراعظم کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ دراصل اب یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس مقام پر کیوں اور کیسے پہنچے،اس صورت حال تک پہنچنے کے کیامحرکات تھے اور 9 مئی کو انتہائی حساس مقامات کو اس طرح لاوارث کیوں چھوڑ دیاگیاتھا کہ بلوائیوں کو روکنے کیلئے ڈنڈا بردار پولیس بھی موجود نہیں تھی،اس صورت حال سے یہ ظاہرہوتاہے کہ یہ سب کچھ خود اس وقت کی حکومت کے منظم منصوبے کے تحت کیاگیا،بلوائیوں میں ایسے غنڈے اور فسادی شامل کیے گئے جن کو فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا ہدف دیاگیا تاکہ ایک سیاسی پارٹی کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر دیوار میں چنوایا جاسکے،اور انتخابات میں اپنے لیے میدان صاف کیاجاسکے،اس واقعے کی تفتیش کے دوران اس پہلو کو مد نظر رکھنا از حد ضروری ہے کہ اس واقعے سے فائدہ کسے پہنچا اور خسارے میں کون رہا،تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی سامنے آسکے،لیکن جہاں تک نگراں وزیر اعظم کی جانب سے اس معاملے میں فریق بننے کی خواہش کا تعلق ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ خواہش ان کے موجودہ منصب کے منافی ہے،ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ انھیں نگراں وزیر اعظم کا یہ منصب گڑے مردے اکھاڑنے کیلئے نہیں دیاگیا بلکہ ان کا کام صرف ایسے صاف،شفاف اور منصفانہ انتخابات کراکے اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کرنا ہے جن میں ملک کی تمام پارٹیوں کو حصہ لینے کا مساوی موقع حاصل ہو اور کسی بھی پارٹی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ برتا جائے۔نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے منصب کو سمجھنے کی کوشش کریں اور آئین کے مطابق وقت پر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے ساتھ ہی اس عبوری دور میں عوام کو ممکنہ حد تک سہولتیں دینے کی کوشش کریں تاکہ پاکستان کے عوام تادیر انھیں یاد رکھیں اور ان کا ذکر ہمیشہ اچھے لفظوں میں ہوتارہے۔
یہ صحیح ہے کہ مہنگائی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کا اہم مسئلہ بن چکی ہے اور وزیراعظم کاکڑ کی جانب سے لوگوں کو بجلی کے بلز میں کچھ رعایت دینے کی کوششوں میں آئی ایم ایف رکاوٹ بناہواہے لیکن اس کے باوجود نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے انھیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ پیٹرول،ڈیزل،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے صرف عام لوگ ہی پریشان نہیں ہیں،بلکہ ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ لانے والے صنعت کار،کارخانہ دار اور تاجروں کی حالت بھی غیر ہے، وہ عام آدمی سے زیادہ مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ان کے عام لوگوں سے زیادہ پریشان ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ غیرملکی خریداروں سے جس مال کی ترسیل کا وعدہ کرچکے ہیں بجلی کے بلز میں اضافے کے بعد اب پہلی قیمت وہ مال فراہم کرنا ان کیلئے ممکن نہیں رہاہے،اور اگر وہ وعدے کے مطابق مال فراہم نہیں کریں گے تو ایک طرف لگے ہوئے غیر ملکی خریدار ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے بلکہ آرڈر پورا نہ کرنے کی وجہ سے ان کی جو بدنامی ہوگی اس کی وجہ سے مستقبل میں انھیں کاروبار کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔دوسری طرف جو صنعت کار اپنا مال دوسرے ملکوں کو برآمد کرتے ہیں اب بجلی کے بلز میں اضافے کی وجہ سے وہ حریف ملکوں کے مقابلے میں اپنا مال فروخت نہیں کرسکیں گے کیونکہ غیر ملکی خریدار کو نسبتاً سستے مال سے غرض ہوتی ہے،اسے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کس ملک کا صنعت کار اسے سستا مال کس طرح فراہم کررہاہے۔دوسری طرف اقتدار سنبھالنے کے بعد مفت بجلی کی فراہمی کے زبانی اعلانات کے باوجود حکومت نے اس ملک کی مفت خور اشرافیہ اور سرکاری ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی کا کوئی حکم جاری نہیں کیا،وزیر اعظم کو سمجھنا چاہیے کہ جب عوام دیکھتے ہیں کہ ان کے سیاست دان اور دوسرے اعلیٰ عہدیداران پہلے پر کشش مراعات حاصل کرتے ہیں پھر اپنی دولت دوسرے ملکوں کو منتقل کیے جارہے ہیں۔تو پھر عوام کے پاس اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔اس صورت حال پر ان کابے چین ہونا ایک فطری عمل ہے۔نگراں وزیراعظم کا منصب سنبھالتے ہوئے آپ نے کہاتھا کہ ہم غریب طبقے کا خون چوسنے نہیں آئے۔اس بیان کی بڑی پزیرائی ہوئی تھی، لیکن اس طرح کے بیانات کی اہمیت تب ہی ہوگی جب حکومت عملی طور پر عام پاکستانی کی فلاح کے لیے کچھ ایسا کردکھائے کہ لوگ خوشی سے جھومنے لگیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگیں۔یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کو ملکی معیشت کو کمزور کرنے کے بہت سے اسباب کا پتہ ہے۔ آپ کا یہ کہنا صد فی صد درست ہے کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی ایک بڑی وجہ اسمگلنگ،ٹیکس چوری اور ڈالر کی بڑھتی قیمت ہے۔اسمگلنگ یقینا بہت بڑا مسئلہ ہے۔اگر اسمگلنگ پر قابو پا لیا جائے تو قانونی طریقے سے درآمد ہونے والی اشیا سے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسمگلنگ میں ملوث بااثر لوگوں پر ہاتھ ڈالا جائے۔ ملک کی سرحدوں پر 24 گھنٹے ہمارے مستعد جوان ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ ان کا اولین فریضہ یہی ہے کہ وہ کسی کو بلااجازت سرحد پار کرنے کی اجازت نہ دیں لیکن کھلے عام اسمگلنگ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ایسا ٹھیک طریقہ سے نہیں ہورہا ہے اور کہیں نہ کہیں کوئی سقم ہے۔ اسمگلر جس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اس ضمن میں یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ اتنی بڑی سرحد پر لوگوں کی آمدورفت کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو کل اسمگلروں کے بھیس میں غیر ملکی جاسوسوں کے ٹولے اور ان کے تربیت یافتہ فوجی بھی عام آدمی کے بھیس میں ملک میں گھس کر غیرملکی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کام کرنے لگیں گے۔ وزیرا عظم کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ احتساب کے سخت ترین نظام کے بغیر یہ سلسلہ بند نہیں ہوسکتا،اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک محب وطن اور درد دل رکھنے والے پاکستانی ہیں۔لیکن جو منصب آپ کو سونپاگیا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ آپ عوام کے جذبات و احساسات اور مسائل سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہوں بلکہ انہیں حل کرنے کے لیے ریاستی وسائل کو بھی درست استعمال کرنے کی کوشش کرتے دکھائی ہیں۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے کسی بھی انسان کے کہے لفظ چند ہی منٹوں میں دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں۔مہنگائی کے حوالے سے آپ کے ایک دو بیانات کے بعد عوام میں بے چینی کی فضا بنی ہوئی ہے۔اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ مختصر وقت کے لیے ہی سہی لیکن کچھ محب وطن لوگوں کو ساتھ ملا کے ایک تھنک ٹینک بنانے کی کوشش کی جائے تا ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے قابل عمل طریقہ کار سامنے آسکے۔ ہر مظلوم کو انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے، لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روز گار کی فراہمی یقینی بنانے کی کوئی راہ دریافت کی جاسکے،اور سرمایہ دار طبقے کو اپنی دولت کو ملک میں محفوظ سمجھتے ہوئے نئے کارخانے اورفیکٹریاں لگانے کی ترغیب دی جاسکے۔ گا۔وزیر اعظم کو اس بات کاعلم ہونا چاہئے کہ یہ منصب جہاں ایک طرف بڑی عزت کا منصب ہے وہیں اس منصب کی وجہ سے آپ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں بھی آپڑی ہیں۔کچھ ایسا کرنے کی کوشش کیجیے کہ آپ کی کوششوں سے لوگ عزت سے جینے کے قابل ہوسکیں۔مقدمات تو چلتے رہیں گے اور آپ کے فریق نہ بننے پر بھی جس نے غلط کام کئے ہیں وہ پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ اس لئے آپ کیلئے بہتر یہی ہے کہ آپ سیاسی مقدمات میں فریق بن کر اپنی غیر جانبدار حیثیت کو متنازع نہ بنائیں بلکہ اپنی تمام تر توانائیاں عوام کو سہولتیں پہنچانے پر صرف کرنے کی کوشش کریں،آپ کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان کے عوام چیخ رہے ہیں، بلک رہے ہیں،روٹی اور پانی کو ترس رہے ہیں اور اشرافیہ اور جاگیردار اپنی شاہ خرچیوں میں مصروف ہیں۔لندن میں بیٹھی گزشتہ کابینہ اب بھی اس ساری تباہی اور جنگ و جدل کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کو ٹھہرا رہی ہے،ریلیف کی بات کی گئی تو نگران حکومت نے سارا ملبہ پی ڈی ایم پہ ڈال دیا،پی ڈی ایم سے پوچھتے ہیں تو وہ اس سارے معاملے سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔وزیراعظم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ریاست تو ماں ہوتی ہے،ماں اپنے بچوں کے حقوق سے کیسے لاتعلق رہ سکتی ہے۔ماں دیکھ رہی ہے کہ اس کے شہریوں کو اس قدر مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ خودکشیاں کر رہے ہیں،اپنی اولاد کو فروخت کر رہے ہیں،انتشار اور فساد پر اتر آئے ہیں،کیا ایک ماں یہ سب برادشت کر سکتی ہے؟ موجودہ صورت حال میں ہر محب وطن شہری اس خوف میں مبتلا ہے کہ عوام کی یہ بے چینی کہیں سول نافرمانی کی تحریک کا روپ نہ دھار لے،کہیں انتشار اور فساد کی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔لوگ جس قدر تنگ ہو چکے ہیں ان سے اب کچھ بھی بعید نہیں ہے۔وزیراعظم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ملک پرکڑا وقت ہے،اس صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے ریاست اور ریاستی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،،لوگ بے رحم اشرافیہ اور سیاست دانوں سے بے زار ہو چکے،کرپشن کی دیمک نے ریاستی سسٹم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے،اگر اب بھی ریاست نے اپنے شہریوں کے حقوق کے لیے آواز نہ ااٹھائی،کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تو نفرت کی یہ آگ پورے سسٹم کو بھسم کر دے گی۔مہنگائی سے تنگ عوام سڑکوں پر ہیں،یہ احتجاج کر رہے ہیں اور احتجاج ان کا بنیادی حق ہے، ریاست ان کی آواز سنے،ان کے حقوق کو یقینی بنائے تاکہ ریاست سے خوف زدہ لوگ،محبت کی طرف لوٹ سکیں۔